عکرمہ مولی ابن عباس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عکرمہ مولی ابن عباس
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 723ء (22–23 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد عبد اللہ بن عباس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  مفسر قرآن ،  مفسرِ قانون   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عکرمہ مولی ابن عباسؓ تابعین میں سے ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

عکرمہ نسلاً بربری اورحضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے نامور غلام ہیں،ابتدا میں حصین بن الحرالعتبری کی غلامی میں تھے، انھوں نے ان کو ابن عباسؓ کو دے دیا تھا، عکرمہ اس وقت بہت کم سن تھے اس لیے ابن عباسؓ ہی کے دامن تربیت میں ان کی پرورش ہوئی، ان تعلیم و تربیت کے اثرسے وہ اس درجہ کو پہنچ گئے کہ ان کی شخصیت بڑے بڑے آزاد علما کے لیے باعث رشک ہو گئی۔

تعلیم[ترمیم]

عکرمہ میں تحصیل علم کی استعداد اوراس کا ذوق و شوق فطری تھا، وہ ہر شے سے سبق لیتے تھے، ان کا بیان ہے کہ جب میں بازار جاتا تھا اور کوئی بات سنتا تھا تو اس سے میرے لیے علم کے پچاسوں دروازے کھل جاتے تھے۔ اس مناسبت طبع کے ساتھ ان کو ابن عباسؓ جیسا حبر اورشفیق آقا مل گیا جس نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ان کو تعلیم دی [1] عکرمہ کو علم کی اتنی پیاس تھی،کہ وہ تاعمر اس سے سیر نہ ہوئے، مسلسل چالیس برس تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ [2]

فضل وکمال[ترمیم]

ان کے ذاتی ذوق وشوق اورابن عباس کی توجہ نے ان کی علم کا دریا بنا دیا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ (علم ) سمندروں میں سے ایک سمندر تھے[3] حافظ ذہبی ان کوحبر العالم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔[4] ان کے زمانہ میں غلاموں میں کیا بڑے بڑے شرفاء اورنجباء میں بھی کوئی ان کا ہمسر نہ تھا،تفسیر، حدیث،فقہ جملہ علوم میں انھیں درجہ امامت حاصل تھا۔

تفسیر[ترمیم]

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تفسیر کے اتنے بڑے عالم تھے کہ کم صحابہ اس فن میں ان کامقابلہ کرسکتے تھے، انھوں نے بڑی توجہ اورکوشش سے عکرمہ کو تفسیر پڑھائی تھی [5] اوراپنا سارا علم ان کے سینہ میں منتقل کر دیا تھا،ابن عباس کے تلامذہ میں تفسیر میں کوئی ان کا ہم سر نہ تھا عباس بن مصعب مروزی کا بیان ہے کہ ابن عباسؓ کے تلامذہ میں عکرمہ سب سے بڑے عالم تھے [6] قتادہ کہتے تھے کہ اعلم التابعین چار ہیں عطاء،سعید بن جبیر اورعکرمہ اوران چاروں میں عکرمہ تفسیر کے سب سے بڑے عالم ہیں،امام شعبی کہتے تھے کہ عکرمہ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا اب باقی نہیں ہے،جب تک عکرمہ بصرہ میں رہتے تھے، اس وقت تک حسن بصری تفسیر نہیں بیان کرتے تھے۔ [7]

ابن عباسؓ کی زندگی میں عکرمہ بڑے مفسر ہو گئے تھے، ابن عباسؓ کبھی کبھی ان کا امتحان لیتے تھے اور ان کے عالمانہ جواب سُن کر اظہار خوشنودی کرتے تھے، ایک مرتبہ انھوں نے یہ آیت: لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا [8]

تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے۔ پڑھ کر فرمایا کہ اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ ہے معلوم نہیں انھوں نے نجات پائی یا ہلاک ہو گئے عکرمہ نے نہایت وضاحت اورتشریح سے ثابت کر دیا کہ نجات پائی،ابن عباسؓ نے خوش ہوکر ان کو ایک حلہ پہنایا۔

تفسیر کا درس[ترمیم]

