عنترہ بن شداد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عنترہ بن شداد
(عربی میں: عنترة بن شداد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 525ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 608ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حائل علاقہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ ،  شاعری [3]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عنترہ بن شداد عہد جاہلیت کا ممتاز شاعر تھا،ان کا کلام کعبہ میں لٹکائے جانے قصائد جن کو سبعہ معلقات کہا جاتا ہے، میں شامل تھا۔

ولادت[ترمیم]

عنترہ بن شداد بن العبسی المصری 525ء کو نجد میں پیدا ہوا

حالات زندگی[ترمیم]

ابو المفلس عنترہ بن عمر بن شداد عبسی کا باپ شریف النسل تھا اور ماں زبیبہ حبشہ تھی۔ یہ عرب کے بد نسلوں بلکہ غیر عربوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے باپ نے جاہلی دستور کے مطابق اس کی پیدائش کے وقت ہی نفی کردی تھی۔ کیوں کہ وہ لونڈی کے پیٹ کے بچے کو اپنی نسل میں شمار نہیں کرتے تھے۔ خود یہ لڑکا بھی اپنی غلامی کے داغ سے بیزار رہا۔ اس نے جنگ و جدل کی مشق سپہ گری اور شہسواری کی تربیت حاصل کرلی۔ بلآخرایک دن جنگی شہسوار اور فوجی کمانڈر بن گیا۔ اتفاق سے کسی قبیلے نے عبس پر لوٹ مار مچادی اور ان کے اونٹ بھگالے گئے۔ عبسیوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان میں عنترہ بھی شامل تھا۔ اس کے باپ نے کہ ’عنترہ حملہ کرو‘ وہ پہلے ہی باپ کے اس کو غلام بنائے رکھنے پر جلا بھنا ہوا تھا۔ فوراً جواب دیا ’غلام اچھی طرح حملہ نہیں کر سکتا ہے البتہ وہ دودھ اچھی طرح دوھ سکتا ہے۔ تو اس کے باپ مے کہا ’حملہ کرو تو آزاد ہے‘ تو وہ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑا اور خوب جی سے لڑا حتیٰ حملہ آوروں کو شکست ہوئی اور اس نے لوٹے ہوئے اونٹ واپس لے لیے۔ تب اس کے باپ نے اسے اپنا بیٹا تسلیم کیا اور اسی دن سے اس کا نام مشہور ہونا شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ بہادری، دلیری، پیش قدی اور جرت میں اس کا نام ضرب المثل ہو گیا ۔

داحس اور غبراء کی جنگوں میں عنترہ نے اپنے قبیلے کی قیادت کی اور سرداری کے منصب پر فائز ہو گیا۔ اس نے بہت لمبی عمر پائی اور وہ تقریباً 28ھ میں قتل ہو گیا ۔

شاعری[ترمیم]

عنترہ کے دور غلامی میں اس سے کسی قسم کی شعری روایت نہیں ملتی ہے۔ لیکن جب اس کے باپ نے اسے اپنا بیٹا تسلیم کر لیا تو قبیلے کی محبت اس کے دل میں گھر گئی تو اس کے سینے میں شاعری نے جوش مارا تو اس کی زبان پر فخر، جنگ اور محبت کے اشعار رواں ہو گئے اور وہ نہایت عمدہ اشعار کہنے لگا۔ اس کے کلام میں غزل کی حلاوت اور فخر کی متانت ملے گی، مگر اس کے کلام کا اکثر حصہ مصنوعی ہے جسے صرف طرز بیان اور اس کے اشعار کے موضوعات کے ساتھ مطابقت رکھنے کے سوا اور کوئی نسبت نہیں، اس کی اصل اور غیر مخلوط شاعری میں اس کا وہ حصہ شہکار ہے جسے اس نے اپنی شاعری کا سکہ جمانے اور فصاحت کے ثبوت کے لیے نظم کیا تھا ۔

اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ خاندان عبس کے ایک فرد نے اسے بد نسل اور سیاہ ہونے کا طعنہ دیا تو عنترہ نے اسے کہا ’میں جنگ میں حصہ لیتا ہوں مجھے مال غنیمت میں پورا حصہ دیا جاتا ہے، میں ہاتھ پھیلانا پسند نہیں کرتا ہوں، میں اپنے مال کی سخاوت کرتا ہوں اور اہم موقعے پر مجھے آگے کیا جاتا ہے۔ طعنہ دینے والے نے کہا ’میں تجھ سے بہتر شاعری کرتا ہوں‘ عنترہ نے کہا تجھے عنقریب پتہ چل جائے گا۔ پھر اس نے صبح اپنا مشہور مذہبہ قصیدہ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اس طرح اس نے طعنہ دینے والے ناطقہ بند کر دیا اور اسے شکست دی۔[4]

وفات[ترمیم]

عنترہ کو حرب سباق میں قتل کیا گیا تھا۔ عنترہ 615ء میں قتل کیا گیا .[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20201089008 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  3. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20201089008 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  4. احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور
  5. الروائع عنترہ بن شداد، طبع بیروت