فارسی زبان و ادب کی قدامت،پختگی اور ہمہ گیریت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

فارسی زبان کی قدامت[ترمیم]

فارسی زبان کی تمدنی روایات صدیوں پرانی ہیں۔اس تمدنی قدامت کے اعتبار سے دنیا کی بہت کم زبانیں فارسی کی ہم پلہ کہلاسکتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ سیکڑوں سال گزرنے پر ان روایات میں کہنگی یا افسردگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس ہر مرحلے پر ان میں شگفتگی اور تازگی آتی رہی اور اس کے ساتھ ساتھ زبان کے خدوخال بھی سنورتے گئے۔گذشتہ صدیوں میں سرزمین ایران میں کئی انقلابات آئے۔یونانیوں کے حملے اور سکندر کے فاتحانہ اقدامات نے ہخامنشی دور کا خاتمہ کر دیا۔اشکانیوں کی شان و شوکت ساسانی عظمت کے آگے جھک گئی۔عربوں کی پیش قدمی نے ساسانی اقتدار کو پامال کرڈالا۔خود اسلامی دور حکومت میں تاتاریوں اور ترکوں کی یلغار نے ہزارہا تہذیبی نقوش مٹادیے لیکن ان تمام حادثات کے باوجود ایران نے اپنے تمدنی ذخائر کو محفوظ رکھا۔

فارسی زبان و ادب کی پختگی[ترمیم]

ایرانی تمدن کی بنیاد اتنی محکم اور استوار تھی کہ شدید سے شدید انقلاب بھی اسے متزلزل نہ کرسکا۔سکندر بجائے اس کے کہ ایران کو یونان بنادیتا خود ایرانی بن کر رہ گیا۔ایرانیوں نے عربوں کو لبیک کہا انھوں نے فقط اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عربی زبان اس کے رسم الخط اس کے قواعد صرف و نحو اور علم بیان و عروض کو بھی اپنالیا۔یہ سب کچھ ہوا لیکن ایرانی تمدن کے تسلسل میں فرق نہ آیا بلکہ ہر مرحلے پر اس کی تنومندی اور بھی بڑھ گئی ایرانی افکار ایک نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور اپنے اثرو نفوذ سے تمام دنیائے اسلام پر چھاگئے۔تاریخ میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔خود خلفائے عباسی کا دربار ان کا نظام سلطنت یہاں تک کہ ان کی بیشتر تمدنی روایات دور ساسانی کاہی نقش ثانی تھی۔عرب تمدن کے مقابلے میں اس دور کے تمدن کو ایرانی کہنا موزوں ہوگا۔

فارسی زبان و ادب کے اثرات[ترمیم]

ایرانی تمدن کی تنومندی کے زیر اثر فارسی زبان، فارسی ادبیات اور ایرانی علوم و فنون میں ہمی گیر قوتیں پیدا ہوئیں۔ازمنہ وسطی میں فارسی زبان وسط ایشیا کی تجارتی اور تمدنی زبان تھی اور اس کے اثرات ایک طرف بخارا سے پیکن اور دوسری طرف شیراز سے بنگال اور دکن اور پھر بحداد سے لے کر ایشیائے جوچک تک نمایاں تھے۔ہندوپاکستان کے برصغیر میں تو فارسی زبان و ادب یہاں کے تمدن کا بنیادی جزو تھے۔تیموری شہنشاہوں کادور حکومت فارسی ادبیات کے عروج کادور ہے۔تیموری عہد کی ادبی روایات، فن تعمیر، نقاشی ومصوری بیشتر ایران کی ہی مرہون منت ہے اور ان احسان مندیوں کے نقوش ابھی تک ماند نہیں پڑے۔یہ نقوش صرف یہیں کی سرزمین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔
فارسی زبان آریائی السنہ کے خاندان سے متعلق ہے اور اس اعتبار سے یہ زبان یورپ کی ان تمام زبانوں سے وابستہ ہے جن کارشتہ اس نسل اور خاندان سے جاملتاہے۔ا س طرح فارسی زبان ہندوستان، افغانستان، وسط ایشیااور یورپین ممالک کے درمیان میں ایک مستحکم ربط و اتحاد کا مرکز ہے۔