مجاہد اور ابن جبیر جیسے فضلاء ان سے تفسیر میں استفادہ کرتے تھے، یہ دونوں ان سے سوالات کرتے تھے، عکرمہ ان کا جواب دیتے تھے، ان کے سوالات ختم ہونے کے بعد پھر اپنی جانب سے بہت سی آیات کی شانِ نزول بتاتے [9]ان کے فیض سے مجاہد امام تفسیر بن گئے تھے۔

حدیث[ترمیم]

ان کا خاص فن حدیث تھا،اس کے وہ بحرے بیکران تھے،حدیث میں انھوں نے زیادہ تر ابن عباسؓ سے فیض پایا تھا، ان کے علاوہ صحابہ میں حضرت علیؓ ، ابوہریرہؓ ابن عمرؓ بن عمروبن العاصؓ، ابو سعید خدریؓ، عقبہ بن عامرؓ، حجاج بن عمرو بن غزیہ،معاویہ بن ؓ ابی سفیان، صفوان بن امیہؓ،یعلی بن امیہؓ، جابرؓ،ابوقتادہؓ،ام المومنین عائشہ صدیقہ اور حمنہ بنت حجش وغیرہ سے بھی استفادہ کیا تھا۔ [10]

حدیث میں ان کی وسعتِ علم کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ابن عباسؓ کی مرویات جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی ہے زیادہ تر انہی سے مروی ہیں، علامہ ابن سعد ان کو کثیر الحدیث لکھتے ہیں [11] شہر بن حوشب کہتے تھے کہ ہر قوم کا ایک حبر ہوتا ہے اس امت کا حبر ابن عباس کا غلام ہے۔

طالبانِ حدیث کا مرجوعہ[ترمیم]

ان کی ذات مرجع خلائق تھی،طالبانِ حدیث دور دور سے ان سے استفادہ کے لیے آتے تھے،جدھر سے وہ گزرجاتے تھے،شائقین کا ٹھٹھ لگ جاتا تھا،ایوب کا بیان ہے کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ عکرمہ دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں گے ان سے جاکر ملوں گا اتفاق سے ایک دن بصرہ کے بازار میں مل گئے ان کے گرد آدمیوں کا ہجوم جمع ہو گیا میں بھی قریب گیا، لیکن ہجوم کی کثرت سے کچھ پوچھ نہ سکا، یہ دیکھ کر میں ان کی سواری کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، لوگ ان سے جو کچھ پوچھتے تھے اوروہ جو جوابات دیتے تھے میں ان کو یاد کرتا جاتا تھا، [12] ایوب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عکرمہ ہمارے یہاں آئے، ان کے پاس لوگوں کا اتنا ہجوم ہو گیا کہ انھیں مجبور ہوکر چھت پر چڑھ جانا پڑا۔ [13]

عکرمہ پر جرح[ترمیم]

ان بیانات کے ساتھ ساتھ رجال کی کتابوں میں عکرمہ کے بارہ میں ایسی تنقدیں بھی ملتی ہیں جن سے ان کی روایات کی صداقت بہت کچھ مشکوک ہوجاتی ہے وہ تنقید یں یہ ہیں۔ ابو الا سودوئیلی کہتے ہیں کہ عکرمہ میں فہم ودانائی کم تھی جب ان سے کوئی حدیث پوچھی جاتی جس کو انھوں نے دو آدمیوں سے سنا ہوتا تو وہ اس کو کبھی ایک کی طرف منسوب کردیتے کبھی دوسرے کی طرف لیکن یہ تنقید آپ اپنی تردید کرتی ہے جب انھوں نے ایک روایت دور اویوں سے سنی تو انھیں اختیار ہے جس کی جانب چاہیں منسوب کریں اس سے ان کی فہم پر کس طرح حرف آسکتا ہے۔

