فرقہ واریت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(فرقہ بندی سے رجوع مکرر)

فرقہ کے معنی جماعت یاگروہ کے ہیں۔ یہ لفظ "فرق" سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جداہوناہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ کواس طرح بیان کیاجاسکتاہے کہ فرقہ کسی بھی مذہب، جماعت (سیاسی یا مذہبی) یا گروپ کاذیلی حصہ ہوتاہے جواپنے الگ خیالات ونظریات کی وجہ سے الگ جاناجاتاہے۔

برصغیر میں شیعہ سنی فرقہ واریت کی تاریخ

امرا کی  سرد جنگ اور شاہ ولی اللہ  

مرشد آباد میں برصغیر کی سب سے بڑی امام بارگاہ، "نظامت امام باڑہ"، جس کی بنیاد نواب سراج الدولہؒ  نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی-

مغل شہنشاہ اورنگزیب  عالمگیر نے اپنے ابا و اجداد  کے سیکولر طرز حکومت کو ترک کیا، جس کا پہلا نتیجہ گجرات میں شیوا جی بھوسلے کی قیادت میں مرہٹہ بغاوت کی شکل میں نکلا۔ اورنگزیب کے زمانے کی سرکاری دستاویزات شیعہ مسلک کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سرکاری طور پر شیعوں سے  امتیازی سلوک کیا جاتا اور شیعہ مسلک کی توہین کی جاتی تھی۔ شیعہ مسلمانوں کو برابری کے حقوق کے حصول کے لیے اپنا مسلک چھپانا پڑتا تھا۔ دکن پر حملوں اور اپنے بھائیوں ( دارا شکوہ اور شاہ شجاع) کے ساتھ جنگوں میں اورنگزیب کا سپاہ سالار سعید خان میر جملہ شیعہ تھا، لیکن اس کا شیعہ ہونا  اس کی وفات اور تدفین کے وقت ظاہر ہوا جب اس کی وصیت کے مطابق ایک شیعہ عالم نے تلقین پڑھی۔ بادشاہ کی شیعہ مسلک سے نفرت نے شیعہ مخالف علما کی حوصلہ افزائی ہوئی جس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا پڑا۔مغل سلطنت میں بادشاہ کی موت کے بعد وہی شہزادہ تخت نشین ہوتا تھا جس کے ساتھ زیادہ امرا شامل ہو جاتے کیوں کہ مغل فوج دراصل کوئی قومی فوج نہ تھی بلکہ ہر جنگ میں امرا اپنے لشکر فراہم کیا کرتے تھے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد شیعہ امرا نے طاقت کے کھیل میں  کردار ادا کرنا چاہا تو سنی امرا نے سیاسی رسہ کشی کو مسلکی رنگ دیا تاکہ اپنے حریفوں کو اقلیت تک محدود کر کے کمزور کر سکیں۔ سید برادران اور نظام الملک میں رسہ کشی  طاقت اور نفوز  کی جنگ تھی۔ اب بھی بہت سے اداروں میں میرٹ کی بجائے مسلک کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اگر کہیں  شیعوں کو انصاف مہیا ہونے لگے یا  ان کا  کوئی قاتل پکڑا جائے، تو کچھ لوگ اسے شیعہ اثر و نفوذمیں اضافے کا نام دیتے ہیں۔آصف زرداری شیعہ  ہونے کے باوجود   اپنے دور صدارت میں کیمرے کے لیے  ہاتھ باندھ کر نماز  عید پڑھتا ہے۔ اگرچہ شیعہ امرا کو شیعہ عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہ تھی، لیکن مسلکی بنیادوں پر شیعہ امرا کو نشانہ بنانے کی کوششوں نے شیعہ عوام کی زندگی کو بھی متاثر کیا۔

اٹھارویں صدی عیسوی جہاں مغل سلطنت کے مغرب میں افغان حملہ آوروں اور مشرق و جنوب میں انگریزوں کے سامنے عسکری کمزوری دکھانے سے عبارت ہے، وہیں دہلی میں شیعہ اور سنی امرا کے بیچ سرد جنگ اس سلطنت کے زوال کا دوسرا اہم عامل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی شکست و ریخت کے زمانے میں دہلی میں جامعہ رحیمیہ کے گدی نشین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ( 1703ء۔ 1762ء) نے اہلسنت میں بہت مقام پیدا کیا۔ شاہ ولی اللہ 1731ء میں حج کرنے گئے اور وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک "توحید والعدل"، جس کو عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے، کے اثرات اپنے ساتھ لائے۔ 1739ء میں ایران میں مغل دوست صفوی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایران کے نئے ترک نژاد سنی بادشاہ "نادر شاہ افشار "نے ایران کے معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے  ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو لوٹ مار اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ اس قتل عام میں اس کے افغان سالار احمد شاہ ابدالی نے خون کے دریا بہا دیے۔ 1747ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے افغان دستے کے سربراہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان نامی نئے ملک کی بنیاد رکھی۔1747ء میں احمد شاہ ابدالی نے دوبارہ دہلی پر حملہ کرنا چاہا تو اس کو سرہند کے مقام پرمغل سلطنت کی طرف سے اودھ کے  شیعہ نواب صفدر جنگ نے شکست دی۔ اس کے نتیجے میں صفدر جنگ کے مرتبے اور عزت میں اضافہ ہوا تو دہلی میں اس کے خلاف سنی امرا کی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں اور 1753ء میں اس کو دہلی چھوڑ کر اودھ جانا پڑا۔ اس ماحول میں شاہ ولی اللہ نے اپنے خوابوں کو بنیاد بنا کر اہل تشیع کے خلاف "فیوض الحرمین"، "قراۃ العینین"، "ازالۃ الخفا" اور "حجۃ اللہ البالغہ" جیسی کتابوں میں تنقید کی۔ اپنے ایک خواب کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ پہلے دو خلفا کا نور رسول اللهؐ کے نور سے ملا ہوا ہے، وہی بات جو شیعہ قرآن کی آیت مباہلہ اور احادیث کی بنیاد پر حضرت علی کے لیے کہتے تھے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ رسول اللهؐ نے ان کو خواب میں آ کر بتایا کہ شیعہ گمراہ ہیں۔ مرشد آباد میں موجود برصغیر   کی سب سے بڑی امام بارگاہ، "نظامت امام باڑہ"کی بنیاد نواب سراج الدولہؒ  نے رکھی تھی۔ سراج الدولہ نے انگریزوں سے جنگ کی لیکن ان کا مسلک شیعہ ہونے کی وجہ سے انھیں شاہ ولی اللہ کی طرف سے وہ حمایت نہ ملی جو احمد شاہ ابدالی کو میسر رہی۔ یہی مسلہ میر قاسم اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ  کو درپیش  تھا، انھیں بھی بکسر کے میدان میں دہلی کے سنی امرا یا شاہ ولی اللہ کی طرف سے کوئی حمایت نہ ملی۔ احمد شاہ ابدالی نے کل سات حملے کیے جن میں سے چوتھے اور پانچویں حملے میں دہلی پہنچا۔ دہلی پر 1757ء کے حملے میں افغانوں نے منظم انداز میں شہر کو لوٹا، شہر کے محلوں میں الگ الگ ٹولیاں بھیجی گئیں جنھوں نے نہ صرف گھروں کا سامان لوٹا بلکہ فرش اکھاڑ کر بھی تلاشی لی تاکہ کسی کا چھپایا گیا زیور باقی نہ رہ جائے۔بے شمار ہندو خواتین کی عصمت لوٹی گئی۔دو سال بعد شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو دوبارہ دعوت دی اور اس مرتبہ اس نے دہلی کے شیعہ خصوصی طور پر قتل اور شہر بدرکئے، شاہ ولی اللہ کے بیٹے کے بقول انھوں نے ایک سال پہلے اس کو بتایا تھا کہ اگلے سال دہلی میں ایک بھی شیعہ باقی نہیں بچے گا[1]۔ اس کی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے حسن و جمال میں معروف ایک انیس سالہ مغل شہزادی "حضرت بیگم" کو زبردستی اپنی بیوی بنایا اور قندھار لے گیا، جہاں وہ دو سال ذہنی اذیت کے  بعد انتقال کر گئی۔ اس نے   صوبہ ملتان، صوبہ لاہور اور کشمیر کو افغانستان کی کالونی بنا لیا۔ کشمیر میں افغان فوج نے شیعوں کا قتل عام کیا۔ افغانستان ایک سنگلاخ ملک ہے، لہٰذا پنجاب کی زراعت اور مویشی اس وقت سے افغان بادشاہوں کو پنجاب کا دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔

احمد شاہ ابدالی

کھادا پیتا وادے دا

باقی احمد شاہے د ا

یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمھاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اسی لوٹ مار کے تناظر میں میر تقی میر نے کہا:-

دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخاب

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

اس دوران مغل بادشاہ عالمگیر دوم کو اس کے سنی وزیر امداد الملک نے قتل کر دیا اور ایک اور شہزادے شاہجہاں سوم کو مسند شاہی پر بٹھا دیا۔ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان میں روہیل کھنڈ میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔یہاں سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو دعوت  کا مقصد  سنی امرا  کے مفادات کا تحفظ تھا تاکہ دہلی اور اودھ کے بیچ فاصلہ پیدا کیا جائے۔ مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے  ہم مذہب  احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔ 1761ء میں اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو پانی پت میں شکست دے دی، نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں شاہ ولی اللہ انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔ ادھر پنجاب میں سکھوں نے ٹولیوں کی شکل میں افغان لٹیروں کے خلاف مزاحمت شروع کی اور پنجاب میں انارکی پھیل گئی۔ سکھوں کی جو ٹولی جس علاقے میں افغانوں کو بھگانے میں کامیاب ہو جاتی، وہاں اپنا ڈاکو راج قائم کرتی۔ شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نے دہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگائے۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے[2]۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کی بدولت  پنجاب میں قانون اور ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ پنجاب کو سکھ کا سانس تب نصیب ہوا جب رنجیت سنگھ نے پنجاب کو ایک ریاست کے نیچے منظم کیا اور سکھ سلطنت  (1799ء – 1849ء ) قائم کی۔ میسور کے نواب حیدر علی اور ان کے بیٹے فتح علی ٹیپو  بھی  دہلی کی طرف سے  کسی قسم کے حمایتی  فتوے سے محروم رہے، اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے ریاست میسور میں ایران کے شہر شیراز سے شیعہ علما اور تاجروں کو آ کر شیعیت متعارف کروانے کا موقع دیا؟  سندھ کے شیعہ تالپور میر بھی انگریزوں کے خلاف اکیلے لڑے۔شاہ ولی اللہ کے بعد آنے والے دور میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر دور پچھلے دور سے بڑھ کر تھا۔

