فاطمہ بنت عباس بغدادیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ بنت عباس بغدادیہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1314ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ظاہر، قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت مملوک   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذہ ابن تیمیہ   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہہ ،  مفتیہ ،  واعظہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فاطمہ بنت عباس بن ابو الفتح بن محمد حنبلیہ بغدایہ، کنیت: ام زینت تھی، ساتویں صدی ہجری میں بغداد میں پیدا ہوئیں، حنبلی مذہب کی فقیہہ، مفتیہ، شیخہ اور مشہور واعظہ تھیں، علما نے انھیں اپنے زمانہ کی سیدۃ النساء (عورتوں کی سردار) کہا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی شاگردہ تھیں، اصلاً بغداد کی تھیں، عہد شباب میں دمشق چلی گئی اور پھر آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں قاہرہ منتقل ہو گئیں اور وہیں 9 ذو الحجہ سنہ 714ہجری میں محلہ ظاہر میں وفات پائیں۔[1]

حالات زندگی و سیرت[ترمیم]

اصلاً بغداد کی رہنے والی تھیں، سنہ ولادت اور ابتدائی حالاتِ زندگی کا علم نہیں ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مایہ ناز شاگردہ ہیں، فقہ خاص موضوع اور ذوق تھا، شیخ الاسلام ہی سے دمشق میں فقہ حاصل کیا، ان کی مجالس میں برابر شرکت کرتی، دروس سماعت کرتی اور اشکالات پیش کرتی، شیخ جواب دیتے، اس طرح انھوں نے خوب استفادہ کیا، ان کے اشکالات اور کثرت سوال کی وجہ سے شیخ ہر درس کی بہترین تیاری کرتے، ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ: «استاذ ابن تیمیہ ان کی اور ان کے عمل کی خوب ستائش فرماتے تھے»۔[2]

ابن تیمیہ کے علاوہ انھوں نے شمس الدین ابن ابو عمر مقدسی سے بھی علم حاصل کیا ہے، فقہ میں بغدادیہ کو کامل مہارت حاصل تھی، اہل علم کے درمیان ان کی قابلیت کا چرچہ تھا، تلامذہ کی ایک بڑی تعداد ان سے کسب فیض کے لیے حاضر ہوتی تھی، عورتوں کو درس دیا کرتی تھیں، قرآن کریم حفظ کراتی تھیں، عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کے پاس قرآن کا حفظ مکمل کیا جس میں ایک مشہور نام "سیدہ عائشہ بنت صدیق" کا ہے جو معروف عالم مزی کی بیوی تھیں، پھر ان کی بیٹی، مشہور مؤرخ ابن کثیر کی بیوی "امۃ الرحیم زینب" نے حفظ کیا، ابن کثیر خود بیان کرتے ہیں: «ان کے پاس بہت سی عورتوں نے حفظ مکمل کیا، اس میں سے ایک مشہور نام میری ساس عائشہ بنت صدیق جو شیخ جمال الدین مزی کی بیوی تھیں، جن کے پاس ان کی بیٹی، میری بیوی امۃ الرحیم زینب نے پڑھا، اللہ ان تمام پر اپنا رحم فرمائے اور جنت میں اپنی رحمت سے خاص اکرام فرمائے، آمین»۔[2]

فقہ و افتا میں مہارت کے ساتھ ساتھ مشہور واعظہ بھی تھیں، عورتوں میں وعظ کیا کرتی تھیں، صوفیت اور باطنیت کی طرف میلان تھا، شام اور مصر میں ایک صوفی فرقہ احمدیہ یا محمدیہ تھا، جو اجنبی عورتوں مردوں کے اختلاط، بلا حجاب آمنے سامنے آنے وغیرہ کا داعی تھا، فاطمہ بغدادیہ نے ان کی خوب نکیر کی، ان کی خرابیوں کو واضح کیا، ابن کثیر ان کی شجاعت کے بارے میں کہتے ہیں: «عالمہ فاضلہ تھیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خاص مشن تھا، احمدیہ فرقہ کی مردوں عورتوں کی مواخات پر نکیر کرتی، ان کی خرابیوں کو بیان کرتی، اہل بدعت وغیرہ کی نکیر فرماتی تھیں، اس میدان میں ان کا کردار مردوں سے کہیں زیادہ تھا»۔[2]