ابوخلف الخرار یحی البکار سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن عمرؓ سے سنا تھا وہ اپنے غلام نافع سے کہتے تھے نافع خدا سے ڈرو اور مجھ پر اس طرح بہتان نہ باندھوں جس طرح عکرمہ ابن عباسؓ پر باندھتے تھے۔ جریر بن عبد الحمید،یزید بن ابی زیاد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس کے صاحبزادے عکرمہ کو ابن عباس پر جھوٹ باندھنے کے جرم میں سزا دیتے تھے۔ ہشام بن سعد،عطاء خراسانی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے کہا کہ عکرمہ کا گمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں میمونہؓ کے ساتھ شادی کی انھوں نے جواب دیا کہ انھوں نے جھوٹ کہا۔ فطر بن خلیفہ کا بیان ہے کہ میں نے عطاء سے کہا کہ عکرمہ کہتے ہیں کہ موزوں پر مسح کو قرآن کے احکام نے باطل اورمنسوخ کر دیا ہے عطاء نے کہا انھوں نے جھوٹ کہا میں نے ابن عباسؓ سے سنا ہے،وہ کہتے تھے کہ خفین پر مسح کرو، اگرچہ تم بیت الخلا سے نکلو۔ اسرائیل ،عبد الکریم جرزی سے روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ زمین کے لگان کو مکروہ سمجھتے تھے،انھوں نے سعید بن جبیر سے اس کا تذکرہ کیا، انھوں نے کہا عکرمہ نے جھوٹ کہا۔

وہیب بن خالد یحیی بن سعید انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ وہ انھیں جھوٹا کہتے تھے۔ ابراہیم بن منذر معن بن عیسی سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک ،عکرمہ کوثقہ نہیں سمجھتے تھے اوران سے روایت کی ممانعت کرتے تھے اوراس قبیل کے بعض بیانات ہیں۔ [14] ان بیانات کی حیثیت لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی لائق اعتماد نہیں اس لیے کہ اولاً تو ان کی سندیں مسلسل نہیں ہیں دوسرے ان کے راوی لائق اعتماد نہیں۔ ابوالاسودوئلی میں شیعیت تھی [15] اگرچہ شیعہ ہونا بے اعتباری کی دلیل نہیں لیکن جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا خارجیوں کے بعض خیالات عکرمہ کی جانب منسوب تھے ایسی صورت میں ان کے بارہ میں ایک شیعہ کا بیان لائق اعتبار نہیں رہ جاتا۔

دوسری روایت میں یحی البکار باتفاق ارباب فن لائق اعتماد نہیں [16]تیسری روایت کا ایک راوی یزید شیعہ ہے اس کے علاوہ اس نے خود عکرمہ سے روایت لی ہے [17]ایسی صورت میں اس کا بیان خود اس کے عمل کے خلاف ہوجاتا ہے پھر پہلا راوی جریر بن عبد الحمید بھی کچھ زیادہ لائق اعتماد نہیں [18]چوتھی روایت میں ہشام بن سعد کی روایات پایہ اعتبار سے ساقط ہیں، محتاط محدثین ان سے روایت نہیں لیتے تھے۔ [19]

پانچویں روایت میں فطر بن خلیفہ بعض لوگوں کے نزدیک قابلِ اعتبار نہیں [20]چھٹی روایت کاراوی اسرائیل بالکل مجہول ہے،پھر اس میں جس بنا پر عکرمہ کی تکذیب کی گئی ہے اس کی حیثیت یہ ہے کہ گو بروایت صحیحہ عہدرسالت میں لگان لیا جاتا تھا، لیکن بعض صحابہ کو لا علمی یا غلط فہمی کی بنا پر اس کے جواز میں شک تھا؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اگرچہ اس کا ذاتی علم تھا کہ عہد رسالت میں برابر لگان لیا جاتا تھا، لیکن بعض صحابہ کو لاعلمی یا غلط فہمی کی بنا پر اس کے جواز میں شک تھا؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو اگرچہ اس کا ذاتی علم تھا کہ عہد رسالت میں برابر لگان لیا جاتا تھا،لیکن بعض صحابہ کو لا علمی یا غلط فہمی کی بنا پر اس کے جواز میں شک تھا اس لیے ابن عمر ؓ نے بھی اس خیال سے لگان لینا ترک کر دیا تھا کہ ممکن ہے انھوں نے آنحضرت ﷺ کی ممانعت نہ سنی ہو [21] ایسی حالت میں عکرمہ کا خیال بالکل بے بنیاد نہیں تھا، ساتویں روایت میں خالد ضعفاء میں ہے [22] آٹھویں روایت میں ابراہیم بن منذر کی روایت متکلم فیہ ہیں۔ [23] غرض روایتی حیثیت سے یہ تمام بیانات اعتبار کے قابل نہیں ہیں،پھر ان بیانات کے خلاف اتنی روایتیں ہیں کہ ان ہوتے ہوئے عکرمہ پر حرف رکھنا قیاس ہی میں نہیں آسکتا مثلاً:

