غلام محمد گھوٹوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
غلام محمد گھوٹوی
معلومات شخصیت
پیدائش جنوری1885ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منگووال  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 مارچ 1948ء (62–63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہاولپور  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیخ الاسلام غلام محمدمحدث گھوٹوی علمی و روحانی طور پر اہلسنت کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

غلام محمد۔لقب:شیخ الجامعہ،شیخ الاسلام،محدث گھوٹوی۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ الاسلام غلام محمد گھوٹوی بن چوہدری محمد عبد اللہ بن صوفی محمد خان بن چوہدری احمدیارخان بن چوہدری پیرمحمدخان بن بخت جمال خان۔چوہدری بخت جمال خان ایک مرد ِصالح اورمستجاب الدعوات تھے۔درودشریف کے عامل،اورزبان میں خاص تاثیرحاصل تھی۔آپ کاتعلق "کنگ جٹ"برادری سے ہے۔آپ کے ننھیال"وڑائچ"قوم سے ہیں۔سلسلہ ٔنسب نوشیرواں عادل بادشاہ تک منتہی ہوتاہے۔قصبہ محمد پور گھوٹہ ضلع ملتان میں قیام کی وجہ سے"گھوٹوی "معروف ہوئے۔[1]

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت باسعادت ماہ جمادی الاولی ٰ/1302ھ،مطابق جنوری/1885ء کوموضع "گمرالی کلاں" نزد منگووال ضلع گجرات پنجاب،پاکستان میں ہوئی۔

القابات[ترمیم]

فاتح قادیانیت ،قاطع احمد یت و مرزائیت، عالمِ ربانی، سیف یزدانی ،واقف رموز عرفانی، شیخ الجامعہ (فرسٹ وائس چانسلر فرسٹ فاؤنڈر جامعہ عباسیہ (حال) دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور) ، محقق علی الاطلاق ،فخر العلماء سید المحدثین شیخ الاسلام، بحر العلوم ، شیخ الجامع للشریعت زیب سجادہ تدریس، حجۃ اﷲ فی الارض، سرخیل و اصلاں، رہنمائے عارفاں۔

تحصیل ِعلم[ترمیم]

حفظ قرآن ،فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں چکوڑی (گجرات ) میں مولانا محمد چراغ سے پڑھیں ،پھر قصبہ گھوٹہ(ضلع ملتان ) میں سیبو یہ زمانہ حافظ محمد جمال کی خدمت میں حاضر ہو کر قطبی اور میبذی تک کتابیں پڑھیں۔بعد ازاں مولانا علامہ سید غلام حسین کی خدمت یں موضع تلیری (مظفر گڑھ ) حاضر ہوئے اور اکتساب علوم کیا ، پھر بمقام چکی( مضافات اٹک) مولانا علامہ محمد زمان کے پاس پہنچے ، انھیں آپ کی ظاہری حالت بکھرے ہوئے بال اور پرانے کپڑے دیکھ کر گمان ہوا کہ یہ پڑھنے والا طالب علم نہیں ہے اس لیے انھوں نے داخلے کی اجازت نہ دی ، مولانا خاموشی سے بیٹھ گئے ، اتفاقاً صدرا (شرح ہدایۃ الحکمۃ ) کا ایک مشکل ترین مقام زیر درس تھا ، مولانا محمد زمان نے اس مقام کی تقریری کی او ر طلبہ کو تقریر دہرانے کے لیے کہا لیکن کوئی بھی اسے دہرانہ سکا ۔

علامہ گھوٹوی نے اجازت طلب کی اور پوری تفصیل سے اس مقام کو بیان کر دیا۔اب جو مولانا محمد زمان کو ان کی قابلیت کا پتہ چلا تو نہ صرف داخلے کی اجازت دی بلکہ انھیں قرب خاص سے نوازا۔وہاں کچھ عرصہ استفادہ کرنے کے بعد جامعہ نعمانیہ لاہور چلے آئے اور مولانا علامہ غلام احمد حافظ آبادی کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہ کیا ،پھر علامہ زمن مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاکر فنون عالیہ کا درس لیا ، ڈیڑھ سال بعد جب ان کا وصال ہو گیا تو آپ مدرسہ عالیہ رامپور میں مولانا فضل حق رامپوری کے درس میں شریک ہوئے اور کسبِ فیض کیا۔طب اور صحاح کا درس مولانا وزیر حسن رامپوری سے لیا ۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