شاہ عبد العزیز اور تحفہ اثنا عشریہ

تحفہ اثنا عشریہ

شاہ ولی اللہ کے بیٹوں میں سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( 1746ء۔ 1823ء) فرقہ وارانہ نفرت میں آگے تھے اور انہی منفی جذبات کی وجہ سے ان کو مستقل معدے میں جلن کی شکایت رہتی تھی[3]۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پچیس برس کی عمر ہی میں ان کو جذام ہو گیا اور نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز نے شیعہ اعتقادات کے خلاف "تحفۃ اثنا عشریۃ" نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب ایک افغان سنی عالم خواجہ نصر اللہ کابلی کی کتاب " صواقع موبقہ" کی فارسی میں شرح تھی۔اس کتاب کا پہلا نسخہ شاہ عبد العزیز نے تقیہ سے کام لیتے ہوئے "حافظ غلام حلیم "کے قلمی نام سے شائع کیا، کیوں کہ انھیں شیعہ امرا سے انتقامی کارروائی کا خوف تھا۔ البتہ اگر شیعہ صاحبان حل و عقد کو اگر سنی علما کے خلاف تعصب سے کام لینا ہوتا تو اودھ میں وہ سنی دار العلوم فرنگی محل کی سرپرستی نہ کر رہے ہوتے، جو ہندوستان کا سب سے بڑا سنی مدرسہ تھا۔ شیعہ امرا کا مفاد فرقہ وارانہ اختلاف کو سیاست سے الگ رکھنے میں تھا۔ وہ ہندوستان کی مسلم اقلیت کے لیے اکبر بادشاہ کے حکیمانہ طرز حکمرانی کو مشعل راہ سمجھتے تھے۔ یہی سوچ بعد میں قائد اعظم محمد علی جناح میں بھی نظر آتی ہے جنھوں نے اپنی فقہی وابستگی کو سیاسی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔

تحفہ اثنا عشریہ کی پہلی اشاعت کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے بعد اگلی چاپ میں شاہ عبد العزیز نے اپنا اصلی نام بھی ظاہر کر دیا۔اس کتاب میں شاہ عبد العزیز نے حد سے تجاوز کرتے ہوئے شیعہ سنی مشترکات کو بھی متنازع بنا دیا۔ اس طرح شیعہ امرا بمقابلہ  سنی امرا،   ذاتی مفادات کی جنگ میں شیعہ عوام اور شیعہ مکتب فکر کو نشانہ بنا یا۔ تحفہ اثنا عشریہ کے جواب میں شیعہ علما نے موقف اختیار کیا کہ شاہ عبد العزیز نے شیعہ مسلک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے علم مناظرہ اور نقل حدیث کے آداب و رسوم کی خلاف ورزی کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ شیعہ موقف دیانت داری سے اور مکمل طور پر  پیش نہیں کیا گیا۔ اکثر شیعہ علما نے اس کتاب کے ہر باب کا الگ الگ کتاب کی صورت میں رد کیا۔ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی ؒ نے شیعہ عقیدہ توحید، نبوت، امامت و آخرت کے خلاف لکھے گئے ابواب پنجم، ششم، ہفتم و ہشتم  کے رد میں "الصَّوارمُ الإلهیّات فی قَطْع شُبَهات عابدی العُزّی و اللّات"، "حِسامُ الاسلام و سَهامُ المَلام"، " خاتِمَۃُ الصَّوارم"، "ذو الفقار"اور "اِحْیاءُ السُّنّۃ و اماتَۃُ الْبِدْعَۃ بِطَعْنِ الأسِنَّۃ"  لکھیں۔ علامہ سید محمد قلی موسوی ؒنے تحفہ اثنا عشریہ کے پہلے، دوسرے، ساتویں، دسویں اور گیارہویں ابواب کا الگ الگ جواب دیا اور ان کتب کا مجموعہ  "الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ" کے عنوان سے شائع ہوا۔ مولانا خیر الدین محمد الہ آبادی ؒ نے باب چہارم کے جواب میں "هدایۃ العزیز " لکھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی علما نے  تحفہ اثنا عشریہ کے ابواب کے رد میں کتب تصنیف کیں جن میں شیعہ مکتب فکر کا موقف واضح کیا گیا۔ البتہ بعض علما نے اس کے تمام ابواب کے جواب میں ایک ہی کتاب لکھی جن میں سے  علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے" نزھۃ اثنا عشریۃ"[4]اور مرزا محمد ہادی رسواؒ نے اردو میں "تحفۃ السنۃ " لکھیں۔ نزھۃ  اثنا عشریہ کی اشاعت تو تحفہ اثنا عشریہ کی پہلی اشاعت کے تین سال بعد ہی ہو گئی تھی اور اس وجہ سے ریاست جھاجھڑ کے سنی راجا نے علامہ سید محمّد کامل دہلویؒ کو بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا کر قتل کر دیا۔ شاہ عبد العزیزنہ صرف  یہ کتاب لکھ کرسنی امرا کے گروہ کے مفاد کے لیے فرقہ وارانہ سرد جنگ کا حصہ بنے بلکہ  بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی مسلسل جسمانی اذیت  کا غصہ بھی اپنے فتووں اور خطوط میں شیعوں پر نکالتے رہے۔ تحفہ اثنا عشریہ کے جوابات کا اثر یہ ہوا کہ شاہ عبد العزیز کے شاگرد سید قمر الدین حسینی، جن کے لیے انھوں نے" اجالا نافعہ "کے عنوان سے علم حدیث کا ایک رسالہ لکھا تھا، نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا[5]۔   البتہ سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو نصیب  ہوئی وہ  آیت اللہ سید حامد حسینؒ  اور ان کی اولاد کی لکھی گئی  بیس جلدوں پر مشتمل   کتاب  "عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار" ہے[6] جو تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب کے رد میں لکھی گئی تھی، یہ کتاب آج تک شیعہ عقیدہ امامت پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ہے۔یہاں ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے۔ اس زمانے میں اہم ترین سنی مرکز فرنگی محل تھا، جہاں ادب، فقہ، منطق، ریاضی اور کلام جیسے مضامین پڑھا ئے جاتے تھے۔ علمائے فرنگی محل مذہب کو امرا کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے دہلی کے علما سے دور رہے۔

ہندوستان میں قومی تحریک آزادی چلنے کے بعد کچھ لوگوں نے شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد العزیز کو سنی امرا کے ملازم  اور شیعہ سنی سرد جنگ کا مہرہ کہنے کی بجائے انقلابی سورما کے طور پر پیش کرنا شروع کیا جو بے بنیاد دعوا ہے۔ ان دونوں شخصیات نے انگریزوں کے خلاف  کسی مسلمان حکمران کی حمایت میں کوئی فتویٰ یا حکم جاری نہیں کیا۔ البتہ جب انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تو شاہ عبد العزیز نے ایک فقہی مسلے کی وضاحت کی حد تک ہندوستان کو فقہ حنفی کے مطابق دار الحرب قرار دیا۔ انھوں نے نہ تو انگریزوں کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک شروع کی، نہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ عسکری محاذ پر کوئی خطرہ پیدا کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔بعض لوگ آزادی کی جدوجہد کے آغاز کو نواب سراج الدولہ سے منسوب کرنے کی بجائے  اس فتوے کو جدوجہد آزادی کا آغاز قرار دیتے ہیں، جبکہ اس دعوے کے کھوکھلا ہونے کو یہی بات کافی ہے کہ شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد انگریزوں کی حمایت کا اعلان کرتے رہے، جس کا ذکر آگے آ ئے گا۔اسی طرح بہت سے لوگ شاہ ولی اللہ کو دہلی میں سنی امرا کا مہرہ کہنے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے دہلی کو ہندو مرہٹوں سے بچایا تھا۔ مرہٹے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور احمد شاہ کی طرح لوٹ مار کر کے اس کی دولت کہیں اور منتقل کرنا نہیں چاہتے تھے۔  حقیقت میں مرہٹے مغل شہنشاہ کو معزول نہیں کرنا چاہتے تھے اور جب ضابطہ خان اور بعد میں اس کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نے مغل شہنشاہ کو معزول کیا تو  مرہٹے  ہی اس کی مدد کو پہنچے۔ عجیب تضاد ہے کہ جن لوگوں کے خیال میں  مرہٹوں کی حمایت حرام تھی وہ گاندھی جی کی ہندومت پر مبنی مذہبی سیاست کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کو انقلابی رنگ میں رنگنے کے لیے یہ مشہور کیا گیا کہ ان کے ہاتھ کسی ظالم راجے نے توڑ دیے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے ہاتھ ٹوٹنا اگر سچ ہوتا تو اتنا اہم واقعہ تھا جس کو ضرور ان کے فرزند نقل کرتے، اگر وہ نہ کرتے تو کوئی مرید ضرور لکھتا۔ اس افواہ کا ذکر ڈیڑھ سو سال بعد کی تحریروں میں ملتا ہے۔شاہ عبد العزیز  صاحب کے بارے میں بھی ایک فرضی ظلم یہ گھڑا گیا ہے کہ ان کے جسم پر کسی شیعہ  نے چپکے سے  چھپکلی کا زہر ملا تھا جس کی وجہ سے ان کو جذام ہو گیا تھا، لیکن برا ہو جدید علم طب کا جس نے ثابت کیا ہے کہ جذام کا چھپکلی کے لعاب دہن سے کوئی تعلق نہیں۔شاہ صاحب خود فرماتے ہیں کہ ان کی معدہ اور جلد کی بیماری  جوانی کے زمانے سے تھی۔اس زمانے میں اگر کسی نے شاہ صاحب کو نقصان پہنچانا ہوتا تو وہ  تحفہ اثنا عشریہ  کا مصنف حافظ غلام حلیم  کو ہی رہنے دیتے۔

