فاروق القادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید محمد فاروق القادری ریاست بہاول پور کے معروف تاریخی قصبہ گڑھی اختیارخان ،تحصیل خان پور میں 25 ستمبر 1947ء کو سلسلہ عالیہ قادریہ سہروردیہ کے معروف مقبول بزرگ، جید عالم دین،تحریک پاکستان کے نامور رہنما،محقق و مصنف،صوفی شاعر اور بخاری سادات گھرانے کی معروف شخصیت حضرت سید سیف الدین شاہ مغفورالقادری (1326ھ 1390 -ھ)کے گھر میں جنم لیا۔ گڑھی اختیار خان کے اس معزز و محترم بخاری سادات خاندان میں علم و عمل،فقرو روحانیت اور ملت اسلامیہ کی قیادت و سیادت کی روایت برس ہابرس سے بطور وراثت خاندان میں چلی آرہی تھی۔اس خاندان کے اکابرین اوچ شریف سے سندھ کے علاقے شکار پور میں بغرض اشاعت و ترویج اسلام کے لیے رہائش پزیرہوئے۔ سید محمد فاروق القادری شاہ صاحب کے پر دادا سید جعفرشاہ صاحب جو سلسلہ سہروردیہ کے معروف شیخ طریقت اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے کوگڑھی اختیارخان کے عباسی رئیس خاندان نے بصد منت کے یہاں سکونت پر رضامندکیا۔ جن کا مزار آج بھی گڑھی اختیارخان میں موجود ہے۔سید محمد فاروق القادری صاحب کے دادا سید سردار احمد شاہ بانی خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف گڑھی اختیارخان نے ابتدائی تعلیم اور دورہ حدیث کی تکمیل مقامی طور پر فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ جہاں پر آپ نے قطب مدینہ مولانا عبد الباقی لکھنوی ثم المدنی سے "فصوص الحکم" پڑھی اور سات سالہ قیام کے دوران میں کئی عرب شیوخ نے آپ سے درس اکتساب حاصل کیا اور عرب میں شیخ احمد کے نام سے معروف ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا شاہ احمدرضا خان بریلوی کے ساتھ مدینہ منورہ میں سنگت و قربت رہی جو بعد میں خط کتابت کی صورت میں قائم رہی۔ گڑھی اختیارخان میں واپسی کے بعد آپ سیدسرداراحمد بطرف مغرب ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک ویرانے میں عبادات اور مراقبہ میں مشغول رہتے۔جہاں پر اکثر نبی اکرم ۖ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے۔چنانچہ اسی ویرانے میں موجود جگہ کو آپ نے اپنے مدفن کے لیے پسند فرمایا جہاں بعد میں آپ کا عالی شان ہشت پہلو روضہ مرجع خلائق عام بنا، وہیں پر آپ نے ایک بار خواب میں ایک چشمہ دیکھا اور ساتھ نبی اکر م ۖ کی زیارت بھی ہوئی اور اس جگہ کنوئیں کی تعمیر کا حکم بھی ہواجس کی تکمیل میں سید محمد فاروق القادری صاحب نے چشمہ شریف کے نام سے عمارت بنوائی اور وہاں ایک الیکٹرک کولر نصب فرمایا۔ سید سردار احمد کا وصال 1350ھ میں ہوا آپ عربی،فارسی،اردو،سندھی اور سرائیکی کے شاعربھی تھے۔سید محمد فاروق القادری کے والد فخرالمشائخ سید سیف الدین شاہ مغفورالقادری جید عالم دین ،محقق و مصنف ،صاحب علم و معرفت اور صاحب دیوان شاعر بھی تھے آپ نے اسلام کی ترویج و اشاعت اور قیام پاکستان کی منزل کو پانے کے لیے "احیائے اسلام" کے نام سے جماعت بنائی اور "الجماعتہ"کے نام سے اخبار بھی جاری کیا۔شاعرمشرق علامہ اقبال کی صحبت و عنائیت کا لطف وکرم بھی حاصل کیا سندھ میں تصوف و طریقت کی تاریخ و ارتقا کی عکاس بھی۔ آپ کی تقریباً پندرہ کتب غیر مطبوعہ ہیں۔آپ نے 12 اپریل 1970ء میں وصال فرمایا اور والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔ سید مغفورالقادری کے وصال کے بعد خانقاہ عالیہ قادریہ شاہ آباد شریف کے دوسرے سجادہ آپ کے فرزند محقق العصر سید محمد فاروق القادری شاہ صاحب بنے اور آج یہ خانقاہ سید محمد فاروق القادری صاحب کی بدولت ایک شاندارروحانی و علمی مرکزمیں تبدیل ہو گئی ہے۔ جہاں پر دنیا بھر سے سکالرز اورمحققین اپنی علمی تشنگی مٹانے کے لیے آتے ہیں۔سید محمد فاروق القادری شاہ صاحب نے ابتدائی تعلیم مقامی سطح اور خان پورمیں حاصل کرنے کے بعد( جامعہ عباسیہ(موجودہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پورسے تقریباً 1966–67 میں الشہادتہ عالمیہ کے ساتھ ساتھ عربی ادب میں تخصص اور فاضل فارسی کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے باالترتیب 1968-69-70 میں اسلامیات ،عربی اور اردو میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامیات میں گولڈمیڈل بھی حاصل کیا اور آپ ابتدائی جماعتوں سے لے کر ماسٹرز تک کے تمام درجوں میں اول پوزیشن کے حامل رہے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا شمس الحق افغانی،مولانا احمد سعید کاظمی، سراج الفقہہ سراج احمد مکھن بیلوی، , حافظ فیض احمد اویسی ،مفتی عبدالواحد ، مولانا ظفراحمد عثمانی ، مولانا عبدالرشید نعمانی ، ڈاکٹر حافظ احمد یار ،پروفیسرخالدعلی ،ڈاکٹرپیر محمدحسن اور علامہ علاالدین صدیقی سابقہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جیسی نابغہ روزگار شخصیات شامل ہیں۔تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ نے 1971ء میں کچھ عرصہ جناح میموریل کالج لاہور میں بطور لیکچرار درس و تدریس کا پیشہ اختیارکیا۔مگر والد صاحب کے وصال اور خانقاہی امور کی انجام دہی کے لیے شاہ آباد شریف واپس تشریف لے آئے اور طالبان علم کے لیے "دارالعلم والمعرفتہ " کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کی خوبصورت عمارت میں رہائش کے علاوہ ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود ہے۔آپ کی معروف علمی و ادبی شخصیات، شورش کاشمیری،احسان دانش،مولانامودودی،غلام احمد پرویز،حکیم موسی امرتسری،سید احمدسعیدکاظمی،مولاناعبدالستارنیازی،مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا کوثرنیازی سے قربت و خط کتابت رہی۔

