غلام محی الدین بگوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

غلام محی الدین بگوی بگہ سرگودھا کی ایک علمی شخصیت تھی۔ آپ نے تیس سال لاہور میں درس حدیث کی خدمات سر انجام دی۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے۔

ولادت[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین کی ولادت بروز سوموار ماہ محرم 1210ھ میں بگہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام حافظ نور حیات بگوی تھا۔ آپ کے والد حافظ نور حیات مقبول الہی اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کو مولانا غلام محی الدین سے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ پیار تھا۔

حصول تعلیم[ترمیم]

غلام محی الدین جب چار سال کے ہوئے تو حافظ حسن کی شاگردی میں آئے۔ حافظ حسن اپنے شاگردوں کو پیٹنے میں بدنام تھے مگر آپ کی ذہانت کا کرشمہ ہے کہ اتنا سخت استاد ایک دن بھی آپ پر ہاتھ نہ اٹھا سکا۔ آپ نے ایک مختصر عرصہ میں قرآن پاک پڑھ لیا اور حفظ کی طرف توجہ نہ دی۔ رمضان کی تراویح میں بگہ کے لوگوں نے آپ کے والد سے اصرار کیا کہ رمضان کے نوافل میں بچہ سے قرآن پاک سنوائیں۔ غلام محی الدین نے والد محترم سے کہا کہ اگر آپ دن کے وقت میرے ساتھ ایک سپارے کا دور کر لیا کریں تو ان شاء اللہ رات کے نوافل میں قرآن سنانے کے قابل ہو جاؤں گا۔ چنانچہ آپ نے اسی رمضان میں قرآن حفظ کیا اور سنایا۔

دہلی روانگی[ترمیم]

غلام محی الدین اپنے چھوٹے بھائی احمد الدین کوساتھ لے کر تحصیل علم کے لیے دہلی روانہ ہوئے۔ آپ وہاں بارہ سال تک مختلف مدارس میں تحصیل علم منقول و معقول فرماتے رہے۔ آپ نے حدیث کی تکمیل مولانا اسحاق سے کی۔ مولانا شاہ اسحاق آپ کو شاہ عبد العزیز کے پاسے گئے۔ شاہ عبد العزیز نے محی الدین سے حدیث کے متعلق مختلف سوالات کیے۔ آپ نے اپنے جوابات سے حضرت شاہ صاحب کو مسرور کیا اور آپ سے سند حدیث حاصل کی۔ شاہ صاحب نے آپ کونصحیت فرمائی : ان شاء اللہ آپ سے بڑا فیض ہوگا۔ جب وطن واپس جاؤ ایسی بات نہ کرنا جس سے لوگوں میں تفرقہ پیدا ہو۔

بیعت[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین نے دہلی میں بیعت کا شرف شاہ غلام علی نقشبندی کے دست حق پرست پر حاصل کیا۔ یوں آپ نقشبندیہ سے منسلک ہو گئے۔

وطن واپسی اور خدمت دین[ترمیم]

غلام محی الدین بگوی علم شریعت و طریقت سے فارغ ہو کر آپ واپس بگہ میں تشریف لے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ کے والد حافظ نور حیات کا وصال ہو چکا تھا۔ سکھوں کی تاخت و تاراج سے مسلمانوں کی معاشی اور مذہبی زندگی رو بہ زوال تھی۔ اسلامی تہذیب کے آثار مٹائے جا رہے تھے۔ مسلمان مایوسی کے عالم میں دل گرفتہ ہو چکے تھے۔ مولانا غلام محی الدین نے ایسے دورمیں مسند ارشاد پر قدم رکھا تو پورے عزم کے ساتھ دین کی خدمت کرنے لگے۔ آپ کی شہرت نے سارے پنجاب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ رنجیت سنگھ کے وزیر عزیز الدین بگہ آپ کے پاس آئے اور آپ کے لاہور آنے کی تمنا ظاہر کی۔ اس کو یقین تھا کہ ایسا فاضل و عالم لاہور میں بیٹھ کر دین کی زیادہ خدمت کر سکے گا۔ آپ لاہور تشریف لے گئے۔

علم حدیث کی اشاعت[ترمیم]

لاہور میں مولانا غلام محی الدین کی درس گاہ علم حدیث کی تدریس کا بہت بڑا ادارہ تھا۔ پنجاب کی شاید ہی کوئی ایسی درس گاہ ہو جس میں اس مکتب حدیث کا فارغ عالم دین نہ پڑھا رہا ہوں۔ آپ سے کم و بیش دو ہزار اشخاص نے علم حدیث کی سند حاصل کی۔ آپ نے تیس سال تک لاہور میں علم حدیث کا درس دیا۔ اس تیس سالہ دور میں آپ نے جس خلوص، پامردی اور جانفشانی سے علمی کام کیا وہ مثالی حثیت رکھتا ہے۔

تلامذہ[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین بگوی سے درس حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. مولانا نور الدین چکوڑی
  2. مولانا شاہ محمد فیروزی پوری
  3. مولانا غلام رسول ساکن قلعہ میہاں سنگھ
  4. حافظ ولی اللہ لاہوری

غیر مسلم دامن اسلام میں[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین بگوی کے حسن سلوک اور علم دین کی اشاعت سے ہزارہا اچھوت آپ کے ہاتھ پر دامن اسلام میں داخل ہوا۔ یہ وہ دور تھا جس میں اسلام داخل ہونا تو الگ بات اسلام پر قائم رہنا بھی مشکل تھا۔ آپ اپنی اخوت، مساوات اور حمیت اسلام کے علمی مظہر تھے کہ غیر مسلم آپ سے متاثر ہوئے نہ رہ سکتے تھے۔

وفات[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین بگوی آخری عمر میں کافی بیمار رہتے تھے۔ آپ تقریبا چودہ سال بیمار رہ کر بروز اتوار 30 شوال 1273ھ کو وفات پائی۔ آپ کا مزار موضع بگہ بھیرہ شریف ضلع سرگودھا میں ہے۔

اولاد[ترمیم]

مولانا غلام محی الدین کو اللہ تعالی نے دو صاحبزادے عطا کیے جو اپنے زمانے میں علمی دنیا میں بہت مشہور ہوئے۔

  1. مولانا غلام محمد بگوی
  2. مولانا محمد عبد العزیز بگوی [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علمائے اہلسنت و جماعت، علامہ اقبال احمد فاروقی، صفحہ145 تا 148۔ مکتبہ نبویہ، لاہور