سید احمد بریلوی اورشیعہ ثقافت پر حملوں میں تیزی

قدیم لکھنؤ میں مجلس عزا

عرب دنیا میں 1802ء میں وہابی لشکر نے کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور وہاں ائمہؑ کے مزارات کی تخریب کے ساتھ پانچ ہزار شیعہ مسلمان قتل کیے۔1804ء میں اس لشکر نے مدینہ پر بھی حملہ کیا اور روضۂ رسولؐ کی تخریب کی۔ ان حرکتوں کی وجہ سے عالم اسلام میں اس تحریک کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوئے، لیکن ان کارروائیوں کا  اثر شاہ ولی اللہ کے خاندان کے بعض افراد پر یوں پڑا کہ  ان کے  متعصبانہ  اورسطحی  تصورات  سے ابھرنے والے متشدد ذہن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ برصغیر میں وہابیت نافذ کرنے کی کوشش سب سے پہلے 1820ء کی دہائی میں سید احمد رائے بریلی، شاہ اسماعیل دہلوی اور مولوی عبد الحئی نے کی۔ ان میں سے شاہ اسماعیل دہلوی شاہ عبد العزیز کے بھتیجے اور مولوی عبد الحئی، شاہ عبد العزیز کے داماد تھے۔  ان تین حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں بہت اہم ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 1786ء میں پیدا ہونے والے سید احمد رائے بریلی نے پہلے عالم دین بننے کی کوشش کی مگر کند ذہن ہونے کی وجہ سے ناکام ہوئے اور پانچ سال زور لگانے کے بعد مدرسہ ترک کر دیا۔ 1811ء میں امیر خان نامی ڈاکو کے لشکر میں شامل ہوئے جس نے سات سال بعد انگریزوں سے معاہدہ کر کے ہتھیار ڈال دیے اور آپ بے روزگار ہو گئے[7]۔ اب سید احمد نے بھی  لا شعوری طور پر امیر خان ڈاکو کی  طرح ریاست قائم کرنے  کی خواہش پیدا ہوئی۔ نیم خواندہ حضرات میں دین  یا آئیڈیالوجی کے نام پر اقتدار کے حصول کی نفسیات بہت پیچیدہ ہے۔ یہ لوگ خود راستی کے احساس کا شکار ہو کر کسی قسم کا ظلم اور غلطی کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہمارے زمانے میں اس کی ایک مثال کمبوڈیا کے پول پاٹ اور عراق و شام کے ابو بکر بغدادی کی ہے۔ اس مہم میں اہم موڑ شاہ اسماعیل اور مولوی عبد الحئی کا اپنے آپ کو سید احمد کی مریدی میں دینا تھا۔ یہ دونوں سید احمد سے ہرلحاظ سے بہتر تھے، چنانچہ سید احمد میں یہ مالیخولیا  پیدا ہوا کہ وہ خدا کی طرف سے چنے ہوئے اور ایک مشن پر مامور کیے گئے ہیں۔ مذہبی دنیا میں  کم علمی کی وجہ سے کوئی مقام نہ ہونے  اور پیٹ کی بھوک نے اس مالیخولیا کو اور ہوا دی۔ وہ مفتی بن کر عزت  و معاش نہ کما سکے تو امیر المومنین بن کر مفتیوں سے بھی آگے نکل سکتے تھے۔ سید احمد کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ آج کل کے دہشت گردوں کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ ان لوگوں  کوبھی جب  جہالت، غربت اور  اکابر کی حمایت  کی مثلث  کا سامنا ہوتا ہے تو ان کی نفسیاتی کیفیت  بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے۔

شاہ اسماعیل نے اپنی کتب میں اہل سنت کو عزاداری پر حملے کے لیے اکسایا اور کہا کہ تعزیہ توڑنے کا ثواب بت شکنی جیسا ہے۔ شاہ عبد العزیز اپنی زندگی کے آخری سالوں میں تھے،   ان کے ہاں نہ صرف محرم میں مجلس ہوتی تھی۔ فتاویٰ عزیزی میں 1238 ہجری یعنی سنہ 1818ء میں ایک سوال کے جواب میں ایسی مجلس کا ذکر موجود ہے۔ بلکہ وہ بی بی فاطمہؑ کی نیاز بھی دیا کرتے۔ سید احمد نے ان کے گھر میں نیاز دلانے کے سلسلے کو بھی بند کروا دیا[8]۔ اس سے پہلے محرم میں تعزیہ،   اہلبیت کا  ذکرا ور نیاز  شیعہ و سنی کے لیے مشترک  عمل تھا۔سید احمد رائے بریلی نے سہارن پور میں تعزیے کو آگ لگوا دی۔ اس توہین کی وجہ سے اہل تشیع میں اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے اس فتنے کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس تیاری کی خبر ملنے پر انگریزوں نے سید احمد اور ان کے مریدوں کو سہارن پور سے علاقہ بدر کر دیا۔ سید احمد جب بریلی گئے تو وہاں بھی عزاداری کے خلاف جلسے اور تقریریں کیں جن کے رد عمل میں اہل تشیع نے تبرا کا جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔ صفوی دور کی شروع کردہ بدعت ہندوستان میں بھی آنے والی تھی مگر اودھ کے نواب غازی الدین حیدر اور آیت اللہ سید دلدار علی نقویؒ نے اہل تشیع کو اس حرکت سے باز رکھا۔ 1817ء سے 1820ء تک مختلف شہروں میں پھر کر فساد پھیلانے کے بعد چار سو عقیدت مندوں کو لے کر سید احمد1821ء میں حج کرنے چلے گئے۔راستے میں بنارس کے مقام پر اہلسنت کی امام بارگاہوں پر حملہ کیا اور تعزیے جلائے۔ پٹنہ میں بھی یہی کام کیا اور وہاں کے انگریز مجسٹریٹ نے اہل تشیع کے احتجاج کے باوجود اس ٹولے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی[9]۔

جو لوگ طالبان اور القاعدہ کے امریکا کے ساتھ عجیب و غریب گٹھ جوڑ کو سمجھنا چاہتے ہیں انھیں شاہ ولی اللہ کے خاندان کے اقدامات اور انگریزوں کے مفادات کے درمیان میں غیر مستقیم تعلق کو سمجھنا ہو گا۔ انگریز اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے – وہ اکبر کے زمانے سے ہندوستان کے معاشرے کے بارے میں معلومات جمع کر رہے تھے اور کتب لکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عرب ممالک میں وہابی تحریک اور ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کے خاندان کی تحریک ان معاشروں کو اسی طرح کھوکھلا کرے گی جیسے یورپ میں 1522 ء میں چھڑ کر 1618ء سے 1648 ء تک عروج پر پہنچنے والی فرقہ وارانہ جنگوں نے مغربی معاشروں کو کیا تھا۔ لہٰذا جس طرح انھوں نے حجاز میں وہابی تحریک کی حمایت کی اسی طرح ان حضرات کو بھی اپنی نظر میں رکھتے ہوئے کھلی چھٹی دی۔ بات واضح تھی، سید احمد جیسے  انگریزوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے البتہ ان کو اپنے جاسوسوں کی مدد سے ورغلا کر اس زمانے میں انگریزوں کے دشمن سکھوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا۔ سید احمد کو لشکر سازی میں امیر خان ڈاکو نے بہت مدد فراہم کی، جو کچھ عرصہ قبل  انگریزوں سے معاہدہ کر  کے  ہتھیار پھینکنے کے بدلے جائداد حاصل کر چکا تھا۔ اس طرح اس شخص کو سہولت کار کے طور پر استعمال کر کے انگریز اس ساری تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔یہ لوگ  شمالی ہندوستان میں لشکر بنا کر جہاد کے لیے راجستھان، بلوچستان اور افغانستان کا تین ہزار میل لمبا سفر کر کے سکھوں کی کمر میں خنجر مارنے پختون علاقوں میں پہنچ گئے۔ اس وقت سندھ میں شیعہ تالپور خاندان  انگریزوں سے بر سر پیکار تھا مگر ان مجاہدین نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں:۔

"انگریزوں سے جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں۔ ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"[10][11][12]۔

ان لوگوں نے اپنی دانست میں  خدا کی شان بیان کرنے کے لیے رسول اللہ(ص) کی شان میں توہین آمیز باتیں کیں۔ اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد سنی علما نے ان کے افکار کے خلاف رسالے لکھے، جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا عبد المجید بدایونی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد موسیٰ اورمولانا ابوالخیر سعید مجددی نمایاں تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے ایک پوری کتاب ''تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ''لکھی۔ان لوگوں کے پیروکار بعد میں بریلوی کہلائے۔

1826ء میں یہ لوگ پختون علاقوں میں طالبانی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی ریاست نہیں تھی جو انسانی سرمائے کو استحکام اور آزادی کی فضا مہیا کر کے عوام کی زندگی میں بہتری لاتی، غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرتی۔ اس زمانے میں مغرب میں صنعتی اور طبی انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا جس نے آگے چل کر دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمایا، ادھر مسلمان معاشرے کو ایسی جونکوں نے آ لیا تھا۔ پشتون علاقوں میں انھوں نے اپنے ساتھ بنگال  و  بہار سے لائے گئے کالے  مجاہدین کی مقامی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کی تھیں۔ اگرچہ اس حرکت کی وجہ سے مقامی آبادی ان کے خلاف ہو گئی تھی لیکن آگے چل کر ان شادیوں نے ان علاقوں میں ان کی سوچ پھیلائی۔ آخر کار 1831ء میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کو بالاکوٹ میں پختونوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر قتل کر کے خلاصی پائی۔ ان کی وفات کے سو سال بعد مرزا حیرت دہلوی جیسوں نے اپنی کتابوں میں ان حضرات کے بارے میں عجیب و غریب کرامات درج کیں۔

1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی  حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔

برصغیر میں جدید دور کا آغاز اور اس کے اثرات

1857ء میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں کی غیرت نئے کارتوسوں پر لگی گائے اور سور کی چربی کو چکھ کر بیدار ہو گئی جس سے برصغیرمیں انگریزوں کے خلاف غیر منظم جنگ کا آغاز ہوا۔ لکھنؤ اور دہلی کے شیعہ سنی علما نے  جہاد کا مشترکہ فتویٰ دیا۔ شاہ عبد العزیز کے دار الحرب والے فتوے کے برعکس یہ فتویٰ ایک حقیقی خطرہ بن کر سامنے آیاکیوں کہ یہ واضح اور روشن سیاسی ہدف رکھتا تھا۔ ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سے پھسلا تو برطانیہ کی حکومت نے گود لے لیا۔ رنگون سے آنے والے انگریز فوج کے دستے نے لاکھوں لوگ قتل کر کے چنگیز خان کی سی دھاک بٹھا دی۔بہر حال اس غیر منظم جنگ نے پہلی بار ہندوستانیوںمیں اجتماعی زندگی کے بارے میں سوچ پیدا کی۔ اس سیاسی تبدیلی کے ساتھ اہم سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں:۔