علما اورمحدثین کا اتفاق[ترمیم]

اسحٰق بن عیسیٰ الطباع کا بیان ہے کہ میں نے مالک بن انس سے پوچھا کہ آپ کو ابن عمرؓ کے اس قول کا علم ہے کہ مجھ پر اس طرح کا جھوٹ نہ باندھو جس طرح عکرمہ ابن عباسؓ پر جھوٹ باندھتے ہیں، مالک نے کہا نہیں، مجھے اس کا علم نہیں ،البتہ سعید بن مسیب اپنے غلام برد سے ایسا کہتے تھے، اس میں شک نہیں کہ سعید بن جبیر دوسروں کی زبانی سنی ہوئی عکرمہ کی بعض روایات میں شبہ ظاہر کرتے تھے لیکن جب ان کو خود ان کی زبان سے سن لیتے تھے تو ان کا شبہ دور ہوجاتا تھا ابو اسحٰق کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابن جبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگ عکرمہ سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ہو کہ اگر میں ان کے پاس ہوتا تو شاید ان کو وہ نہ بیان کرتے، اتفاق سے اس کے بعد ہی عکرمہ آگئے اورانہوں نے وہی حدیثیں بیان کیں تمام حاضرین خاموشی کے ساتھ سنا کیے، سعید بھی کچھ نہیں بولے، جب عکرمہ اُٹھ گئے تو لوگوں نے ابن جبیر سے پوچھا ابو عبد اللہ یہ کیا اب آپ کیوں خاموش رہے ،انھوں نے کہا عکرمہ نے صحیح بیان کیں،تمام محدثین ان کی صداقت اوران کے کمالات علمی کے معترف تھے اوران کی روایات قبول کرتے تھے؛چنانچہ عطاء اورسعید دونوں ان کی حدیثیں بلا تکلف قبول کرتے تھے،حبیب ؒ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عکرمہ اورعطاء سعید کے یہاں گئے اوران کو حدیثیں سنائیں جب وہ حدیث بیان کرکے اُٹھ گئے تو میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ عکرمہ نے جو کچھ بیان کیا ہے، اس میں کسی چیز سے آپ کو انکار ہے انھوں نے کہا نہیں [24] ابن جبیر جو خود بہت بڑے عالم تھے عکرمہ کو اپنے سے بڑا عالم مانتے تھے [25] ابن جریج جو تبع تابعین میں نہایت بلند مرتبہ محدث تھے عکرمہ کے اتنے معترف تھے کہ انھوں نے ایک مرتبی یحییٰ بن ایوب مصری سے پوچھا کہ تم لوگوں نے عکرمہ سے کچھ لکھا انھوں نے کہا نہیں ابن جریج نے کہا تو تم نے دوتہائی علم ضائع کر دیا۔ [26]