شیخ الاسلام مرشد المسلمین خواجہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔

سیرت وخصائص[ترمیم]

غلام محمدگھوٹوی۔آپ اپنے وقت کے عظیم مدرس ومحقق اورنامورمحدث ومناظر،علم ومعرفت کے بحر بے کنارتھے۔ساری زندگی محبوبِ سبحانی رضی اللہ عنہ کے اس قول پرعمل پیرا رہے۔"درست العلم حتی صرت قطباً"۔پھرشیخ ِکامل غوث الاسلام پیرمہرعلی شاہ کی تربیت اورنظرنے ایساکمال کیاکہ ساری زندگی قال اللہ وقال رسول اللہ زبان پرجاری رہااوراسی پرخاتمہ بالخیرہوا۔

درس وتدریس[ترمیم]

تدریس سے قلبی لگاؤتھا۔ابتداًمعقولات کی طرف زیادہ رجحان تھا،ان علوم میں آپ کی شہرت ہندسے نکل کرافغانستان،اوردیگرممالک تک جاپہنچی،شائقینِ علم سفرکرکے آپ کے پاس آنے لگے،اورعلم وعرفان کی دولت ِ لازوال سے مالا مال ہونے لگے۔آپ شہنشاہ تدریس تھے۔فجر کی نمازکے بعد سے عشاءکی نمازتک تمام فنون کی کتب کادرس جاری رہتا۔ حافظ عبد الحق مرحوم سکنہ گھوٹہ ملتان فرماتے ہیں:آپ کی محبوبیت کایہ عالم تھا کہ آپ کی برکت سے اس دارلعلوم کوچارچاند لگ گئے۔اس کی شہرت چہار اطراف عالم میں پھیل گئی۔اس دار العلوم کے طلباءکی تعدادکااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب یہ طلبہ تعطیلات کے مواقع پر اپنے اپنے گھروں کوجانے کے لیے گھوٹہ سے نکلتے تویہاں سے ملتان ریلوے اسٹیشن تک قطاردرقطارطلباء ہی نظرآتے تھے۔طلباءسے ایسی شفقت کہ جیسے والدین اپنی اولادسے کرتے ہیں۔

بحرالعلوم ہونے کے باوجودانتہائی منکسرالمزاج تھے۔علما وصلحاء کی بے انتہاءقدرفرماتے تھے۔کبھی دنیاوی لالچ نہیں کیااور نہ ہی علم کو حصول ِدنیاکاذریعہ بنایا۔خودداری ایسی کہ بڑے بڑے رئیسوں اورنوابوں نے بڑے مشاہرے اورمراعات کے عوض آپ کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں کی لیکن آپ نے کم مشاہرے کوترجیح دی،اورایک چھوٹی سی بستی گھوٹہ میں رہ کرعلم وعرفان کے دیپ جلاکرقرونِ اولیٰ کے علما کی یادتازہ کردی۔ آپ کئی جامعات ومدارس کے اعزازی پرنسپل تھے۔جب1911ءکودیارِحبیبﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے،اورمحبوبﷺکی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔اس دوران میں آپ کے نصیب جاگے،اپنے شیخ کی معیت میں زیارتِ خیرالانامﷺسے مشرف ہوئے۔دربارِرسالت سے آپ کو"خدمتِ حدیث"پرمامورکیاجاتاہے۔پھربقیہ تمام زندگی خدمتِ حدیث میں گزاری۔