ہندوستان میں چھاپہ خانہ آ جانے سے کتابیں شایع کرنا آسان ہو گیا- کاروباری افراد کے لیے ایسی کتابیں چھاپنا اہم تھا جو زیادہ تعداد میں بک سکتی ہوں تاکہ ان کی فروخت سے منافع کمایا جا سکے-
  1. اپنی ایجاد کے چار سو سال بعد چھاپہ خانہ (پرنٹنگ پریس) ہندوستان پہنچ چکا تھا۔چھاپہ خانہ کتنی بڑی اور گہری تبدیلی تھا، اس کا اندازہ دس سال قبل  فیس بک، گوگل اور یو ٹیوب کے عام ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانے میں فرق کو دیکھ کر لگایا جا سکتاہے۔  تحریریں لکھنا اور نشر کرنا سستا اور عام ہو گیا۔نیزجس طرح آج کل سوشل میڈیا کو بہت سے لوگوں نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح چھاپہ خانوں کی توجہ بھی ایسا مواد نشر کرنے پر زیادہ ہوئی جو بک سکتاتھا- جنتریاں، معجزات، کرامات، ٹوٹکے ہی نہیں بلکہ نفرت انگیز پمفلٹ اور کتابیں بھی چھپنے لگیں-
  2. راجے مہاراجاؤں کا زمانہ ختم ہونے سے مدارس و علما کی معاش کا انحصار عوامی چندے پر ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمی گہرائی کی بجائے ظاہر بینی اور عوام کو متاثر کرنا علما کی  معاشی مجبوری بن گیا۔ اب عوام میں تقسیم پیدا  کر نا علما کی معاشی مجبوری بن گیا۔ سنیوں  میں  علمائے فرنگی محل کی جگہ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور نیچری (دین کی مادی تفسیر  کرنے والے) آ گئے-  شیعوں  میں انیس و غالب اور مجتہدین کی بجائے خود ساختہ قصے سنانے     والے ذاکرین اور گرما گرم مناظرانہ بحثوں والے خطبا  منظر عام پر آ گئے۔بہت سے مدارس کھل گئے۔بدعتی بمقابلہ وہابی، غالی بمقابلہ مقصر  کی بنیاد پر گروہ بندیاں ہوئیں۔پہلے کئی شیعہ علما، سنی     علمائے   فرنگی محل  کے شاگرد رہ چکے  تھے اور کئی سنی علما، شیعہ مجتہدین کے شاگرد رہ چکے تھے، لیکن اب عوام کو یہ سمجھانا ممکن نہ تھا کہ ان کے چندے سے دوسرے مسلک کے طالب علم کو منطق یا حدیث کا علم کیوں پڑھایا جا رہا تھا؟
  3. ریل گاڑی اور ٹیلی گرام نے مختلف علاقوں میں رہنے والے ایک مکتب فکر کے افراد کو  آپس میں رابطہ کرنے اور مل کر اقدام اٹھانے کے قابل بنا دیا اور بہت سی تنظیمیں بن گئیں۔ ہندوؤں میں بھی اس زمانے میں شدھی تحریک جیسی جماعتیں قائم ہونے لگیں۔ مسلم مسیحی مناظرے بھی عام ہو گئے۔مولانا شبلی نعمانی نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے ندوۃالعلماء کی بنیاد رکھی جس میں تمام مسالک کو شامل کیا  گیا۔
  4. انگریزوں نے امریکا اور افریقہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں ہندوستان کی دولت لوٹنے  کے لیے طرح طرح کی پابندیاں لگائیں جن کی وجہ سے ہندوستان کا کام برطانیہ کی صنعت کو خام مال فراہم کرنا رہ گیا۔ ہندوستان میں تیزی سے غربت میں اضافہ ہوا۔ غربت نے عام آدمی کو کتاب خوانی کی بجائے پروپگنڈے پر  مشتمل اخباروں، افواہوں  اور اشتہارات  کا چارہ بنا دیا۔غربت کا ہی     ایک نتیجہ یہ نکلا کہ عالم اسلام کی تمام ناکامیوں کو مسلم سماج  کی اقلیت، یعنی اہل تشیع، کے ذمے لگایا جانے لگا۔  معاشی بحران  میں کمزورگروہ کو ساری ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینا عام ہوتا ہے، صاحبان اقتدار کے کاموں  کی ذمہ داری کسی  چالاک "ابن سبا "  یا "یہودی جرمن"پر ڈال دی جاتی ہے۔
  5. اہلسنت  میں جو نئے مسالک بنے، انھوں نے اپنے آپ کو پکا اور اصلی سنی ثابت کرنے کے لیے  شیعوں کو تختۂ مشق بنایا۔ اس کو سمجھنے کے لیے یورپ میں مارٹن لوتھر کی یہود مخالف تبلیغ اور نفرت انگیزی کو دیکھنا ہو گا۔ جب کیتھولک چرچ نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اس کو گمراہ قرار دیا تو اس کے پاس عوام میں جگہ بنانے کے لیے یہی راستہ تھا کہ یورپی معاشرے میں ہر جگہ پائی جانے والی اقلیت  کو کیتھولک چرچ سے بڑھ کر نشانہ بنائے تاکہ اکثریت بمقابلہ اقلیت کی فضا میں اکثریت اس کو اپنا سورما سمجھے۔ وہاں بھی یہ کام پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے ممکن بنایا تھا۔ چنانچہ  مولانا رشید احمد گنگوہی نے تحفہ اثنا عشریہ کاخلاصہ بعنوان  " ہدیہ الشیعہ" لکھا، اس میں شیعہ علما کی طرف سے لکھی گئی وضاحتوں پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ سر سید احمد خان نے تحفہ اثنا عشریہ کے دو ابواب کا ترجمہ بعنوان "تحفہ حسن " کیا۔البتہ سر سید  احمد خان کو جلد ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ فرقہ واریت کا حصہ بن کر وہ کوئی خدمت نہیں کر رہے، انھوں نے جدید تعلیم کے لیے اینگلو اورینٹل کالج بنایا جس کو راجہ صاحب محمود آباد، مولانا چراغ علی، سید امیر علی، وغیرہ جیسے با اثر شیعوں کی بھرپور  حمایت بھی حاصل رہی۔  دیوبندی عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے شیعوں کے خلاف ایک کتاب بعنوان "مطرقۃالکرامہ" یعنی کرامت والا ہتھوڑا، لکھی جس کے جواب میں شیعہ عالم مولانا سجاد حسین نے "اعجاز داؤدی" لکھی۔  مولانا  احمد رضا خان بریلوی نے دیوبند مکتب فکر کے خلاف مکہ و مدینہ میں عثمانی سلطنت کے علما سے  جو فتویٰ منگوایا اس کو "حسام الحرمین" یعنی حرمین کی تلوار کے عنوان سے چھاپہ، اس کے جواب میں مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے "المہند علی المفند"لکھی جس کے عنوان کا مطلب ہے "کھسکے ہوئے بڈھے کے سر پر ہندوستان کی تلوار کا وار"۔ ان عنوانات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے  کہ اس زمانے میں عوامی توجہ حاصل کرنے کی دوڑ میں علما کی ذہنی حالت کیا تھی؟
  6. اس وقت کچھ ایسے خطیب اور مناظرین سامنے آ ئے  جو سنی سے شیعہ ہوئے تھے۔ چونکہ یہ لوگ فقہ و حدیث میں مجتہدین کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے، لہذا انھوں نے اختلافی مسائل کو اپنی تقریروں کا موضوع بن کر عوام میں جگہ بنائی۔ مولانا سجاد حسین ایک ایسے ہی شیعہ  عالم تھے۔ ایک اور خطیب جو سنی سے شیعہ ہوئے مولانا مقبول احمد دہلوی تھے۔ دوسری طرف ایک شیعہ عالم مولانا محسن الملک سنی ہو گئے۔ انھوں نے سنیوں میں شیعہ مخالف مہم چلانی شروع کر دی۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد  گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ:"محرم میں ذکر شہادت حسین کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"[13]۔ اسی دوران میں مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے بھی عزاداری پر شرک کا فتویٰ لگایا اور شیعوں کو اسلام کے آنگن میں پڑی نجاست قرار دیا [14][15]۔  علامہ سید علی الحائری نے "وسیلۃ  المبتلا"، "تبصرۃ العقلا"، "مہدی موعود" اور "مسیح موعود" کے عنوان سے مختصر  اردو کتابچے اور ایک چار جلدوں پر مشتمل فارسی  کتاب "غایۃ المقصود" لکھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کو جواب دیا۔  دوسری طرف شیعہ علما نے متعدد مناظرے کیے جس کے نتیجے میں شیعہ مکتب فکر کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا نے  اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملا اور اس طرح شمالی ہند میں شیعیت کو  مزید فروغ حاصل ہوا۔    اس سلسلے میں علامہ سید محمد باقر چکڑالوی کا نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔عزاداری پر سب سے پہلا حملہ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں دار العلوم دیوبند کے طلبہ نے کیا۔ دیوبند قصبے کے رہائشی اہل سنت محرم میں یاد کربلا مناتے تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے طلبہ کا جتھہ بنا کر دیوبند کے رہائشی اہل سنت کو دہشت زدہ کیا اور کربلاکی یاد منانے سے روک دیا[16]۔ ندوۃالعلماء کو یہی سوچ لے ڈوبی کیوں کہ اس کے اجلاسوں میں  امام احمد رضا خان بریلوی نے شیعوں کے خلاف ہنگامہ کیا جس کے نتیجے میں شیعہ مجتہدین نے اپنے آپ کو الگ کر لیا۔یہی نفسیات بعد میں پرویزی فرقے(منکرین حدیث) میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو  اپنے مخالفین کو عجمی شیعہ سازش کے پیچھے لگا کر  خود کو اصلی مسلمان ثابت کرتا ہے۔
  7. اس دور میں عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے جعلی کرامات اور معجزات بھی پھیلائے گئے- مثال کے طور پر مولانا قاسم نانوتوی کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ انھیں خواب آیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھے ہیں[17]۔ایک اور خواب کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسم مبارک مولانا قاسم نانوتوی کے جسم میں سما گیا[18]۔ مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے خواب اور کرامات بھی ان کی مقبولیت کی ایک وجہ بنے تھے- یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا- مولانا عطاء اللہ بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تھے تو پرندے اور جانور رک جاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جب حج کے لیے گئے تو یہ جھوٹ مشہور کر دیا گیا کہ انھوں نے روضۂ رسولؐ پر جا کر سلام کیا تھا تو روضہ رسول ؐسے جواب آیا "وعلیکم السلام یا عبدی"، اسی بنیاد پر انھیں مدنی کہا جاتا ہے۔مولانا احمد علی لاہوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ ان کو حلال مال سے خریدا گیا ہے یا حرام مال سے، اسی طرح لوگوں کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ یہ جنتی ہے یا جہنمی؟ یہاں تک کہ لال مسجد کے مولانا عبد العزیز نے مسلح افراد کو اعتماد میں لینے کے لیے کہا تھا کہ مجھے رسول اللہ ؐنے خواب میں آ کر بشارت دی ہے کہ میرے شہید ہونے کے بعد پاکستان میں میرے خون کی برکت سے اسلامی انقلاب آ جائے گا۔ بہت سے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مولانا عبد العزیز لوگوں کو رسول ؐکی زیارت کرواتے ہیں۔باقی فرقوں میں بھی اس زمانے میں معجزات کے ذکر پر مبنی مضامین اور کتابچے عام تھے۔