تصانیف[ترمیم]

آپ کی بیس کے قریب کتب اور بیسیوں مقالہ جات اور مضامین شائع ہوئے۔فلسفہ وحدت الوجود پر ابن العربی کے چودہ جلدوں پر مشتمل کتاب فتوحات مکیہ کا سب سے پہلی بار اردو میں پانچ جلدو ںکا ترجمہ آپ نے کیا ،اور مکمل ترجمہ کرنے میں مشغول ہیں۔ آپ کی بعض کتب انڈیا سے بھی طبع ہوئیں اس کے علاوہ آپ کا مقالہ اسلام کا معاشی نظام عالم اسلام کی عظیم درسگاہ جامعہ مصر الازھرمیں اردو سے عربی میں ترجمہ کرکے نصاب کا حصہ بنایاگیا آپ کی چند تصانیف و تراجم درج زیل ہیں۔

  1. انفاس العارفین۔ترجمہ مع مقدمہ۔.۔موضوع سوانح و تصوف سن طباعت۔1974لاہور
  2. ترجمہ و تحقیق ،الطاف القدس،موضوع حقیقت انسان مبطوعہ 1975لاہور
  3. ترجمہ و تحقیقی مقدمہ "فتوح الغیب" از شیخ عبد القادر جیلانی رح موضوع تصوف مطبوعہ 1974
  4. فاضل بریلوی اور امور بدعت موضوع عقائد پانچ ایڈیشن پاکستان سے جبکہ انڈیا سے بھی شائع ہوئی۔
  5. ترجمہ، امام عبد اللہ یافعی کی کتاب"خلاصتہ المفاخر فی مناقب شیخ عبد القادر رح ،
  6. مکاتیب دیوبند اور بریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ۔مقالہ برائے ایم۔اے۔اسلامیات جامعہ پنجاب لاہور۔
  7. تذکرہ سید محمد حسن شاہ جیلانی۔.موضوع تاریخ و سوانح۔
  8. پیرعبدالرحیم شہید
  9. اردو ترجمہ و پیش لفظ جامع العلوم۔.از امام فخر الدین رازی
  10. سلیس اردو ترجمہ۔کشف المحبوب سید علی ہجویری بمطابق نسخہ ثمرقندی۔
  11. اردو ترجمہ و تحقیق متن "تحفتہ مرسلہ۔شاہ ولی اللہ کی تصوف پر مبنی تین کتابوں۔سطعات،درثمین اور مکتوبات مدنی کا اردو ترجمہ و تحقیقی مقدمہ مجلد رسائل شاہ ولی اللہ۔
  12. تصوف کی اعلیٰ کتاب کتاب اللمع از شیخ ابونصرسراج ،تحقیقی مقدمہ۔
  13. احوال و آثار شیخ عبد القادر جیلانی ۔
  14. اصل مسئلہ معاشی ہے۔
  15. اسلام کا تصور ملکیت۔.
  16. تحریک پاکستان میں مولانا عبدالحامد بدایونی کے کردار کی ایک جھلک۔
  17. ہدیہ مرسلہ۔.۔ترجمہ و تحقیقی پیش لفظ
  18. علامہ اقبال اور ان کے صاحبزادے آفتاب اقبال از بیگم رشیدہ آفتاب ۔.۔پیش لفظ۔دیگر مقدمات ،پیش لفظ اور مضامین و مقالاجات کا مختصرمضمون میں ذکر ممکن نہیں۔

اولاد[ترمیم]

آپ کی شادی شیخ چہارم خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف پیر عبد الرحیم شہید کے دختر سے ہوئی آپ کے تین صاحبزادے

پیر سید علی رضا شاہ

پیر سید صبغتاللہ شاہ

پیرسید رشداللہ جعفر شاہ

آپ کے فکر و فقر کے وارث ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

حوالہ جات