فارسی زبان و ادب کی ہمہ گیری[ترمیم]

لسانی روابط کے علاوہ فارسی ادبیات کی ہمہ گیری نے دنیا کے ہر متمدن ملک و قوم کو متاثر کیا ہے۔فارسی ادب و شعر میں ایرانی افکار، ایرانی فلسفہ حکمت اخلاق و تصوف کی اثر انگیزی جگہ جگہ کارفرما نظر آتی ہے۔خیام، سعدی اور حافظ کے اشعار نہ صرف ممالک اسلامیہ میں مقبول ہیں بلکہ یورپ میں بھی ان کا چرچار ہے۔دنیا کے ادبی اور علمی حلقوں میں اس کے نغمے اسی طرح گونجتے سنائی دیتے ہیں۔جس طرح شیراز، اصفہان اور تہران کی محفلوں میں۔ جرمنی کے مشہور و معروف شاعر گوئٹے کا بیتاب دل بھی حافظ کے تغزل میں تسکین پاتاہے۔سنائی، عطار اور مولانا روم کاتصوف اور ان کے روحانی تجربات کااثر انگلستان اور یورپ کے ادب میں نمایاں ہے۔بوعلی سینا کے طبی مشاہدات و تجربات، غزالی کی ’’احیاء العلوم ‘‘ نظام ملک کا ’’سیاست نامہ‘‘ حکیم نصیر الدین طوسی کی ’’اخلاق ناصری‘‘ اور البیرونی کی ’’تفہیم ‘‘ کو بین المللی حیثیت و شہرت حاصل ہے۔یہ فارسی شاہکار نہ صرف دنیائے ادب میں خاص اہمیت رکھتے ہیں بلکہ سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں۔ غرض فارسی زبان اور فارسی ادبیات کی ہمہ گیری اقوام کے مابین اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔دنیائے اسلام میں اسی زبان کو اسلامی افکار کا بہترین مرکز تسلیم کیا جاسکتاہے۔بلکہ اگر اسے مشرق و مغرب کے درمیان میں ربط و اتحاد کا محکم ذریعہ تصور کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔اقبال مرحوم نے جب اپنے افکار عالیہ کو شعر کاجامہ پہنانا چاہا تو انھیں اردو زبان کوچھوڑ کر فارسی زبان کا سہارا لینا پڑا۔

عصر حاضر میں فارسی زبان کی اہمیت[ترمیم]

موجودہ زمانے میں جب کہ بین المللی سیاست، باہمی یگانگت و اتحاد کے ذرائع تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔فارسی ادبیات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ان حالات کے پیش نظر فارسی ادب کے مطالعہ، اس کی تدریس، اس کاتاریخی جائزہ لینے، اسے غور سے سمجھنے اور سمجھنانے کی بے حد ضرورت ہے۔اس سلسلے میں جو کوشش کی جائے کم ہے۔ یوں تو تاریخ ادبیات ایران کے موضوع پر بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی اپنے پورے زور و شور کے ساتھ جاری وساری ہے لیکن فارسی زبان و ادبیات سے متعلق اردو زبان میں بہت کم کام ہوا ہے۔اس سلسلے میں بعض قابل ذکر کتابیں درج ذیل ہیں :
1۔تاریخ ادبیات ایران، ڈاکٹر رضا زادہ شفق، مترجم سید مبارزالدین رفعت، دہلی :ندوۃ المصنفین، 1969ء، 560ص
2۔ادب نامہ ایران، مرزا مقبول بیگ بدخشانی، لاہور:نگارشات، 2000ء، 792ص
3۔فارسی ادب کی مختصر تاریخ، ڈاکٹر محمد ریاض، ڈاکٹر صدیق شبلی، لاہور:سنگ میل پبلیکیشز، 1996ء، 254ص
4۔ایرانی ادب، دکتر ظہور الدین احمد، اسلام آباد:مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان، 1375 ھ۔ش۔