پختون علاقوں میں منظم شیعہ کشی

انیسویں صدی کے آخر میں شیعہ مخالف پروپیگنڈے کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اوران کو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس  کے نتیجے میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی[19]۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنھوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے   کوئٹہ میں آ گئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔  کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل  افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات  اور بہتر انتظامی  اقدامات کی بدولت  اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لے کر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ قاتلوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے۔

لکھنؤ میں پہلا فساد اور تحریک خلافت

بیسویں صدی کا آغاز فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوا، فرقہ وارانہ  منافرت  کا جو بیج شاہ ولی اللہ نے  امرا کی جنگ کا فریق بن کر بویا تھا، وہ  غربت اور کم علمی کے دور میں تناور درخت بن چکا تھا۔ اس دوران میں لکھنومیں مولانا عبد الشکور لکھنوی سامنے آئے۔یہ بھی اس دور کے عوامی علما کی طرح نیم خواندہ تھے۔ انھوں نے شیعہ مخالف مہم میں نیا جوش پیدا کیا۔ متعہ کو قدیم کتب اہلسنت میں نکاح کی ایک قسم قرار دیا جاتا تھا، انھوں نے اس کو زنا قرار دیا۔تقیہ کو نفاق کے برابر کہا اور شیعوں کو قرآن و نبوت کا منکر قرار دیا۔اسی دور میں ایک نیا رواج یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص اپنا مسلک تبدیل کرتا تو اس کو دوسرے مسلک کی فتح قرار دیا جاتا۔ اصلی مشکلات کو شکست نہ دے سکنے والے ایسی" فتوحات "پر غصہ ٹھنڈا کرنے لگے۔1900ء کے  عشرے میں مولانا عبد الشکور  لکھنوی اور مولانا مقبول دہلوی کے مناظرے عام تھے۔ ابھی تک اہلسنت میں تعزیہ داری کا رواج موجود تھا، لہذا  مولانا  عبد الشکور لکھنوی نے اس بات پر  زور دیا کہ عاشورا چونکہ امام حسین کی فتح کا موقع ہے لہذا اس دن خوشی منانی چاہئیے۔ یہ شرارت  بہت کامیاب ہوئی۔اب روز عاشورا کو جب شیعہ جلوس تل کٹورا کے مقام پر " درگاہ امام حسین و کربلا" نامی مشترکہ امامبارگاہ جاتا تو ماتم اور نوحے اور غم کا اظہار کر رہا ہوتا، جبکہ سنی جلوس میں عید میلاد النبی ؐ کی طرز پر خوشی کا اظہار ہوتا۔ عاشورا کے دن بچوں کے جھولنے کے لیے پینگیں اور خریداری کے لیے مختلف قسم کے سٹال لگائے جانے لگے، ایک میلے کا سماں پیدا ہونے لگا۔ غریب ہندو بھی اس موقعے پر اشیائے خور و نوش بیچنے کے لیے ریڑھیاں لگانے لگے[20]۔ آج کل بھی یہ عمل جاری ہے، مثال کے طور پر  یوٹیوب پر اورنگ آباد میں عاشورا کے حوالے سے ویڈیوز تلاش کریں تو   ہر دو قسم کی ویڈیوز مل جائیں گی، ایک طرف عزاداری اور ایک طرف جشن، یہاں سے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر شیعہ سنی فساد ہوا اور انگریزحکومت نے مداخلت  کر کے  تل کٹورا میں عاشورمیلے پر پابندی لگا دی۔ مولانا عبد الشکور اور ان کے ساتھیوں  نے 1906ء میں لکھنؤ کے شمال میں الگ سنی امام بارگاہ بنام "کربلا" قائم کی۔ انھوں نے اگلی بات یہ کہی کہ اہلسنت عاشورا کے دن  کالے کپڑے پہننا ترک کریں اورسفید، زرد یا سرخ لباس پہنا کریں۔شیعہ روایات کے مطابق سرخ لباس لشکر شام کا تھا، اس سے شہر میں شیعہ  سنی تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ مولانا نے تعزیے کے ساتھ چار یاری پرچم متعارف کرایا اور  کربلا کی بجائے " مدح صحابہ "کے عنوان سے جلوس نکالنا شروع کیا۔ یہاں سے اکثر اہلسنت ان سے الگ ہو گئے اور ایک اقلیت ان کے ساتھ رہ گئی۔1907ء اور 1908ء میں عاشورا کے موقعے پر لکھنؤ میں بڑے پیمانے پر  فسادات ہوئے[21]۔ انگریز حکومت نے  پیگوٹ کمیٹی کے نام سے انکوئری کمیشن بنایا جس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے مدح صحابہ کے جلوس کو  بد نیتی پر مبنی شرارت  قرار دے کر پابندی لگا دی۔ ساتھ ہی انھوں نے عزاداری کے جلوسوں کو رجسٹر کر کے لائسنس جاری کیے تاکہ حکومت کی پیشگی اجازت  کے بغیر کوئی جلوس نہ نکلے۔ جلوس پر پابندی لگنے کے بعد مولانا نے محرم میں بزم صدیقی، بزم فاروقی اور بزم عثمانی  کے عنوان سے محافل کا انعقاد شروع کر دیا۔ ان محافل میں مسلہ خلافت جیسے اختلافی مسائل پر تقریریں ہوتیں اور خلافت راشدہ کے زوال کا ملبہ ابن سبا جیسے" گھاگ سازشیوں" پر ڈال کر شیعوں کو اس کا جدید روپ قرار دیا جاتا۔ یہ ماحول شیعوں میں مولوی مقبول دہلوی جیسے لوگوں کے پھلنے پھولنے کے لیے نہایت سازگار تھا۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عمر ؓ کے یوم وصال پر بزم فیروزی کا انعقاد شروع کر دیا۔علمائے فرنگی محل نے خود کو مولانا عبد الشکور لکھنوی سے دور رکھا البتہ بعض دیوبندی علما نے ان کی بھرپور حمایت کی۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرات  علی ؑو حسنین ؑکی توہین اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی[22]۔بات شیعہ دشمنی سے نکل کے اہلبیتؑ کو نشانہ بنانے تک پہنچ گئی۔

جب تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو جہاں پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسے بعض سنی رہنماؤں نے عثمانی خلافت کو ملوکیت قرار دے کر اس کی مخالفت کی وہیں لکھنؤ کے شیعہ مجتہدین نے بھی مذہبی بنیادوں پر اس کو مسترد کیا۔ البتہ علی گڑھ میں پڑھنے والے شیعوں نے اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور اپنے علاقوں میں اس کے عہدے دار بھی بنے۔ جمعیت علمائے ہند  اور گاندھی جی نے  اس تحریک کو اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا۔ شیعہ عوام میں بھی  حجاز، عراق اور ایران کے مقدس مقامات پر انگریزوں کے حملوں کی وجہ سے اس تحریک کی حمایت پیدا ہوئی۔قائد اعظم ؒالبتہ اس کو ایک بے سمت اور بے مقصد تحریک قرار دے کر اس سے الگ رہے۔اس تحریک نے جہاں مسلمانوں میں گاندھی جی کا حامی طبقہ پیدا کیا وہیں شیعہ و سنی کے تناؤ کو کم کیا۔

1920ء کی دہائی میں شیعہ سنی فساد کا تنور کافی حد تک ٹھنڈا ہو گیا۔ البتہ اس دہائی میں لکھنؤ میں نئے کارخانے لگے جس کی وجہ سے دیہات سے بہت لوگ لکھنؤ میں آ کر رہنے لگے اور شہر کی آبادی دوگنی ہو گئی۔ اپنے ماحول، دوستوں اور برادری  سے دور شہر آنے والے دیہاتیوں کے لیے مذہبی تنظیمیں سماجی رابطے بنانے اور جدت و تہذیب کے خوف سے نبٹنے کا وسیلہ ہوتی ہیں۔دیہاتی نوجوان شہر آ کر مذہبی تنظیموں میں شہری تہذیب کے خلاف اپنا غصہ نکالتے ہیں۔

فسادات کا عروج  اور مولانا  حسین احمد مدنی

فائل:Nikahnama-jinah.png
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے نکاح نامے کا عکس جس میں  ان کا مسلک "اثنا عشری "لکھا  ہے۔ دلہن محترمہ رتن بائی ؒ  کے وکیل علامہ ابو الحسن نجفی ؒ  تھے۔