آپ مذاہبِ باطلہ کے خلاف بالعموم اورقادیانیوں کے خلاف بالخصوص ساری زندگی معرکہ آرا رہے۔بحمدہ تعالی ہرجگہ باطل سے مقابلہ کیااوراس کوشکست سے دوچارکیا۔آپ کی زندگی کاسب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے"قادیانیوں کوریاستی سطح پرغیرمسلم اورمرتدقراردلوایا،فیصلہ مقدمہ بہاولپوراس کی زندہ مثال ہے"۔اس مقدمے کااجمال یہ ہے کہ غلام عائشہ بنت مولوی الہی بخش کانکاح ان کے ایک رشتے دار عبد الرزاق سے ہوا،ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی ،کہ مذکورہ شخص قادیانی ہو گیا۔اس نے رخصتی کامطالبہ کیاتوانہوں نے انکارکردیاکہ کافرومرتدسے مسلمان کانکاح نہیں ہو سکتا۔24/جولائی 1926ءکواحمدپورشرقیہ ضلع بہاولپورکی عدالت میں فسخِ نکاح مقدمہ دائرکیاگیا۔قادیانیوں کے خلاف کوئی ایسافیصلہ لینابہت دشوارتھا،کیونکہ اس وقت قادیانیوں کی پشت پناہ گورنمنٹ آف برطانیہ تھی۔بہت سے مقامات پرآزمائشوں کاسامناکرناپڑا،یہاں تک کہ ڈسٹرکٹ کورٹ بہاولپورنے بلاسوچے سمجھے اس مقدمے کوخارج کر دیا۔جس سے تمام مسلمانوں کوتکلیف ہوئی۔

مولانا حافظ عبد الرحمن جامعی فرماتے ہیں:حضرت گھوٹوی فرماتے تھے: "مجھے سرورعالمﷺکی طرف سے حکم ملاہے کہ تم علم ِکتاب اللہ،اورسنتِ رسول اللہﷺکوظاہرکرو،اورایمان کی طاقت سے مخالفینِ ختم نبوت کوپسپاکردو"۔ چنانچہ تائیدِ ایزدی،اوراشارہ نبوی ﷺسے سرشارہوکر "چیف کورٹ آف بہاولپور"میں اپیل دائرکی اوراپنی تمام ترکاوشیں اس میں صرف کر دیں،کئی وزیروں سے ملاقات کی،اور اس مسئلہ کی حساسیت کی طرف توجہ دلائی،اوران کوقائل کیا۔بالآخر دلائل کی روشنی میں قادیانیوں کوشکستِ فاش دی،عدالت اورمجلس شوریٰ نے متفقہ فیصلہ دیاکہ قادیانی مرتداوردائرہ اسلام سے خارج ہیں۔مسلمان کاقادیانی سے نکاح باطل ہے۔یہ تاریخی فیصلہ 3/ذیقعدہ 1353ھ،مطابق 7/فروری 1935ءکوہوا۔یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔

نگاہ مرشد[ترمیم]

سیدناپیرمہرعلی شاہ شیخ الجامعہ پربہت شفقت فرماتے تھے،اورآپ کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے۔مسائل میں آپ کی رائے کوترجیح دیتے تھے۔بعض مناظروں میں توحضرت غوث الاسلام نے آپ کواپناقائم مقام بناکربھیجا۔اہل سنت کی صداقت ،اوراکابرین ِ اہلسنت کی عظمت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ہرزمانے میں تحفظ ِ ختم نبوت وعظمت ِمصطفیٰﷺکادفاع علما اہلسنت نے کیاہے۔ پیرمہرعلی شاہ نے مرزے دجال کوذلت آمیزشکست سے دوچارکیا۔آپ کے بعد آپ کے مریدین نے ان کوہرجگہ ذلیل کیا فیصلہ مقدمہ بہاولپوراس کی واضح دلیل ہے۔

وفات[ترمیم]

بروزسوموار 27/ربیع الثانی1367ھ،مطابق 8/مارچ1948ءکوہوا۔آپ کامزارشریف نورمحل کے قریب قبرستان ملوک شاہ،بہاولپورمیں مرجعِ خلائق ہے۔ [2][3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا اولین شیخ الجامعہ۔غلام محمد گھوٹوی
  2. تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:صفحہ 335 نوری کتب خانہ لاہور
  3. ۔حیات شیخ الاسلام محدث گھوٹوی۔