فارسی شاعری کی مختصر تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف[ترمیم]

کلام کے دوقسموں میں سے ایک شع رہے اور یہ نثر کے مقابلے میں بولا جاتاہے۔شاعری غور و فکر کے ساتھ کی جانے والی ایک گفتگو کو کہا جاتاہے جس میں الفاظ کے اوزان اور بعض اوقات ان کی ترکیب کا بھی خیال رکھا جاتاہے ۔[1]کہ ایک طرح سے وزن کے مطابق استعمال کیا جاتاہے ۔[2]

فارسی اشعار کی قسمیں[ترمیم]

فارسی شاعری کی کئی ایک قسمیں ہیں ۔ قدیم فارسی اشعار کو ان کی ساخت اور ترتیب دینے والے آلات کے لحاظ سے درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: 1۔مثنوی،2۔قصیدہ،3۔غزل،4۔قطعہ،5۔ترکیب بند،6۔ترجیع بند،مستزاد،8۔رباعی،9۔مسمّط،10۔دوبیتی اور شاعر کے ارادے کے اعتبار سے بھی یہ مختلف اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں جیسے مدح،ہجو،فخر و مباہات،حماسہ سرائی ،مرثیہ گوئی ،تشبیب کرنا،تسبیب (گالم گلوچ)وغیرہ ۔ شعر کے لیے فارسی ادب میں اور بھی تقسیم ہیں ، جیسے گانا ، تصنیف، ترانہ ، چامہ ، چکامہ ، نیوشہ ،مثل اور قول وغیرہ ۔

فارسی میں شاعری کا آغاز[ترمیم]

فارسی شاعری کے اس کے مخصوص معنی کے علمبردار ، یعنی موزون اور موقفی کلام ، بہرام گوساسانی ، ابو حفص سغدی ، محمد ابن وصی سگزی متعدد دوسرے لوگ تھے۔ لیکن چونکہ ان شعرا سے کچھ اشعار منسوب کرنے کی درستی میں شبہ ہے اور یہ بھی کہ ان اشعار میں ادبی پہلو کی بجائے زیادہ تاریخی پہلو نمایاہے ، لہذا سامانی دور کے شعرا کو فارسی شاعری کا اصل ابتدا سمجھا جا سکتا ہے۔

سامانی دور[ترمیم]

سامانی دور (361۔389ق بمطابق 791۔998 میلادی ): سامانی حکومت کی ابتدا اور ابوشکور بلخی ، شاہد بلخی ، رودکی سمرقندی ، دقیق طوسی جیسے مشہور شعرا کے پیداہونے سے فارسی شاعری کی نشوو نمااور اس کی توسیع میں اضافہ ہوا ۔[3]اس دور کے تقریبا 35 مشہور شعرا کے نام لیے گئے ہیں کہ جن سے منصوب تقریبادوہزار بیت اشعار پائے جاتے ہیں ۔[4]ایک اور مشہور شاعر جس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس دور میں گذرا ہے وہ استاد ابو القاسم فردوسی ہے۔فصاحت و بلاغت ،سادگی،ابتکاری اور سادہ مضامین،طبیعی تشبیہات،نئے اور متنوع موضوعات،شعر کے مختصر اوزان اور بحور کا استعمالاس دور کی شاعری کی خاص خصوصیات سمجھی جاتی ہیں ۔[5]

غزنوی دور[ترمیم]

غزنوی دور(366۔583ق بمطابق 976۔1187میلادی):سامانیوں کے بعد سلطاں محمود (398۔421ق) اور سلطان محمود غزنوی (421۔432ق)کے دربار شاعروں کا مسکن قرار پایا اور بہت سارے شعرا جیسے عنصری فرخی سیستانی اور عسجدی نے غزنویوں کے دربار میں ادبیات کو پروان چڑھایا ۔[6]مزید یہ کہ ہندوستان کے بعض علاقوں پر غزنیوں کے قبضے کے بعد فارسی زبان و ادب نے ہندوستان اور بر صغیر نامی نئے علاقے میں قدم رکھا۔جہاں پر مسعود سعد سلمان جیسے نامور شعرا رہتے تھے۔اس دور کے دوسرے مشہور شعرا میں اسدی طوسی ،منوچہر ی دامغانی،اور ابوالفرج رونی کا نام لیا جاسکتاہے ۔[7]کلی اعتبار سے اس دور کے شعرا اپنے ماقبل دور کے شعرا کے بہ نسبت وقواعد، اشعار کی صحت کا خاص خیال رکھتے تھے۔اور رودکی اور شہید بلخی کے سبک شاعری پر خاص توجہ دیتے تھے ۔[8]شاعری کے مختلف صنفوں سے استفادہ جیسے قصیدہ گوئی ،مسمّط،مضامین میں تنوع جیسے مدح،ھزل،ھجو اور قصوں کہانیوں کو منظوم شکل میں بیان کرنا، حماسہ سرائی جیسے شاہنامہ فردوسی اس دور کے شاعری کی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں ۔[9]

