فاطمہ بنت محمد سمرقندیہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ بنت محمد سمرقندیہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش کاسان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1185ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حلب   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت زنگیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت والجماعت
فقہی مسلک حنفی
شریک حیات علاء الدین کاسانی   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علاء الدین سمرقندی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل حنفی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فاطمہ بنت محمد بن احمد سمرقندی، اہل سنت والجماعت کی خاتون فقیہہ ہیں، حنفی مذہب کی پیروکار تھیں۔ مشہور فقیہ، صاحب کتاب تحفۃ الفقہاء محمد بن احمد سمرقندی کی صاحبزادی تھیں اور مشہور حنفی فقیہ اور شارح صاحب بدائع الصنائع علاء الدین کاسانی کی شریک حیات تھیں۔

ولادت و پرورش[ترمیم]

فاطمہ سمرقندیہ ترکستان کے شہر کاسان میں پیدا ہوئیں، ان کے والد محدث اور فقیہ تھے، انھیں سے فقہ کا علم حاصل کیا۔ عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں: «فاطمہ بڑی فقیہہ تھیں، اپنے والد سے فقہ کا علم حاصل کیا تھا، ان کی کتاب "تحفۃ الفقہاء" کو یاد کر لیا تھا»۔ اعلی اخلاق، علم دوستی، طلب علم اور شرائع و اخلاقیات کی پابندی کے ساتھ پرورش و تربیت ہوئی، بڑی حق گو تھیں، بادشاہوں اور سلاطین کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں رکھتی تھیں، یہاں تک کہ سلاطین بعض خاص مسائل میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ انتہائی زیرک تھیں، یہاں تک کہ ان کے والد فتوی دینے سے پہلے اپنی بیٹی کے سامنے پیش کرتے، ان کی رائے معلوم کرتے اور فتوی دونوں کی دستخط کے ساتھ جاری ہوتا تھا۔ خوشخطی میں بھی مشہور تھیں۔[1] [2]

نکاح[ترمیم]

فاطمہ سے نکاح کے لیے ان کی علمی و ذہنی قابلیت کی وجہ سے روم و عرب کے بہت سے مسلم سلاطین و حکام کے پیغامات آتے تھے، لیکن ان کے والد محترم نے کسی پیغام کو قبول نہیں کیا۔

ان کے والد کے ایک قابل اور مایہ ناز شاگرد علاء الدین کاسانی نے ان کی کتاب تحفۃ الفقہاء کی شرح بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع لکھی، انھیں سے اپنی ہونہار قابل صاحبزادی کا نکاح کروا دیا اور یہی کتاب مہر مقرر پائی۔ بعض فقہا نے لکھا ہے: «انھوں نے ان کی کتاب تحفہ کی شرح لکھی، انھوں نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کرا دی»۔

نکاح کے بعد[ترمیم]

فاطمہ سمرقندیہ نکاح کے بعد علم، تعلیم اور تعلم سے نہیں رکیں، ان کا علمی سفر اور طلب علم کا شوق برابر ترقی پزیر رہا، درس کے حلقے لگتے تھے اور ان کے پاس بہت سے طالبین علم آتے تھے اور استفادہ کرتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے شوہر علاء الدین کاسانی فتوی نویسی میں ان سے رائے لیا کرتے تھے اور ان کے قول کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ مؤرخ ابن العدیم لکھتے ہیں: «فاطمہ، مذاہب کی تشریح وتطبیق بہت اچھے طریقے سے کرتی تھیں، ان کے شوہر کو کبھی فتوی میں وہم اور خطا کا امکان ہوتا تو وہ ان کی درست رہنمائی کرتی تھیں اور خطا کی وجہ بھی بتا دیتی تھیں، پھر وہ اپنے قول سے رجوع کر لیتے، ان کے شوہر اسی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے۔»[3]

شوہر کے ساتھ ہجرت[ترمیم]

فاطمہ سمرقندیہ نے اپنے شوہر کے ساتھ بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ اخیر میں ایوبی سلطان صلاح الدین کے پاس قیام کیا، وہ ان دونوں کا بہت احترام و اکرام کرتے تھے، اپنے خاص معاملات میں ان سے مشورہ لیتے تھے۔ اسی طرح حلب کے سلطان نور الدین زنگی بھی فاطمہ کے بہت قدردان تھے، سلطنت کے داخلی امور سے متعلق ان سے مشورہ لیتے تھے۔ اور ان سے جواب حاصل کرنے کے لیے حلب میں ایک خاتون بھیجتے، پھر وہ جواب دیتی تھیں۔ آخری عمر وفات پر حلب ہی میں مقیم رہیں۔

وفات[ترمیم]

فاطمہ سمرقندیہ کی وفات سنہ 581ہجری میں حلب میں ہوئی اور وہیں مسجد ابراہیم الخلیل میں مدفون ہوئیں۔ ان کے شوہر ہر جمعہ کی رات ان کی قبر کی زیارت کرتے تھے، یہاں تک کہ 6 سال بعد 587ھ میں ان کی بھی وفات ہو گئی اور انھوں نے ان کے بغل میں مدفون ہونے کی وصیت کی تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "فاطمة السمرقندي نشأت على فضائل الأخلاق وحب العلم"۔ 27 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2020 
  2. الفوائد البهية للكنوي ص 158
  3. أعلام النساء في عالمي العرب والإسلام لعمر رضا كحالة، ج 4 ص 94 - 95