قتادہ چار آدمیوں کو بڑا عالم مانتے تھے، ان میں ایک عکرمہ تھے، ابن سیرین نے ابن عباسؓ کی تمام روایتیں عکرمہ ہی کے واسطہ سے لی ہیں، امام احمد بن حنبل ان کی روایات لائق احتجاج سمجھتے تھے، ابن معین ثقاہت میں عکرمہ کو بن جبیر کے برابر سمجھتے تھے،ان کو ان سے اتنی عقیدت تھی کہ ان کے متعلق کسی قسم کا سوء ظن روانہ رکھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ جب میں کسی شخص کو عکرمہ اور حماد بن سلمہ کے بارہ میں عیب چینی کرتے ہوئے سنتا ہوں تو مجھے اس کے اسلام میں شک ہوجاتا ہے،ابن مدائنی کا بیان ہے کہ ابن عباسؓ کے غلاموں میں عکرمہ سے زیادہ وسیع العلم دوسرا نہ تھا، عکرمہ اہل علم میں تھے، امام بخاری کہتے تھے کہ ہمارے تمام اصحاب عکرمہ سے احتجاج کرتے ہیں، امام نسائی انھیں ثقہ کہتے ہیں، ابن ابی حاتم کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ عکرمہ کیسے ہیں،انھوں نے جواب دیا ثقہ ہیں، میں نے پوچھا ان کی احادیث لائق احتجاج ہیں،فرمایا ہاں جب وہ ثقات سے روایت کریں، یحییٰ بن سعید اورامام مالک نے ان کی روایت کا نہیں ؛بلکہ ان کی رائے کا انکار کیا ہے،ان سے پوچھا گیا ابن عباسؓ کے اور غلاموں کا کیا حال ہے ،فرمایا عکرمہ ان سب میں بلند مرتبہ ہیں، اس موقع پر ان کی کوئی حدیث بیان کرنے کی ضرورت نہیں، ثقات ان سے جو روایت کرتے ہیں وہ سب روایت صحیح اور درست ہیں، ائمہ حدیث نے ان کی روایت سے منع نہیں کیا ہے اوراصحابِ صحاح نے ان کی روایات کو صحاح میں داخل کیا ہے،ان کی شخصیت اس سے بلند ہے کہ میں ان کی احادیث کو ثبوت میں پیش کروں۔ [27] ابن مندہ کا بیان ہے کہ اکابر تابعین کی بڑی تعداد اورتبع تابعین نے عکرمہ کی تعدیل کی ہے، ان سے احادیث روایت کی ہیں، ان کی منفرد روایتوں سے صفات سنن اوراحکام میں احتجاج کیا ہے،ان سے تین سو سے زیادہ اشخاص نے روایتیں کی ہیں، جن میں ستر سے زیادہ بڑے اورخیار تابعین ہیں، یہ وہ مرتبہ ہے جو کسی تابعی کو حاصل نہیں، جن ائمہ نے ان پر جرح کی ہے وہ بھی ان کی احادیث قبول کرنے سے بے نیاز نہ رہ سکے،ان کی احادیث حسن قبول کے ساتھ لی جاتی ہیں،ابتدا یعنی تابعین کے دور سے لے کر ائمہ اربعہ یعنی بخاری، مسلم، ابو داؤد اورنسائی کے زمانہ تک ائمہ نے ان کی صحیح روایات لے کر ثابت وسیفم اورصحیح روایات میں امتیاز قائم کیا ہے اوران کی روایات سے قرنا بعدقرن اوراماماًبعد امام احتجاج ہوتا چلا آیا ہے اورچاروں ائمہ نے ان کی روایات لی ہیں اور ان سے احتجاج کیا ہے ،امام مسلم ان کے متعلق اچھی رائے نہ رکھتے تھے،اس کے باوجود انھوں نے ان کی روایتیں لی ہیں اورجرح کے بعد ان کی تعدیل کی ہے۔ [28]

ابو عبد اللہ محمد بن نصر المروزی کا بیان ہے کہ عکرمہ کی احادیث سے احتجاج پر تمام علمائے حدیث کا اجتماع ہے ،ہمارے زمانہ کے تمام ممتاز محدثین، احمد بن حنبل ابن راہویہ،یحییٰ ابن معین اور ابو ثور وغیرہ کا اس پر اتفاق ہے، میں نے ابن راہویہ سے ان کی روایات سے احتجاج کے بارہ میں پوچھا انھوں نے میرے سوال پر متعجب ہو کر کہا، عکرمہ ہمارے نزدیک ساری دنیا کے امام ہیں ، بعض اورلوگوں نے یحییٰ بن معین سے یہی سوال کیا تو انھوں نے بھی اس سوال پر تعجب کا اظہار کیا [29] جابر بن زید کہتے تھے کہ عکرمہ اعلم الناس ہیں، جو شخص ذرا بھی شمیم علم کا رائحہ شناس ہے ،اس کو یزید بن ابی زیاد اس باب میں قابل احتجاج نہیں ہیں، اورایک مجروح کے قول سے ایک عدل مجروح نہیں ہو سکتا،عکرمہ وہ شخص ہیں جن کے سرچشمۂ علم سے اہل علم نے ساری دنیا میں حدیث اورفقہ پھیلائی ہے، مجھے ان میں سوائے تھوڑی سی ظرافت کے اورکسی برائی کا علم نہیں۔ [30] غرض چند غیر مستند بیانات کے علاوہ جن کی حیثیت اوپر ظاہر کی جاچکی ہے تمام علما ومحدثیں کا عکرمہ کی جلالتِ شان کی صداقت پر اتفاق ہے،ان کی صداقت کی ناقابل انکار شہادت یہ ہے کہ خود حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو جن کے دامن میں عکرمہ مجھ سے جو روایت کریں اسے سچ سمجھو ان تمام اقوال واسناد کے بعد عکرمہ کی علمی عظمت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