سلجوقی دور[ترمیم]

سلجوقی دور (429۔700ق بمطابق 1037۔1300میلادی):اور خوازرمشاہیوں کا دور (521۔628ق بمطابق 1127۔1230میلادی)کا آغاز 429 ہجری میں خراسان میں طغرل سلجوقی کا محمود غزنوی کے خلاف قیام سے ہوا۔اس وقت سے لے کر 448 ہجری تک طغرل اور اور کے جانشینوں کے بہت سارے شعرا ء کو اپنے دربار سے وابستہ کیا جن میں سے درج ذیل مشہور ترین شعرا کے نام لیے جا سکتے ہیں فخر الدین اسد گرگانی ،ارزقی ہروی،عمر خیام،ابوسعید ابوالخیر اور ناصر خسرو۔ سنجر سلجوقی اور اس کے جانشینوں کے دور میں اور اسی طرح اتابکین کے عہد میں ، جو عظیم سلجوقوں کی ایک شاخ تھی ، عظیم خطباء پیداہوئے ہیں جن میں سے انوري ابيوردي، سنايي غزنوي و ‌رشيدالدين وطواط شامل ہیں ۔[10]اس دور کی شاعری کی ایک مشہور شکل غزل غزل گوئی تھی لہٰذا اس دور کے شعرا کے کلام کے مجموعوں(دیوان)کا ایک بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے ۔[11]اس دور میں فردوسی کی پیروی کرتے ہوئے بعض شعرا نے حماسہ سرائی بھی لکھا ہے جن سب سے مشہور اسدی طوسی کی کتاب ’’گرشاسب نامہ ‘‘ ہے۔اس دور میں فارسی شاعری کے دو اور اہم شعبوں نے جنم لیا ہے (1)عراق عجم کے وسطی علاقے جن کی نمائندگی جمال الدین عبد الرزاق اصفہانی ،ظہیر فاریابی اور اثيرالدين اخسيكتي ک رہے تھے ۔(2)ایران کا شمال مغربی علاقہ آذربائیجان جہاں کے خاقانی شروانی،نظامی گنجوی،فلکی شروانی کا شمار بہترین شعرا میں ہوتا تھا ان دونوں شعبوں کی خصوصیات سے ملکر سبک عراقی نے جنم لیا ہے ۔[12]

1- اجم عراق - ایران کے وسطی خطے - جن کی نمائندگی جمال الدین عبد الرزاق اصفہانی ، ظہر فریبی اور اطہر الدین اخساکاتی نے کی۔ 2- ایران کا شمال مغربی خطہ آذربائیجان - جہاں کھاگنی شیروانی ، گنجوی فوجی اور شیروانی برج کو بہترین اسپیکر سمجھا جاتا تھا۔ ان دونوں شعبوں کی خصوصیات کے سیٹ نے عراقی طرز پیدا کیا۔ ـ

مغولوں کا دور[ترمیم]

