غلام جیلانی (مولانا)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا غلام جیلانی کا شمار میانوالی کے چشتی سلسلہ کے اہم بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ کے دربار گولڑہ شریف سے اچھے تعلقات تھے۔ آپ دربار اکبریہ کے سجادہ نشین تھے۔

مولانا غلام جیلانی چشتی
ذاتی
پیدائش
وفات(7 جنوری 1984ء)
مذہباسلام
والدین
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممیانوالی
دوربیسویں صدی
پیشروخواجہ احمد خان میروی ، محمد اکبر علی
جانشینمحمد عبد المالک چشتی

ولادت[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی بانی جامعہ اکبریہ محمد اکبر علی چشتی کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت میانوالی میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مولانا محمد اکبر علی چشتی نے اپنے بیٹے غلام جیلانی کی تعلیم کے لیے جامعہ اکبریہ میں بڑے نامور اساتذہ کا اہتمام کیا۔ مولانا غلام جیلانی نے قاری شجاع الدین لاہوری سے ناظرہ قرآن پاک پڑھا اور بعد میں انھیں سے قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ نے درس نظامی کی کتب مولانا شہباز خان بلند شہر اور مولانا گل محمد میروی سے پڑھیں۔ اس کے بعد اپنے والد محترم کی اجازت سے دورہ حدیث کے لیے امروہہ تشریف لے گئے۔ 1943ء میں فارغ التحصیل ہو کر واپس میانوالی تشریف لائے۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی اس وقت کے سجادہ نشین خواجہ احمد خان میروی کے ہاتھ بیعت ہوئے۔ آپ نے سلوک کی تمام منازل اپنے مرشد کے زیر سایہ پوری کی۔ مولانا غلام جیلانی کو خلافت اپنے والد ماجد نے عطا کی۔

تحریک پاکستان میں حصہ[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی تحریک پاکستان کے وقت نوجوان تھے۔ آپ نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک پاکستان میں آپ نے مولانا عبدالستار خان نیازی کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ اس سلسلے میں آپ کے والد محترم نے جامعہ اکبریہ میں ایک جلسہ بھی منعقد کروایا جس میں مولانا عبد الستار خان نیازی نے شرکت کی۔ آپ نے تحریک پاکستان میں مالی اور جسمانی صعوبتیں برداشت کیں۔

سجادہ نشینی[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی کے والد محترم محمد اکبر علی چشتی نے 1956ء میں وفات پائی۔ والد محترم کی وفات کے بعد آپ والد کے سجادہ نشین ہوئے۔

حج بیت اللہ[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی کو دو مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ زیارت حرمین کے موقع پر آپ کی محبت و شوق کا انداز والہانہ ہوتا تھا۔ آپ عشق نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں ڈوبا ہوتے تھے۔ جب مدینہ پاک کی گلیوں میں گھومتے تو محبت اور شوق سے ان در و دیوار کو تکتے تھے کہ شاید پھر مدینے کا سفرنصیب ہوتا ہے یا نہیں۔

تعمیرات[ترمیم]

  1. مولانا غلام جیلانی نے جامعہ اکبریہ کی عمارت کی نئی تعمیر کروائی۔ اس میں طلبہ کے لیے درسگاہیں اور ان کی رہائش کے لیے کمرے بنوائے۔
  2. آپ نے جامعہ اکبریہ سے متصل جامع مسجد اکبریہ کو نئے سرے سے تعمیر کروایا۔
  3. آپ نے دار الاطفال کی نئی عمارت عیدگاہ کے ساتھ تعمیر کروائی۔
  4. دربار اکبریہ میں آنے والے مہمانوں کے لیے آپ نے کمرے تعمیر کروائے۔

دربار گولڑہ سے تعلقات[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی کے والد محترم کے تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ آپ نے ان تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے دربار گولڑہ شریف کے سجادہ نشین پیر سید غلام محی الدین گیلانی سے خصوصی تعلقات قائم کیے۔ آپ ہر سال بڑی گیارہویں پر گولڑہ شریف حاضری دیتے تھے۔

وصال[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی اپنی عمر کے آخری حصے میں موذی مرض شوگر کا شکار ہو گئے تھے۔ شوگر کی وجہ سے آپ کو عارضہ قلب کی شکایت ہو گئی۔ اس وجہ سے مولانا غلام جیلانی 7 جنوری 1984ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی تدفین جامعہ اکبریہ میں والد بزرگوار کے مزار کے ساتھ کی گئی۔

سیرت[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی سادہ، محنتی اور جفاکش انسان تھے۔ آپ کو خانگی اور دربار کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔ آپ اپنی روزی تجارت کر کے حاصل کرتے تھے۔ دربار اکبریہ کا نظام سنبھالنے کے بعد آپ ہی جامع مسجد اکبریہ میں نماز جمعہ کی خطابت اور امامت کے فرائض سر انجام دیتے۔ آپ کے زمانے میں لوگ کثیر تعداد میں جامع مسجد اکبریہ میں نماز جمعہ ادا کرنے آتے تھے۔ دربار اکبریہ میں آنے والے مہمانوں کی خدمت آپ خود کیا کرتے تھے۔

خلفاء[ترمیم]

مولانا غلام جیلانی نے بہت سے لوگوں کو بیعت کیا لیکن آپ کے مشہور خلفاء چار تھے۔

  1. صاحبزادہ محمد عبد المالک چشتی (سجادہ نشین میانوالی)
  2. قاضی نور احمد (سکنہ ڈھبہ تلہ گنگ)
  3. صوفی نذر محمد (بھکر)
  4. مولانا امیر احمد قریشی (ٹبہ قریشیاں میانوالی) [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سرزمین اولیاء میانوالی مرتب سید طارق مسعود شاہ صفحہ 159 تا 161