عیسی چرن صدا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عیسی چرن صدا کا شمار اردو کے مسیحی شعرا میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق آگرہ کے ایک معزز خاندان کائستھ سے تھا۔ یہ پیدائشی مسیحی نہیں تھا بعد میں مسیحت قبول کی تھی۔ اس کا اردو شاعری میں اہم خدمت نغمہائے صدا ہے جو نظموں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔

تعارف[ترمیم]

عیسی چرن صدا کا تعلق آگرہ کے ایک معزز خاندان کائستھ سے تھا۔ اس کے والد ماجد کا نام منشی اجورھیا پرشاد تھا۔ والد صاحب ایک معزز وکیل تھے اور مشرقی لٹریچر کے قدر دان تھے۔ عیسی چرن کی پیدائش یکم اپریل 1875ء کو آگرہ میں ہوئی۔ والدین نے اپنے بچے کا نام دیبی پرشاد رکھا۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

عیسی چرن نے بچپن میں ایک مکتب سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے کیونکہ والد صاحب 1881ء میں فوت ہو گئے تھے۔ فارسی کے بعد انگریزی تعلیم کی تکمیل کے لیے سینٹ جانس کالج آگرہ میں داخلہ لے لیا۔ کالج میں ہی عیسی چرن کو مسیحی تعلیم سے واقفیت ہوئی۔ وہ اس تعلیم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کالج کے پرنسپل سے بپتسمہ لے کر مسیحیت قبول کر لی۔ مسیحیت قبول کر کے اپنا نام دیبی پرشاد سے عیسی چرن رکھ لیا۔ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرنگ مشن اسکول ضلع بٹالہ امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ اس اسکول سے انٹرنس کا امحتان پاس کیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے باقاعدہ داخلہ نہیں لیا۔

ملازمت[ترمیم]

عیسی چرن 1892ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ میں مشن کی ملازمت کر لی اور تعلیمی خدمات سر انجام دینے لگے۔ اس کے بعد جلد ہی شادی کر لی۔ 1902ء میں مشن کی ملازمت ترک کر دی اور اس سے مستعفی ہو گئے۔ 1904ء میں اناؤ گورنمنٹ اسکول میں استاد کی ملازمت اختیار کر لی۔ جلد ہی عیسی چرن کو ترقی مل گئی اور 1904ء میں ہی ضلع لکھنؤ کے سب ڈپٹی انسپکٹر کا عہدہ مل گیا۔ اس کے بعد فنچور میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ اپریل 1925ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور اس وقت یہ شعر کہا

خیر و خوبی سے ہوا ختم میرا کام خدا مجھ سے محمود ہمیشہ ہو نام تیرا خدا

اس ملازمت کے بعد اسی سال ہی لکھنؤ میں سوہن لال مرائی پاٹھ شالا میں ہیڈ ماسٹر منختب ہو گئے۔ 1930ء میں ترقی ملی اور لکھنؤ کنٹونمنٹ بورڈ میں سپرنٹنڈنٹ تعلیم مقرر ہو گئے۔

شاعری[ترمیم]