مغولوں کا دور (615۔750ق بمطابق 1218۔1349میلادی):مغولوں کے دور میں فارسی شاعری کا آغاز ایران کے دو عظیم شعرا سعدی اور مولانا سے ہوا۔دو اور عظیم صوفی شعرا فرید الدین عطار نیشاپوری اور کمال الدین اسماعیل اصفہانی اس دور کے آغاز میں مغلولوں کے حملوں کے نتیجے میں قتل ہوئے تھے ۔[13]اس دور کے دیگر شعرا میں فخر الدین عراقی ،اوحدالدین کرمانی ،امیر خسرو دہلوی ،خواجوی کرمانی ،عبید زاکانی اور سلمان ساوجی وغیدہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔اس دور کے آخری مشہور شاعر شمس الدین محمد حافظ شیرازی ہیں آپ کی زندگی کاآخری دور تیموریوں کے عہد میں گذرا ہے ۔[14]مجموعی طور پر اس دور کی شاعری کو گذشتہ ادوار میں عراقی اسلوب کا تسلسل کہا جاستاہے۔اگرچہ مجدالدین ہمگر،ابن یامین اور بالخصوص مولانا رومی نے اپنی غزلوں اور قصیدوں میں خراسانی اسلوب کا اپنایا ہے ۔[15]

تیموری دور[ترمیم]

تیموری دور (782۔907ق بمطابق 1380۔1501میلادی ):اس دور میں ایران کے بعض علاقوں پر ترکوں اور ترکی زبان کے غلبے کی وجہ سے فارسی شاعری بہت کمزور پڑھ گئی تھی ۔[16]یہ دور فارسی شاعری کی جمود اور تقلید کا دور شمار ہوتا ہے۔اس دور کا سب سے بڑا شاعر عبد الرحمن جامی ہے جو شعر خوانی میں امیرخسرو دہلوی کی پیروی کرتا تھا۔[17]اس دور کے دیگر مشہور شعرامیں شیخ آذی طوسی(865ق)،ابن حسام(874ق)،امیرشاہی سبزواری(857ق)،شاہ نعمت اللہ ولی (834ق)،لطف اللہ نیشاپوری (812ق)کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔[18]اس دور میں پہیلیاں بیان کرنابھی بہت مشہور ہوئی تھا۔بعض شعرا جیسے بسحق اطعمہ (830ق) اور نظام الدین محمود قاری نے پہلی بار کھانے پینے اور لباس سے متعلق اصطلاحات کو اپنے اشعار میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔[19]

صفوی دور[ترمیم]

صفوی دور (905۔1135ق بمطابق 1528۔1756میلادی):صفوی دور کی فارسی شاعری چند موارد کے علاوہ الفاظ اور فقروں کے اعتبار سے کوئی زیادہ قابل ذکر نہیں تھی۔اس دور میں مرثیہ گوئی اور ائمہ اہل بیت کے بارے میں منقبت گوئی میں اضافہ ہوا۔[20]اس دور کے مشہور مرثیوں میں سے ایک محتشم کا شانی کا مرثیہ ہے۔اسی طرح اس دور کی فارسی شاعری کو موجودہ ایران کے علاوہ اور بھی کئی ایک پناہ گاہیں میسر آئی جیسے سلطنت عثمانیہ ،برصغیر اور گورکانی بادشاہ اور بہت سارے شعرا جیسے نظیری نیشاپوری ،کلیم کاشانی (ہمدانی) اور صائب تبریزی نے برصغیر کی طرف ہجرت کی اور ان میں سے بعض لوگ جیسے صائب تبزیزی کچھ مدت بعد واپس اپنے وطن لوٹ آئے۔برصغیر پاک و ہند میں بھی بعض شعرا جیسے نظیر فیضی،دکنی اور بیدل دہلوی نے فارسی شاعری کی ترویج میں اہم کردار اداکیا ہے ۔[21]مرثیہ گوئی اور منقبت خوانی کے علاوہ گانے گانا،غزلیں کہنا ،حماسہ سرائی ،افسانہ سرائی اور نظامی گنجوی کے اسلوب کے مطابق داستان سرائی بھی اس دور کے شعرامیں رائج تھے۔اس دور کے ابتدائی شعرا میں بابافغانی،اہلی شیرازی اور وحشی بافقی کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔[22]

افشاری،زندی اور قاچار دور[ترمیم]