منبر پر چڑھ کر خطاب کرتیں، دروس دیتیں، لوگوں کو خصوصا عورتوں کو وعظ کرتی تھیں۔[3]


ابن قدامہ حنبلی کی مشہور کتاب "المغنی" کا اکثر و بیشتر حصہ حفظ کر لیا تھا، اس بات کو ابن کثیر نے ابن تیمیہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔[2]


آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں شام کے علاقہ مصر منتقل ہو گئیں اور وہاں قاہرہ میں قیام کیا، وہاں ان کے علم و فقہ کا خوب چرچا اور شہرہ ہوا، ایک سرائے جسے خاتون ملکہ "تذکاری خاتون" نے سنہ 668ہجری میں تعمیر کروایا تھا، اس میں ان کا درس وعظ ہوا کرتا تھا، بعد میں اس رباط (سرائے) کا نام ہی "رباط البغدادیہ" پڑ گیا۔ اس کو تقی الدین مقریزی اور صلاح الدین صفدی نے بیان کیا ہے۔[4]

علما کی آرا[ترمیم]

  • ابن حجر نے ان کے فقہ کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ: «فقہ پر خوب اچھی مہارت حاصل تھی۔[5]
  • صلاح الدین صفدی نے لکھا ہے کہ: «فقہ کے مسائل پر بہترین دسترس تھی، باریک باریک مسائل کو ان کے مندرجات کے ساتھ، حقیقت و مجاز وغیرہ کا اچھا علم تھا، ابن تیمیہ ان کی انھیں خوبیوں کی وجہ سے پسند و ستائش فرمایا کرتے تھے۔[3]
  • تقی الدین مقریزی اور علامہ ذہبی نے انھیں "اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار" قرار دیا ہے۔[4]
  • ابن کثیر نے لکھا ہے: «شیخہ تھیں، نیک، عبادت گزار اور متقیہ تھیں»۔[6][2]

اس کے علاوہ بھی علما و مورخین نے ان کی علمی صلاحیت، تقوی و پرہیزگاری اور شجاعت و بہادری پر خوب لکھا ہے۔

ان کی ایک بیٹی زینت بنت تھی، جو اپنی والدہ ہی طرح بہترین واعظہ اور خطیبہ تھی، عورتوں میں وعظ و خطاب کیا کرتی تھیں۔[7]

وفات[ترمیم]

انھوں نے طویل عمر پائی، تقریباً 80 برس کی عمر میں بیوم عرفہ 9 ذو الحجہ سنہ 714ہجری میں محلہ ظاہر قاہرہ مصر میں وفات ہوئی،[8] جنازہ میں عوام کا ایک جم غفیر شریک تھا۔[2][6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "الشيخة الصالحة فاطمة بنت عباس بن أبي الفتح البغدادية الحنبلية (714هـ) - دور المرأة في خدمة الحديث (2-4) - المكتب التعاوني للدعوة وتوعية الجاليات"۔ 26 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2019 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ثم دخلت سنة أربع عشرة وسبعمائة » من توفي فيها من الأعيان - البداية والنهاية لابن كثير آرکائیو شدہ 2016-03-05 بذریعہ وے بیک مشین
  3. ^ ا ب أعيان العصر وأعوان النصر للصفدي - جزء 4 ص 28 آرکائیو شدہ 9 اپریل 2017 بذریعہ وے بیک مشین
  4. ^ ا ب المواعظ والاعتبار للمقريزي آرکائیو شدہ 25 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین
  5. الدرر الكامنة في أعيان المئة الثامنة للعسقلاني آرکائیو شدہ 3 جنوری 2018 بذریعہ وے بیک مشین
  6. ^ ا ب "سنة أربعة عشر وسبعمائة - العبر للذهبي"۔ 14 مارچ 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2019 
  7. أم زينب فاطمة بنت عباس بن أبي الفتح بن محمد البغدادية - عودة الحجاب آرکائیو شدہ 5 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین
  8. أعيان العصر وأعوان النصر للصفدي - جزء 4 ص 29 آرکائیو شدہ 9 اپریل 2017 بذریعہ وے بیک مشین