1929ء میں   لاہور میں مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا مظہر علی اظہر  اور مولانا ظفر الملک  نے "مجلس احرار" نامی تنظیم بنائی۔مولانا مظہر علی اظہر سابقہ شیعہ تھے جنھوں نے بعد میں دیوبندی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ یہ سپاہ صحابہ  عنصر کا ابتدائی ظہور تھا۔ مجلس احرار نے مدح صحابہ کے جلوس پر پابندی کے خلاف تقاریر شروع کیں۔1931ء میں  مولانا عبد الشکور لکھنؤی  کے فرزند مولانا عبد الشکور فاروقی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ"دار المبلغین" قائم کیا اور دوبارہ محرم کے دنوں میں   بزم  صدیقی اور بزم فاروقی  کا آغاز کر دیا۔ اپنے والد کے برعکس مولانا فاروقی نے اہلسنت کے تعزیے کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔مولانا فاروقی  ان محفلوں کو  شیعہ مدرسہ الواعظین اور عزاداری کے اہم روٹ  کے سامنے "ڈیوڑھی آغا میر" میں منعقد کیا کرتے[23]۔اس مرتبہ اہلسنت سے  ایک نیا گروہ  الگ ہو کر سامنے آیا جنھوں نے کھلم کھلا اہلبیت کے قاتلوں کی مدح شروع کر دی۔ یہ لوگ خود کو فخر سے" خارجی" کہتے تھے[24]۔ 1936ء میں مجلس احرار نے محرم کے موقع پر مدح صحابہ کا جلوس بحال کروانے کے لیے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔اس وقت ہندوستان میں انتخابات ہوئے تو شیعہ نمائندوں کو ووٹ دینا حرام قرار دیا گیا۔قائد اعظم کے چودہ نکات اور گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آ رہی تھی لیکن قائد اعظم، ابو الحسن اصفہانی اور راجا صاحب محمود آباد کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مجلس احرار اور جمیعت علمائے ہند نے مسلم لیگ کے خلاف گھٹیا مہم چلائی۔ قائد اعظم کی مرحومہ زوجہ، جنھوں نے شادی سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور جن کی وفات کے بعد ان کو شیعہ طریقے سے بمبئی کے خوجا اثنا عشری قبرستان میں دفن کیا گیا تھا، کو جمیعت علمائے  ہند نے کافرہ کہنا شروع کیا[25]۔

جمیعت علمائے  ہندکیلئے یہ ہضم کرنا مشکل تھا کہ تحریک خلافت کے برعکس اس مرتبہ مسلمان مسلم لیگ کی طرف کھنچے جا رہے تھے۔1937ء میں لکھنؤ کے شیعوں نے اشتعال انگیزی کے رد عمل میں تبرے کے جلوس نکالنا شروع کر دیے۔اس دوران میں کانگریس کی حکومت بن چکی تھی۔ 1938ء میں جمیعت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے مدح صحابہ تحریک کی قیادت سنبھال لی۔1938ء میں عاشورا کے موقعے پر شیعہ سنی جنگ ہوئی اور متعدد افراد قتل ہوئے۔شہر کے شیعہ اور سنی شہریوں نے آپس میں بول چال، خریداری، آنا جانا بند کر دیا۔ قائد اعظم ؒ، جو مسلمانوں کے حقوق کے لیے متحرک ہو چکے تھے، اس فساد کو کانگریس کی سازش سمجھتے تھے کیوں کہ اس کو ہوا دینے والے جمعیت علمائے ہند کے مولانا حسین احمد مدنی کانگریس کے اتحادی تھے۔ قائد اعظم ؒکے خیال میں شیعہ سنی جھگڑے کروانے کا مقصد مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کو پردے کے پیچھے دھکیلنا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریسی وزیروں کی مسلم دشمنی سامنے آنے کے باوجود مولانا حسین احمد مدنی  ہندو مسلم  اتحاد  کی تو وکالت کرتے  تھے مگر مسلمانوں کا داخلی اتحاد توڑنے میں لگے رہتے تھے۔ اس تضاد کو حل کرنے کے لیے ہمیں مولانا مدنی کے معاشی مسائل کو سمجھنا ہو گا، مولانا کو دیوبند مدرسہ و جمیعت  کا خرچہ پورا کرنا تھا۔عوام سے چندہ لینے میں فرقہ وارانہ نفرت اور خوف بہت کارآمد ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کے پروگرام کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے جمیعت علمائے اسلام کی سیاسی زندگی ختم ہونے کو تھی، لہذا اسے  ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگا کر کانگریس  کے پروں میں پناہ لینا پڑی۔ قائد اعظم ؒکے ساتھی مرزا ابو الحسن اصفہانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:۔

”مجھے یاد ہے کہ پہلے روز مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے جناح کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کو عملی سیاست کے اکھاڑے میں زیادہ فعال حصہ لینے کی تجویز کا خیرمقدم کیا مگر آخری روز ان دو علمائے دین میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کی خاطر انتھک اور مؤثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر دیوبند کی مشینری مسلم لیگ کے لیے وقف کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لیگ اس پروپیگنڈے مہم کے اخراجات برداشت کرے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ جناح نے صاف بتا دیا کہ نہ تو اس وقت لیگ اتنے پیسے دے سکتی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے۔ اس پر ہر دو علمائے دین مایوس ہو کر کانگرس کی طرف راغب ہو گئے۔ کانگرس چونکہ مالی اعانت کا مطالبہ پورا کر سکتی تھی اس لیے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا “[26]۔

اور نوبت یہاں آ پہنچی کہ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کے بقول:۔

”جن کے علم و تقویٰ پر (بزعم خود) مدینے کی مہر ثبت تھی، اُن کی بابت جواہر لال نہرو کا ایک خط شائع ہو گیا کہ حسین احمد کو اتنے روپے دے چکا ہوں، اب وہ اور مانگتے ہیں۔ نہرو نے ان کے نام کے ساتھ نہ مولانا لکھا نہ جناب نہ صاحب “[27]۔

اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش  کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی  پھر بھی صحابہ کے نام پر فتنہ انگیزی سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ 1940ء میں دہلی میں عزاداری کے جلوس پر بم سے حملہ کیا گیا[28][29]۔ اس حملے کو محرم کے جلوسوں پر ہونے والا پہلا بم دھماکا کہا جا سکتا ہے- مولانا عبد الشکور  1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو  گئے۔قیام  پاکستان کے بعد ہجرت کر کے پنجاب آنے  والے  معروف  عالم دین،   مولانا منظور احمد چنیوٹی، انہی کے شاگرد تھے۔

تحریک پاکستان اور فرقہ وارانہ ذہنیت

جنگ عظیم دوم  کی وجہ سے کمزور ہونے والے انگریزوں کے ہندوستان سے جانے  اور   مسلم لیگ کی تحریک کے نتیجے میں  ہندوستان کے شمال مغرب  میں ایک مسلمان ریاست کے ممکنہ قیام کی آہٹ پا کر علما دیوبند میں سے کچھ نے اس وجہ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی کہ اس تحریک کو چلانے والے محمد علی جناح اور اخراجات برداشت کرنے والے راجا صاحب محمود آباد شیعہ تھے[30]۔ دیوبندی مفتی کفایت ﷲ دہلوی صاحب کے مطابق قائد شیعہ اور جدت پسند ہونے کی وجہ سے صرف نام کے مسلمان تھے[31]۔چنانچہ مولانا عطا اللہ بخاری نے جہاں مولانا آزاد کے غیر متعصب سیاسی موقف کو نقل کیا وہاں گاہے گاہے اپنی مخالفت کی اصلی وجہ بھی بیان کی۔  مولانا صاحب کے الفاظ میں  محمد علی، غضنفر  علی اور دوسرے علی نام والے لوگ نیا ملک  اس لیے نہیں بنا رہے کہ اس کو ہمارے حوالے کر دیں۔البتہ کچھ دیگر سخت گیر علما نے قیام پاکستان کو ناگزیر سمجھتے ہوئے وادی سندھ  کی طرف ہجرت  شروع کی اور دوبارہ سے   سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی  یک ثقافتی  ریاست کے قیام کی کوششیں شروع کر دیں۔ 26  اگست 1941ء کو لاہور میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ مولانا مودودی اگرچہ روایتی فرقہ پرست عالم  نہیں تھے مگر اپنی جماعت اسلامی کے پیغام کو قبول نہ کرنے والوں کو نام نہاد مسلمان سمجھتے تھے۔ اس طرح جماعت اسلامی بھی ایک قسم کا فرقہ بن گئی۔  البتہ  جماعت اسلامی محدود تعداد مگر  منظم  ارکان  کا حامل   فرقہ ہے، جس کو انگریزی زبان میں کلٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ 1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔

1940ء کی دہائی میں عوام فسادی  علما سے دور ہو گئے اور لڑائی سے پرہیز کیا لیکن جمیعت علمائے ہند اور مجلس احرار نے فرقہ وارانہ آگ لگانے کی کوششوں کو کبھی ترک نہ کیا۔1944ء میں  مہاتما  گاندھی قائد اعظم ؒ سے  مذاکرات کرنے بمبئی   آ ئے تو قائد اعظم نے 7 ستمبر کو   حضرت علی ؑ کے یوم شہادت کی وجہ سے ملاقات سے معذرت کی اور مذاکرات 9 ستمبر کو شروع ہوئے۔  اس بات پر لکھنؤ سے مجلس الاحرار کے رہنما مولانا ظفر الملک بھڑک اٹھے اور  قائد اعظم ؒ کو  کھلا  خط لکھ  کر کہا:۔

"مسلمانوں کا 21 رمضان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ خالص شیعہ دن ہے۔ اسلام کسی قسم کے سوگ کی اجازت نہیں دیتا۔ در حقیقت اسلام کی روح اس قسم کے یہودی تصورات کے بالکل خلاف ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ خوجا کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک شیعہ گروہ ہے، لیکن آپ کو مسلمانوں پر ایک شیعہ عقیدہ تھوپنے کا کوئی حق نہیں"[32]۔

قائد اعظم ؒ نے اس خط کے جواب میں لکھا:۔

"یہ شیعہ عقیدے کی بات نہیں، حضرت علی ؑچوتھے خلیفہ بھی تھے۔ اور میں جانتا ہوں کہ حقیقت میں اکیس رمضان کا دن اکثر مسلمان، شیعہ سنی اختلاف سے بالاتر ہو کر   مناتے ہیں۔ مجھے آپ کے رویے پر تعجب ہوا ہے"[33]۔

اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ  یہ لوگ   قائد اعظم ؒ  کی مذہبی آزادی کا بھی احترام نہیں کرتے تھے، ان کے غم و خوشی کے ذاتی جذبات کو بھی اپنی سوچ کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ فرنگی محل لکھنؤ سے اہلسنت  نے آپ کو خط لکھ کر مولانا ظفر الملک کی اس حرکت کی مذمت کی اور آپ کو  مکمل حمایت کا یقین دلایا[34]۔