عیسی چرن کو اردو شاعری کا شوق بیرنگ مشن اسکول میں تعلیم کے دوران میں پیدا ہوا۔ 1886ء میں ایک امریکن استانی نے طلبہ سے ایک انگریزی نظم کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کی فرمائش کی۔ تمام ترجموں میں عیسی چرن کا ترجمہ سب سے عمدہ تھا۔ اس پر انعام بھی حاصل کیا۔ اس وجہ سے شعر کہنے کا ذوق پیدا ہوا۔ کتب خانے جاتے اور وہاں جا کر شعر و سخن کی کتابیں لے کر مطالعہ کرتے تھے۔ عیسی چرن نے اپنے لیے صدا تخلص منتخب کیا۔ لکھنؤ قیام کے دوران میں عیسی چرن نے اپنے ذوق سخن پر بہت زیادہ کام کیا۔ اس دوران میں اس کو اپنے لیے کامل استاد کی تلاش تھی جو اس کی اصلاح کر سکے۔ بہت زیادہ جستجو کے بعد سید آغا حسین امانت کے دوسرے فرزند سید عباس حسن فصاحت کی خدمت میں باریابی ہوئی۔ فصاحت صاحب کی صحبت میں شعر و سخن کے گل بوٹے کھلنے لگے تھے۔ عیسی چرن کی شاعری میں مذہبی جوش تھا جو آخر عمر تک شاعری میں برقرار رہا۔ اس نے بائبل مقدس کے پرانے عہدنامے کو منظوم کرنے کا عہد کیا۔ اس کا ترجمہ کر رہے تھے کہ جان ملٹن کی مشہور کتاب پیرا ڈائس لوسٹ (فردوس گمشدہ) کا ترجمہ کرنے کی جانب خیال گیا تو اس کے ترجمے میں مشغول ہو گئے۔ 1914ء میں مکمل کر کے مطیع دلگراز لکھنؤ سے شائع کروایا۔ 1924ء میں یوپی ٹیکسٹ بک کمیٹی سے اس ترجمہ کو دوبارہ شائع کروایا۔ عیسی چرن نے اپنے مکان کے ایک کمرے میں دار المطالعہ فری ریڈنگ رومقائم کیا جس میں فارسی، اردو اور انگریزی کے مختلف موضوعات پر مشتمل کتابیں، رسالے اور اخبارات رکھے جاتے تھے۔ 1926ء میں ملٹن کی دوسری کتاب سمسن اگونسٹس کا منظوم ترجمہ سمسون فخروں کے نام سے شائع کیا۔ 1928ء میں اپنی کتاب نغمائے صدا کو شائع کیا۔

نمونۂ کلام[ترمیم]

حمد

رحمت تیری جہاں پہ خدائے عظیم ہے مانند و مثل تیرا جہاں میں عدیم ہے
ہیں تجھ سے خلق ارض و سما اور کائینات خالق ہے ساری خلق کا تو اور نعیم ہے
روشن ہیں تیرے فیض سے ارض و سما سبھی عاصی ہیں سخت ہم تو مگر رحیم ہے
ہر جا ہے تیرے نور سے معمور یہ زمین حاجت روا ہمارا تو ہے اور کریم ہے
غافل نہ نجات سے ہرگز ہوا صدا اب تو جہاں کے واسطے فیض عمیم ہے

تصانیف[ترمیم]

عیسی چرن چدا کی کچھ تصانیف کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. فردوس گمشدہ جو ملٹن کی کتاب پیرا ڈائس لوسٹ کا منظوم ترجمہ ہے 1914 اور دوبارہ 1924ء میں شائع کیا گیا۔
  2. سمسون فخروں جو ملٹن کی دوسری کتاب سمسن اگونسٹس کا منظوم ترجمہ ہے 1924ء میں شائع کیا گیا۔
  3. نغمہائے صدا کی اشاعت 1928ء میں ہوئی۔ یہ کتاب نظموں پر مشتمل ہے۔

بقول سید فخر موہانی وارثی مالک و مدیر رسالہ جام جہاں نما لکھنؤ عیسی چرن صدا نے نغمائے صدا کو شائع کر کے ملک و قوم، انسان کی اخلاقی، معاشرتی اور تمدنی اصلاحات کے لیے ایک ایسا دستور عمل مرتب کیا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے انسان صحیح معنوں میں انسان کہے جانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اس کی نظمیں مصنف کی دلی جذبات، عادات و اخلاق اور طرز عمل کا آئینہ ہے۔ قومی محبت اور بادشاہ وقت سے وفاداری کا نقشہ اپنی تحریروں میں اس طرح کھینچا ہے کہ دل بغیر متاثر اور اثر پزیر ہوئے نہیں رہے سکتا۔ ملک و قوم کی مروجہ برائیوں زر پرستی، زن مریدی، بت پرستی وغیرہ کی مکروہ تصویر دیکھا کر اس درجہ ان افعال قبیحہ منفض سے کیا ہے کہ ہرکس و ناکس از خود ان سے کنارہ کش ہو جائے۔ علاوہ ازیں دیگر اخلاقی مضامین کو نظم کر کے کتاب کی رونق کو دوبالا کر کے دکھایا ہے۔ [1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/ebooks/urdu-ke-maseehi-shoara-ebooks?lang=ur
  2. اردو کے مسیحی شعرا مولف ڈی اے ہیریسن قربان صفحہ 85 تا 88