تلامذہ[ترمیم]

ان بیانات کے علاوہ ان کے علمی مرتبہ کا اندازہ ان لا تعداد طالبان حدیث سے ہو سکتا ہے،جنھوں نے ان سے سماع حدیث کیا تھا اوراس میں بہت سے ائمہ تھے،ان کی فہرست نہایت طویل ہے بعض ممتاز اور لائق ذکر نام یہ ہیں۔ ابراہیم نخعی، جابر بن زید، امام شعبی، ابو اسحٰق سبیعی، ابو الزبیر، قتادہ ،سماک بن حرب، عاصم الاحول، حصین بن عبد الرحمن،ایوب،خالد نحداء، داؤد بن ابی ہند، عاصم بن بہدلہ عبد الکریم الجزری، حمید الطویل ،موسیٰ بن عقبہ، عمرو بن دینار، عطاء بن سائب، یحییٰ بن سعید انصاری، یزید بن ابی حبیب، ابو اسحٰق شیبانی ،ہشام بن حسان، یحییٰ بن کثیر، حکم بن عینیہ خصیف الجزری اورداؤد بن الحصین وغیرہ۔ [31]

فقہ[ترمیم]

گو عکرمہ کا اصل فن حدیث تھا، لیکن فقہ میں بھی وہ امتیازی درجہ رکھتے تھے ابن حبان لکھتے ہیں کہ عکرمہ اپنے زمانہ کے فقہ اور قرآن کے بڑے علما میں تھے ، ان کے تفقہ کی بڑی سند یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اپنی زندگی ہی میں ان کو افتاء کا مجاز بنادیا تھا، ان کا خود بیان ہے کہ ابن عباسؓ نے مجھ سے فتویٰ دینے کو کہا میں نے دو مرتبہ معذرت کی کہ اگر اس زمانہ کے لوگ صالحین کی طرح ہوتے تو مجھے تامل نہ ہوتا، یہ عذر سننے کے بعد بھی انھوں نے اصرار کیا کہ جو شخص تم سے ضرور ی مسائل پوچھا کرے، اس کو بتادیا کرو، اورجو غیر ضروری سوالات کرے اس کا جواب نہ دیا کرو، اس طریقہ عمل سے تمھارا دو تہائی بوجھ ہلکا ہوجائے گا [32]ان کا فقہی کمال اتنا مسلم تھا کہ جب وہ بصرہ جاتے اورجتنے دنوں رہتے اتنے دنوں تک حسن بصری فتویٰ دیتے تھے (تذکرہ،ص4) ان کے انتقال کے وقت خلق خدا کی زبان پر تھا کہ آج افقہ الناس دنیا سے اٹھ گیا۔ [33] ان کے معاصر ین مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے،عمرو بن دینار کا بیان ہے کہ جابر بن زید نے مجھ سے چند مسائل عکرمہ سے پوچھنے کے لیے کہا اورہدایت کی کہ ابن عباسؓ کا یہ غلام دریا ہے اس سے پوچھا کرو۔ [34]

مغازی[ترمیم]

حدیث وفقہ کے علاوہ تاریخ میں بھی ان کو درک تھا، مغازی کے ممتاز عالم تھے،اس پر اتنا عبور تھا کہ مغازی بیان کرتے وقت اپنی قوتِ گویائی سے میدان جنگ کا سماں باندھ دیتے تھے،ابن عینیہ کا بیان ہے کہ عکرمہ جب مغازی بیان کرتے تھے تو سننے والے کو معلوم ہوتا کہ وہ مجاہدوں کے سامنے موجود ہے اور ان کو دیکھ رہا ہے۔ [35]

وفات[ترمیم]

با ختلافِ روایت 106 یا 107 میں وفات پائی [36] حافظ ذہبی کے نزدیک 107 میں مدینہ میں انتقال ہوا، ایک روایت قیروان (افریقہ) میں بھی انتقال کی ملتی ہے لیکن یہ لائق اعتماد نہیں۔

بعض شکوک کا ازالہ[ترمیم]