26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت تھی، کیونکہ دیوبندی علما محمد علی جناح کے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے[35]۔ جب قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا[36]، یوں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی[37] مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے شایع کردہ "فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے[38]۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انھوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا[39]۔ دوسری طرف دیوبندی علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان کے بعد  ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔

پاکستان میں شیعہ مخالف مہم کاآغاز

1948ء میں روزنامہ احسان نے اپنے اداریے میں شیعوں کے عقائد اور ثقافت پر تنقید کی اور ان  کو تلقین کی کہ انگریز دور کو بھول کر نئے ملک میں مسلمانوں کی طرح رہنا سیکھیں۔  اس اخبار کو سرکاری اداروں میں بھی منگوایا جاتا تھا، چنانچہ اس اداریے کے خلاف شیعوں  نے ملک گیر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں حکومت نے نفرت پھیلانے کے جرم میں اخبار پر تین ہزار روپیہ جرمانہ عائد کیا۔ 1949ء میں چوٹی زیریں اور 1950ء میں نارووال میں عزاداری پر حملے ہوئے۔ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں شیعہ امیدواروں کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی گئی اور انھیں کافر قرار دیا گیا[40]۔ ستم ظریفی  یہ  کہ 24جنوری 1951ء میں کراچی میں سب مکاتب فکر بشمول شیعہ کے علما نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے 22 نکات ترتیب دیے، جبکہ عملی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے تھے۔ 1953ء میں قادیانیوں  کے خلاف چلنے والی مہم میں شیعہ رہنما بھی شامل ہوئے۔  دو سالوں کے لیے دیوبندی علما کی توجہ ختم نبوت کے معاملے پر مرکوز رہنے کی وجہ سے شیعوں  پر کوئی حملہ نہ ہوا۔ شیعہ مخالف حملوں کا دوبارہ آغاز 1955ء میں ہوا جب پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں  پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔  اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امامبارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے[41]۔

پاکستان میں دہشت گردی

دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں ایک غیر سرکاری مسلح قوت کے طور پر جگہ بنانے کا موقع 1948ءکے کشمیر جہاد کے دوران ملا۔ البتہ پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی کیونکہ جن دیوبندی قبائل کے لشکر پر انحصار کر کے کشمیر پر حملہ کیا گیا انھوں نے پیشہ وارانہ فوج کی طرح پیش قدمی کی بجائے بارہ مولہ کے مقام پر ہندوؤں کی لڑکیوں کو لونڈی بنانا اور ان کے گھر کے سامان کو لوٹنا شروع کیا۔ اس دوران میں ہندوستان کو سرینگر میں پیراشوٹ کی مدد سے فوج اتارنے اور ائیرپورٹ پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا جس نے ان قبائل کو پیچھے دھکیل کر وادئ سندھ کے دریاؤں کی شہ رگ پرقبضہ کر لیا۔ پاکستان میں شیعہ کشی کی پہلی واردات 1950 ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی، جو 1948ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے۔ 1956ء میں وادئ کرم دوبارہ حملوں کا نشانہ بنی۔ پنجاب میں شیعہ کشی کی پہلی واردات 1957ء میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں ہوئی جہاں جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس واردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے۔ جون 1958ء میں بھکر میں  ایک شیعہ خطیب آغا محسن کو  قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں  کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر  نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے  والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی[41]۔ مولانا نور الحسن بخاری کوکوئی سزا نہ ملی۔ جوں جوں پاکستان میں نفاذ  اسلام کی تحریک زور پکڑتی گئی، معاشرے کو دیوبندی قسم کے مذہبی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں اضافہ ہوتا گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ شیعہ علما بھی نفاذ اسلام کی تحریکوں کا ساتھ دیتے رہے۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963ء کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔ 3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئ جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا[42][43]۔  متعدد زخمیوں نے خود کو مردہ ظاہر کر کے جان بچائی۔ یہ  لوگ   ایک چھوٹے سے امام بارگاہ میں یوم عاشور  کی مناسبت سے ماتم اور گریہ و زاری کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جھنگ، کراچی، لاہور، چکوال، ڈیرہ غازی خان، ملتان، شیخوپورہ، پاراچنار اور گلگت میں عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس وقت تک شیعہ دشمنی میں اتنی شدت آ چکی تھی کہ 11 جولائی 1967ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے جنازے پر دیوبندی عناصر نے اعتراض کیا اور ایک شدت پسند طلبہ تنظیم نے پتھراؤ شروع کر دیا جس کے خلاف پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ مادر ملت کے سیاسی مخالف جنرل ایوب خان نے اپنی یاداشتوں میں اس ہنگامے پر افسوس کا اظہار کیا ہے[44]۔

بات صرف قتل و غارت تک محدود  نہیں تھی، فرقہ وارانہ لٹریچر کا تنور بھی دہک رہا تھا جس میں اکثر شیعوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ مرزا حیرت دہلوی  اور  عبد الشکور لکھنؤی  کی کتابیں کم تھیں کہ  محمود احمد عباسی[45] اور ابو یزید بٹ[46] کی کتابوں نے اشتعال انگیزی کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔  بعد میں علامہ احسان الہی ظہیر نے جلتی پر مزید تیل چھڑکا[47] ان لوگوں کی گندی زبان کا رد عمل  قیام پاکستان کے تقریباً چالیس سال بعد  اس صورت میں آیا جب پنجاب کے ایک دیہاتی شیعہ مولوی غلام حسین نجفی نے بھی ایسی ہی زبان استعمال کی[48][49]۔

قیام پاکستان سے ہی یہ تاثر عام تھا کہ دیوبندی علما قادیانیوں کے بعد شیعوں کے خلاف مہم چلائیں گے۔1965ء سے 1977ءتک کے سالوں میں شیعہ کشی کی مہم دیوبندی علما کے پیپلز پارٹی کے سوشلزم، بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور بعد میں ختم نبوت کی تحریک جیسے مسائل میں الجھ جانے کی وجہ سے ماند پڑ گئی۔  1974ء میں جب قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ زیر بحث آیا تو مرزا ناصر صاحب کی طرف سے شیعہ عقائد پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ شیعہ ایم این اے سید عبّاس حسین گردیزی نے اپنے مکتب فکر کے علما سے رابطہ کر کے 2 ستمبر 1974ء کو دس صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان داخل کرایا[50]۔

افغانستان میں عدم استحکام اور ایران میں انقلاب

انقلاب ثور کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہوا تو پاکستان میں شیعوں کے قاتلوں کو پناہ گاہ میسر آئی-

افغانستان نے 1973ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان  کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی  جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح "افغان  مجاہدین"  کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974 ء میں ہی استوار ہو گئے۔ پاکستان کے پختونوں نے انگریزوں کے دور میں ہی وادئ سندھ کو سنگلاخ افغانستان پر ترجیح دی تھی اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان  کے ساتھ اپنے معاشی اور تاریخی تعلق کی وجہ سے ہی قیام پاکستان کے بعد ہونے والے ریفرنڈم میں پاکستان سے الحاق کیا تھا۔اسی گہرے تعلق کی بدولت پاکستان کے پختون عوام میں افغانستان  کی حمایت سے چلنے والی اس تحریک کو خاطر خواہ حمایت نہ مل سکی۔جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب "فریب ناتمام" میں ان سب واقعات  اور افغانستان کی پسماندگی کی تفصیل لکھی ہے۔اسی دوران میں ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک آیت اللہ خمینی کی قیادت میں چل رہی تھی - پاکستان کے شیعہ علماءکی اکثریت اس تحریک کے خلاف تھی اورآیت اللہ شریعت مدار نامی شاہ نواز مرجع تقلید کی حامی تھی - پاکستان میں شیعہ عوام یا تو نجف میں مقیم عراقی مرجع آیت اللہ محسن الحکیم کے پیرو تھے یاقم کے آیت اللہ شریعت مدار کی تقلید کرتے تھے - پاکستان میں سب سے پہلے جس نے ایران میں مذہبی انقلاب کی تحریک کی حمایت کی وہ مولانا مودودی تھے[51] جونومبر 1963ء میں حج کے سفر کے دوران میں آیت اللہ خمینی سے ملاقات کر چکے تھے [52]- آیت اللہ خمینی ان کی کتاب " اسلامی ریاست " سے متاثر تھے۔ پاکستان کے روایتی شیعہ علما آیت اللہ خمینی کی طرف سے فلسفے اور تصوف کی تعلیم اور شاہ ایران کی مخالفت کی وجہ سے ان کو گمراہ سمجھتے تھے[53]۔ البتہ لاہور کے مولانا صفدر حسین نجفی نے ان کی توضیح المسائل کا ترجمہ کر کے عوام میں ان کی تقلید کو رواج دینے کی محدود کوشش کی۔جب جولائی 1977ء میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978ء میں لاہور میں 8 جبکہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے[54]۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت میں سرکاری اسکولوں میں شیعہ بچوں کے لیے منظور کی جانے والی شیعہ دینیات کے مضمون پر پابندی لگا دی۔