افشاری،زندی اور قاچار دور( )صفوی خاندان کے زوال ،پھر ظہور اور نادر شاہ کے زوال نیز زندیوں کے بر سر اقتدار آنے سے فارسی ادبیات منجملہ فارسی شاعری پر بہت بڑا اثر ڈالا ،اس دور میں فارسی شاعری ایک حد تک سکھڑ کر رہ گئی ،لیکن قاچاریوں کے دور میں بادشاہوں کی بھر پورتوجہ کی وجہ سے تعریفی شاعری نے آہستہ آہستہ رونق حاصل کرنا شروع کیا۔اس دور کے شعرا ء نے صفوی کے کے اسلوب کو ہٹتے ہوئے قصیدہ گوئی میں پانچویں اور چھٹی صدی ہجری شعرااور غزل گوی میں ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے شعرا کے اسلوب کا اپنایا ہے۔یہ ادبی تبدیلی ’’مکتب باز گشت ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی ۔[23]قاچار دور کے مشہور شعرا میں صبای کاشانی(1238ق)،نشاط اصفہانی اور وصال شیرازی (1262ق) ،قاآنی ،سروش اصفہانی (1223 ) اور فروغی بسطامی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔[24]

مشروطہ کادور[ترمیم]

مشروطہ کا دور: دورہ مشروطہ کے آغاز کے ساتھ اس کی خدمت کی غرض سے فارسی شاعری نے اپنی خصوصیات کھودیا محتوا اور شکل و صورت دونوں اعتبار سے بعض نئی خصوصیات کو اپنایا جو ’’شعر مشروطیت ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ۔[25]محمد تقی بہار،ابو القاسم لاہوتی ،عارف قزوینی ،ایرج میرزا،میرزادہ عشقی ،فرخی یزدی ،پروین اعتصامی ،سید اشرف الدین گیلانی اور نیما یوشیج کا شمار دورہ مشروطیت کے مشہور شعرا میں ہوتا ہے ۔[26]انقلاب مشروطہ کے بعد بھی سلطنت پہلو یی کے اوائل میں بھی شعر کے بہت سارے اہم حصے گذشتہ کلاسیکل اسلوب کی طرف لوٹے ،لیکن بعض شعرا منجملہ لطفعلی صورتگر اورغلامرضا رشیدی یاسمی کے اشعار میں نئے پن کی تلاش دکھائی دیتی ہے ۔ و:معاصر دور :اس صدی کے اوائل میں نیما یوشیج نے فارسی شاعری میں ایک نئے اسلوب کو روشناس کریا جو ’’شعر نو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔بعد ازآں 41۔1940ء کے بعد شاعری کے میدان میں قدم رکھنے والے جوان شعرا ء نے اسی روش کو اپنایا ۔[27]بعض شعرا جیسے ہوشنگ ابتہاج،فریدون توللی اور نادر نادر پور وغیرہ احتیاط کے ساتھ نیمایی کے روش کے قریب ہوئے۔ایک اور گروہ جیسے اخوان ثالث نے نیمایی کے تمام قواعد کا خیال رکھتے ہوئے شعر گوئی کے اس قسم کو کمال تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح ایک اور گروہ جیسے احمد شاملو قالب شکنی میں نیما سے بھی آگے بڑھتے ہوئے ’’شعر سپید‘‘ کے نام سے ایک نئے شکل کا شعر وضع کیا ہے ۔[28]شعر نو کے دوسرے مشہور شعرا میں سیاوش کسرایی،فروغ فرخزاد،پرویز ناتل خانلری،شہراب سپہری ،فریدون مشیری ،ید اللہ رویایی ،رضا براہنی ،اسماعیل خویی ،م۔آزرم اور محمود کیانوش کے نام شامل ہیں ۔[29]اس دور میں شعر نو کے علاوہ شعر کی بعض اور قسمیں بھی رواج پاچکی ہیں منجملہ :شعر ’’موج نو‘‘ جس کی ابتدا گری احمد رضا احمدی در 1341 شمسی اور بعض دوسرے شعرا جیسے بیژن الٰہی ،بہرام اردبیلی اور شہرام شاہر ختاش نے کی ہے ۔ شعر’’حجم گرا‘‘شعر نو کے اکثر شعرا اور بعض دوسرے شعرا جیسے نظیر پرویز اسلام پور،یداللہ ویایی اور محمد رضا اصلانی وغیرہ ۔ شعر’’مقاومت‘‘ سیاسی اور انقلابی اور عقیدتی مطالب پر مشتمل جن کی ابتدا اس دور میں پہلی مرتبہ اسماعیل شاہرودی ،اسماعیل خویی ،شفیعی کدکنی ،نعمت میرزازادہ اور سیاوش کسرایی نے کی ہے ۔[30]

اسلامی انقلاب کے بعد کا دور[ترمیم]