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عکرمہ کارجحان خارجی فرقہ صفریہ اوراباضیہ کی طرف تھا اورنجدہ خارجی کے ساتھ ان کے تعلقات ومراسم تھے،وہ ان کے پاس چھ مہینہ تک رہا بھی تھا، مغرب کے خارجیوں نے ان سے علمی استفادہ کیا تھا،لیکن ان بیانات کی صداقت بڑی حد تک مشکوک ہے۔ ابن سعدمیں جو سب سے قدیم ماخذ ہے صرف اس قدر ملتا ہے: گمان کیا جاتا ہے کہ خارجیوں کی رائے رکھتے تھے، اس بیان کی جو حیثیت ہے،وہ ظن اور گمان کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے،بعض لوگ سرے سے اس بیان ہی کے منکر ہیں ؛چنانچہ عجلی کہتے ہیں کہ وہ مکی تابعی اورثقہ ہیں، اورخارجیت کی تہمت سے جو لوگ ان پر لگاتے ہیں بری ہیں۔ [37]

ان بیانات کے علاوہ قرائن بھی اس کے خلاف ہیں،ان کی نشو و نما حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے دامن میں ہوئی تھی،جو خارجیوں کے دشمن تھے، ان کا پہلا آقا حصبن بن الحر العنبری بھی محبِ اہل بیت تھا، ایسی حالت میں خارجیت کی طرف ان کے میلان کا کم امکان ہے، اس کے مقابلہ اگر شیعیت کی طرف ان کا رجحان بیان کیا جاتاتو زیادہ قرین قیاس ہوسکتاتھا۔ مختلف بیانات کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عکرمہ عام مسلمانوں کی طرح خوارج کے بارہ میں متشدد نہ تھے اور ان سے رسم وراہ رکھتے تھے اور چونکہ ان کا یہ طرز عمل عام مسلمانوں کے طریقہ کے خلاف تھا اوروہ اسے پسند نہ کرتے تھے، اس لیے ان کی خارجیت کی شہرت ہو گئی، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی خاص مسئلہ میں وہ خوارج کے ہم خیال رہے اس لیے ان کو خارجی مشہور کر دیا گیا ہو ورنہ ان کو اس جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔

سیروسیاحت[ترمیم]

عکرمہ کو سیر وسیاحت کا بڑا شوق تھا،وہ ہمیشہ سیرو سیاحت میں مصروف رہتے تھے،مشرق میں ان کی سیاحت کا دائرہ سمر قند تک اور مغرب میں مصر وافریقہ تک وسیع تھا۔ [38]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن خلکان :1/319، ابن سعد حوالہ مذکور)
  2. (تذکرۃ الحفاظ:1/84)
  3. (ابن سعد:5/216)
  4. (تذکرہ الحفاظ:1/83)
  5. (ابن سعد:5/212)
  6. (تہذیب التہذیب:7/265)
  7. (ایضا:266)
  8. (الاعراف:164)
  9. (تہذیب التہذیب:7/266)
  10. (ایضاً)
  11. (ابن سعد:7/216)
  12. (ابن سعد:5/213)
  13. (ابن سعد ایضاً)
  14. (یہ تمام روایتیں تہذیب التہذیب ، ج7،تذکرہ عکرمہ میں ہیں)
  15. (تہذیب التہذیب:12/11)
  16. (ایضاً:11/279)
  17. ( تہذیب التہذیب:11/329)
  18. (ایضا:2/76)
  19. (تہذیب التہذیب:7/213)
  20. (ایضا:8/302)
  21. ( بخاری:1/315)
  22. (تہذیب التہذیب:11/17)
  23. (ایضاً:1/167)
  24. (ابن سعد :5/213)
  25. (تہذیب التہذیب :7/266)
  26. (ایضاً)
  27. (تہذیب التہذیب:7/ 266تا 270)
  28. (تہذیب التہذیب:7/72)
  29. (تہذیب التہذیب ایضاً:273)
  30. (تہذیب التہذیب ایضاً:272،273)
  31. (تہذیب التہذیب ایضاً:272)
  32. (ایضاً:271)
  33. (ابن سعد:5/216)
  34. (ابن سعد ایضاً:213)
  35. (تہذیب التہذیب:7/266)
  36. (ابن سعد ،تذکرہ الحفاظ:1/184)
  37. (تہذیب التہذیب:7/270)
  38. (تہذیب التہذیب:7/270)