فارغ بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فارغ بخاری
معلومات شخصیت
پیدائش 11 نومبر 1917ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 اپریل 1997ء (80 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پشاور ،  خیبر پختونخوا ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  محقق ،  ادبی نقاد ،  ماہرِ لسانیات ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  پشتو ،  ہندکو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک ،  پاکستان رائٹرز گلڈ   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

فارغ بخاری (پیدائش: 11 نومبر، 1917ء - وفات: 13 اپریل، 1997ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو، ہندکو اور پشتو زبان کے ممتاز شاعر، نقاد، محقق اور صحافی تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

فارغ بخاری 11 نومبر، 1917ء کو پشاور، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔[2][3][4][5] ان کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ فارغ بخاری جس اسکول میں پڑھتے تھے اس کے پرنسپل تحریک خاکسار کے بانی عنایت اللہ خاں مشرقی تھے، ان کی تربیت علامہ عنایت اللہ مشرقی جیسی قد آور شخصیت کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔[6]ابتدا ہی سے ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس سلسلے میں انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں[4]۔ فارغ بخاری نے رضا ہمدانی کے ہمراہ رسالہ سنگ میل نکالا۔ہندکو رائٹرز سوسائٹی جب قائم ہوئی تو فارغ بخاری کو اس سوسائٹی کا پہلا صدر چنا گیا۔[7] انھوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین صوبہ سرحد، عالمی امن کمیٹی کے سیکریٹری کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی مرکزی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے۔[8] انھوں نے رضا ہمدانی کے ہمراہ پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی اور اولیں ناشر اعلانِ قیام پاکستان مصطفیٰ علی ہمدانی کے بہنوئی تھے۔ ان کی رضا ہمدانی کے ساتھ مشترکہ تصانیف میں ادبیات سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیرو بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ کے نام سرفہرست تھے۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، برات عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔[4]

تصانیف[ترمیم]

  • خوش حال خان کے افکار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • خوش حال خان خٹک (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • پشتو شاعری (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • رحمان بابا کے افکار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • رحمان بابا (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • پٹھانوں کے ارمان (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • آیاتِ زندگی
  • عورت کا گناہ (افسانے)
  • باچا خان (خان عبد الغفار خان کی سوانح حیات)
  • اٹک کے اُس پار (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • پشتو لوک گیت (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • پشتو ڈراما
  • بے چہرہ سوال (نظمیں )
  • غزلیہ (غزلیں)
  • ادبیات سرحد جلد سوم (بہ اشتراک رضا ہمدانی)
  • البم (ترقی پسند مصنفین کے خاکے)
  • دوسرا البم (خاکے)
  • ہندکو زبان کا ارتقا
  • اقبال پر خوش حال کا اثر
  • نویاں راواں (ہندکو شاعری کا انتخاب)
  • کالی تہپ (ہندکو شاعری کا مجموعہ)
  • برات عاشقاں (مشرقی پاکستان کے سفر کا رپورتاژ)
  • شیشے کا پیراہن (شاعری)
  • خوشبو کا سفر (شاعری)
  • پیاسے ہاتھ (شاعری)
  • محبتوں کے نگار خانے (شاعری)
  • زیر و بم (شاعری)
  • آئینے صداؤں کے (شاعری)
  • اندیشۂ شہر (انتخاب کلام مرزا محمود سرحدی)

فارغ بخاری کے شخصیت و فن پر تحقیقی مقالات[ترمیم]

فارغ بخاری: احوال و آثار (پی ایچ ڈی مقالہ)، ضیاء الرحمٰن، پشاور یونیورسٹی، 2005ء

نمونۂ کلام[ترمیم]

اشعار

جب درد جگر میں ہوتا ہے تو دوا دیتے ہیں رک جاتی ہیں جب نبضیں تو دُعا دیتے ہیں
کوئی پوچھے تو سہی اِن چارہ گروں سے فارغ جب دل سے دھواں اُٹھے تو کیا دیتے ہیں

شعر

فقیہہِ شہر کا سکہ ہے کھوٹا مگر اس شہر میں چلتا بہت ہے

غزل

کچھ اب کے بہاروں کا بھی انداز نیا ہےہر شاخ پہ غنچے کی جگہ زخم کھلا ہے
دو گھونٹ پلا دے کوئی مے ہو کہ ہلاہلوہ تشنہ لبی ہے کہ بدن ٹوٹ رہا ہے
کل اس کو تراشو گے توپوجے کا زمانہپتھر کی طرح آج جو راہوں میں پڑا ہے

غزل

تری خاطر یہ فسوں ہم نے جگا رکھا ہےورنہ آرائشِ افکار میں کیا رکھا ہے
ہے ترا عکس ہی آئینۂ دل کی زینتایک تصویر سے البم کو سجا رکھا ہے
برگ صد چاک کا پردہ ہےشگفتہ دل سےقہقہوں سے کئی زخموں کو چھپا رکھا ہے
اب نہ بھٹکیں گے مسافر نئی نسلوں کےکبھیہم نے راہوں میں لہو اپنا جلا رکھا ہے
کس قیامت کا ہے دیدار ترا وعدہ شکندلِ بے تاب نے اک حشر اٹھا رکھا ہے
کوئی مشکل نہیں پہچان ہماری فارغ اپنی خوشبو کا سفر ہم نے جدا رکھا ہے

غزل

دیکھ کر اس حسین پیکر کونشہ سا آ گیا سمندر کو
ڈولتی ڈگمگاتی سی ناؤپی گئی آ کے سارے ساگر کو
خشک پیڑوں میں جان پڑ گئیدیکھ کر روپ کے سمندر کو
کوئی تو نیم وا دریچوں سےدیکھے اس رتجگے کے منظر کو
ایک دیوی ہے منتظر فارغ وا کئے پٹ سجائے مندر کو

اعزازات[ترمیم]

فارغ بخاری کو ان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے 1994ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا۔[4]

وفات[ترمیم]

فارغ بخاری 13 اپریل، 1997ء کو پشاور، پاکستان اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔[3][4][5]

حوالہ جات[ترمیم]