اسلامی انقلاب کے بعد کا دور(1357شمسی بمطابق 1979میلادی سے لے کر اب تک):فروری 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ فارسی شاعری بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ۔ اس دور کی شاعری کی اہم خصوصیات میں سے ایک مذہب،جنگ ،شہادت اور اس قسم کے جدید پہلوں کا اجاگر کرنا ہے اس دور کی شاعری اور پچھلے دور کی شاعری واضح فرق قدیم فارسی شاعری کے اسلوب کا استعمال ہے۔اگرچہ بعض جوان شعرا نے انقلاب سے متعلق اپنے بہترین اشعار کو ’شعر نو‘ کے قالب میں بیان کیا ہے۔انقلاب اسلامی کے برکات میں سے ایک ادب بالخصوص شاعری کے میدان میں ایک ایسی تبدیلی ہے جس میں اشعار کے معنوی پہلو ں پر توجہ شامل ہے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ملکی ترقی میں شعر آئینہ کا کردار اداکیا ہے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے کئی دہائیوں کے بعد تک شاعری نے واقعات کی عکاسی اور معاشرتی مسائل اجاگر کرنے میں نمایاں کردار اداکیا ہے اور یہ تبدیلی انقلاب کی تبدیلی سے پہلے کی بہ نسبت نمایاں ہے۔اس دور کے مشہور شعرا میں علی معلم،احمد عزیزی ،قیصر امین پور،حسین منزوی ،طاہرہ صفار زادہ اور فاطمہ راکعی کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔[31]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ميرصادقي (ذوالقدر)، ‌ميمنت. واژه نامة هنر شاعري، ‌تهران: كتاب مهناز، ‌چ 2، 1376 ش، ص 144
  2. خانلري، ‌پرويز. وزن شعر فارسي، تهران: بنياد فرهنگ ايران، ‌چ 3، 1354 ش، ص 19.
  3. مؤتمن، ‌زين‌العابدين. تحول شعر فارسي، تهران:‌ابن سينا، بي تا، ص 132
  4. شميسا، ‌سيروس. سبك شناسي شعر، تهران: نشر ميترا، ‌ويرايش دوم، ‌چ 1، 1383 ش، ص 25.
  5. صفا، ‌ذبيح‌الله. مختصري در تاريخ تحول نظم و نثر پارسي، تهران: ققنوس، ‌چ 15، ص 19، 20
  6. صفا. همان، ص 34.
  7. ـ تميم داري، احمد. كتاب ايران، ‌تاريخ ادب پارسي، تهران: انتشارات بين‌المللي الهدي، چ 1، 1379 ش، ص 55.
  8. زرين كوب، ‌عبدالحسين. سيري در شعر فارسي، تهران: نوين، چ 1، 1363 ش، ص 17
  9. ميرصادقي. همان، ص 158.
  10. ميم داري. همان، ص 56، 58.
  11. ميرصادقي. همان، ص 159.
  12. ایضاً
  13. صفا. همان، ص 54 ـ 57 (به اختصار)
  14. مان. ص 58، 59.
  15. همان. ص 54.
  16. ميرصادقي. همان، ص 161.
  17. كاظمي. همان، ص 61، 62.
  18. ـ شفيعي كدكني، ‌محمدرضا. ادبيات فارسي از عصر جامي تا روزگار ما، ‌ترجمة حجت‌الله اصيل، تهران: نشر ني، چ 1، 1378 ش، ص 13، 15.
  19. ميرصادقي. همان جا.
  20. صفا. همان، ص 77، 78.
  21. كاظمي. همان، ص 69، 70، 71.
  22. صفا. همان، ص 83، 84.
  23. شفيعي كدكني. همان، ص 55، 56.
  24. صفا. همان، ص 98، 99.
  25. ميرصادقي. همان، ص 163.
  26. شفيعي كدكني. همان، ص 79 – 81 (به اختصار)
  27. ميرصادقي. همان جا.
  28. كاظمي. همان، ص 97.
  29. شفيعي كدكني. همان، ص 103.
  30. ـ حسين پور چافي، علي. جريانهاي شعري معاصر فارسي، تهران: اميركبير، چ 1، 1384 ش، ص 292، 300، 301، 337، 341.
  31. كاظمي. همان، ص 111، 112، 114، 115.