پاکستان میں شیعہ کشی کے واقعات میں شدت اس وقت آئی جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں انقلاب ثور آیا اور اس سے اگلے سال  کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ پختون قبائل میں پہلے ہی امیر عبد الرحمن خان کے زمانے سے شیعہ اور بریلوی مخالف جذبات پائے جاتے تھے۔  اگلے سال فروری 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا جس نے شیعہ مسلک کو ایک مسلمان مسلک کے طور پر متعارف کرایا۔ ایران کی مذہبی قیادت نے انقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے ایران سے باہر جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ جماعت اسلامی کے علیل رہنما مولانا مودودی تھے[55]۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد پاکستان کا انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنا بھی مولانا مودودی کی کوشش سے ممکن ہوا- پاکستانی شیعوں میں آیت اللہ خمینی کی باقاعدہ حمایت سنہ 1985ء میں علامہ عارف حسین الحسینی کے منظر عام پر آنے سے پیدا ہوئی جو مذہبی نظام حکومت پر یقین رکھتے تھے اور جماعت اسلامی اور جمیعت علما اسلام کی قیادت کے کافی قریب تھے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے کھلے عام آیت اللہ خمینی کی حمایت نے بعض دیوبندی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا کی جوشاہ کے زمانے میں "الحق" جیسے مجلات میں ایران کی مذہب سے دوری کو شیعہ مسلک کی بے راہ روی قرار دیا کرتے تھے۔ افغانستان میں جاری جنگ کے ضمن میں جنگی تربیت، مالی وسائل اور پناہ گاہیں ملنے کے نتیجے میں پاکستان میں شیعہ ثقافت کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والی  تنظیم اہل سنت اب سپاہ صحابہ کی شکل میں زیادہ متحرک ہو گئی۔ گذشتہ سو سال میں اردو زبان میں لکھا گیا نفرت انگیز لٹریچر کافی مقدار میں پھیل چکا تھا۔ تحریر و تقریر کے ذریعے شیعہ مسلک کو کافر قرار دینے کی مہم اب جہاد افغانستان کے ضمن میں ملنے والے فنڈز کی بدولت زیادہ تیز ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ شیعہ کشی بھی بڑھنے لگی۔ پاکستان کے کونے کونے میں دیوبندی مدارس کھلنے لگے۔ ایک اندازے کے مطابق  آج کل ان مدارس میں طلبہ کی تعداد پندرہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی زمانے میں پاکستان کے در و دیوار پر کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے درج ہو گئے۔بات صرف ایرانی انقلاب کی قیادت کے شیعہ ہونے کی نہیں تھی، ایران کی مذہبی قیادت نے انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران سے باہر سب سے پہلے جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ مولانا مودودی ؒتھے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے ابتدائی سالوں سے ہی دیوبندی علما بالعموم اور مولانا منظور احمد چنیوٹی  بالخصوص، مولانا مودودی ؒسے پیشہ وارانہ مخاصمت رکھتے تھے اور ان کے خلاف کئی مضامین اور کتابیں لکھ چکے تھے۔ انھوں نے "ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت" کے عنوان سے کتاب لکھ کر شیعہ سنی منافرت کو ہوا دی جس کے نتیجے میں جہاں جماعت اسلامی کی مقبولیت میں کمی آئی وہاں پاکستان میں شیعہ کشی میں مزید تیزی آئی۔ دیوبندی علما کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر جماعت اسلامی ایران کے انقلاب کے اثرات درآمد کر کے کوئی تحریک چلانے میں کامیاب ہو جاتی تو جماعت اسلامی ان سرکاری منصبوں تک پہنچ سکتی تھی جن کے خواب دیوبندی علما اپنے لیے دیکھ رہے تھے۔

1984ء میں مولانا نورالحسن بخاری کی وفات کے بعد کچھ عرصہ "تنظیم اہلسنت"  کو "سواد اعظم" پکارا گیا اور اس کی سرپرستی مولانا سمیع الحق نے کی۔ 1985ء میں پاکستانی پنجاب کے شہر جھنگ میں "انجمن سپاہ صحابہ" کے نئے نام سے سامنے آئی۔کچھ سالوں بعد جب اس نام کے انگریزی مخفف (ASS) کا مذاق اڑایا جانے لگا تو اس کا نام بدل کر "سپاہ صحابہ پاکستان" رکھ دیا گیا۔

ضیاء کے زمانے میں کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت میں شیعوں پر بڑے حملے ہوئے۔1981ء میں کرم ایجنسی کے سارے دیوبندی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر پاراچنار کے راستے پر موجود قصبہ "صدہ "میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی طرز پر شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز وں کے زمانے میں تشکیل دی گئی کرم ملیشیا وادئ کرم میں موجودتھی لہذا جنگ صدہ تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے نہ دی گئی۔1983ء میں کراچی میں شیعہ آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں ساٹھ افراد شہید کر دیے گئے۔5 جولائی 1985ء کو کوئٹہ میں تکفیری دہشت گردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر شیعوں کے احتجاجی جلوس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ قتل ہو ئے۔ البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی، لہذا 11 دہشت گرد جوابی کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی، باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آ ئے تھے۔ 24 جولائی 1987ء کوپاراچنار میں شیعہ آبادیوں پر افغان مجاہدین کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ 30 ستمبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں یوم عاشورہ کے روز مارشل لا انتظامیہ نے جلوس روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 10 نہتے شیعہ شہید جبکہ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں سات سو کے لگ بھگ شیعہ قتل ہوئے، جن میں سے 400کے قریب لوگ 1988ءمیں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں قتل ہوئے۔ اسی دور میں سرکاری ملازمتیں متعصب افراد کے سپرد کی گئیں۔اسکولوں میں اسلامیات کے تکفیری اساتذہ بچوں کا ذہن خراب کرنے لگے، اس ذہن سازی نے آگے چل کر طالبان کو مدارس کے علاوہ سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی افراد قوت فراہم کی۔ عدالتوں میں متعصب جج بھرتی کیے گئے۔ضیاء دور میں ہی قائد اعظم ؒکو سنی کہلوانے کی کوششوں کا آغاز ہوا جس کے بعدسے اب تک کئی جعلی مقالے اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جس ماحول میں بانی پاکستان کا شیعہ ہونا بھی ہضم نہ کیا جا رہا ہو وہاں عام شیعہ افراد کا ثانوی شہری بن جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مولانا نور الحسن بخاری کی وفات کے بعد شیعہ کشی کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانے  والے مولاناحق نواز جھنگوی اور ان کے پیشرو مولانا ایثار القاسمی کو جھنگ میں سیاسی خطرہ بننے کے باعث شیخ اقبال ایم این اے نے قتل کرا دیا، جو خود بعد میں سپاہ صحابہ کی انتقامی کارروائی میں قتل ہو گئے[56]۔

یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ مارشل لا لگنے کے بعد جنرل ضیاء اور ذو الفقار علی بھٹوایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے تھے، لیکن سیاسی طور پر ضیاء الحق بھٹو صاحب کے پیرو تھے۔ مخالف سیاسی کارکنان کا قتل ہو یا افغانستان میں کردار، یہ بھٹو صاحب کی  ہی حکمت عملی تھی۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب کے طرز حکومت کو ہی جاری رکھا ہے۔جنرل ضیاء نے افغان جہاد کی ریل پیل کے باوجود شیعہ کشی کے عمل کو قابو میں رکھا اور اس کو عروج جمہوری دور کی نا اہلی میں حاصل ہوا۔پاکستان میں حکومتوں کی نا اہلی کا شیعوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن کوئی بھی حکومت شیعہ دشمن نہیں تھی۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے شیعہ عوام کے تحفظ کے سلسلے میں ہمیشہ غیر ذمہ داری اور سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔

سٹریٹیجک ڈیپتھ، یعنی تزویراتی گہرائی

جس وقت روس افغانستان سے نکلا اسی وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے تنگ عوام نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان کی انتظامیہ نے افغان جہاد کے بچے ہوئے جہادیوں کو کشمیر میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان جہادیوں نے کشمیر جا کر مقامی آبادی کوبدعتی سمجھا، مزارات پر حملے کیے اور بریلوی اور شیعہ کشمیریوں کے گھروں میں لوٹ مار کی۔ جہاد کشمیر کے نام پر مولانا مسعود ازہر لڑکوں کو بھرتی کر کے ٹریننگ دیتے اور مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی ان کو  شیعہ کشی کا راستہ دکھاتے۔  بعد ازاں کشمیر جہاد وہاں کی مقامی آبادی کے جہادیوں سے خوفزدہ ہو جانے کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ آزادی کی کوئی بھی تحریک باہر سے سمگل شدہ جنگجوؤں کے بل بوتے پر کامیاب نہیں ہوتی۔ چی گویرا جیسے عالمی شہرت یافتہ انقلابی کے آخری ایام اس بات پر گواہ ہیں۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کی انتظامیہ نے ہندوستان کے ممکنہ حملے کا سامنا کرنے کے لیے" تزویراتی گہرائی "کے تصور کو محور بنا کر سوچنا شروع کیا۔ اس مفروضے کے خالق جنرل مرزا اسلم بیگ  اور جنرل حمید گل تھے۔ اس کے مطابق اگر ہندوستان راجستھان سے حملہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں کاٹنا چاہے تو فوج کی پشت پناہی کے لیے کٹر قسم کی مذہبی جماعتوں کے کارکنان کا جنوبی پنجاب اور طالبان کا قندھار میں ہونا ضروری تھا[57]۔ ان منصوبہ سازوں نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا تھا کہ کسی بھی فوج کی آخری دفاعی لکیر عوام ہوتے ہیں نہ کہ مسلح گروہ، دنیا بھر میں قابض افواج کے خلاف عام عوام نے ہی مزاحمت کی ہے، نیز اس وقت پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا اور اس قسم کے کسی منصوبے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں تشکیل دیے گئے "البدر "اور" الشمس" جیسے مذہبی لشکر وں کے ناکام تجربے سے سبق سیکھا گیا ہوتا تو یہ غلطی نہ دہرائی جاتی۔ شیعوں کے لیے یہ سوچ بھٹو اور   ضیاء کے فیصلوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی اور اس کے نتیجے میں شیعہ کشی کا عمل پاکستان کے ہر ضلعے میں تیز ہو گیا۔ سپاہ صحابہ جیسے مسلح گروہوں نے اس مبہم منصوبے کا بھرپور فائدہ اٹھا کر بہاولپور اور رحیم یار خان سے لے کر ملتان اور ڈیرہ غازی خان تک اپنے اثر و نفوذ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ بعد کے سالوں میں پاکستان کو اس جاہلانہ تصور کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔ غنڈہ گرد عناصر کی سرپرستی کے نتیجے میں عوام کی یکجہتی کو ٹھیس پہنچی اور منشیات، غربت اور جرائم میں اضافہ ہوا۔ افغان طالبان نے پاکستان میں دیوبندی انقلاب لانے کی غرض سے دیوبندی تنظیموں کے کارکنان کو فراخدلی سے پناہ اور ٹریننگ فراہم کی۔ پاکستان میں شیعہ قتل کر کے یہ لوگ افغانستان بھاگ جاتے۔ ملک کے کئی نامور ڈاکٹر، انجنیئر اور قانون دان محض شیعہ ہونے کی وجہ سے قتل کر دیے گئے۔ ان کی عورتیں بیوہ، والدین بے سہارا اور بچے یتیم ہو گئے[58]۔

1993ء میں لاہور میں سپاہ محمد کے نام سے ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم کا قیام ہوا جس نے سپاہ صحابہ کے حملوں کے جواب میں دیوبندی حضرات پر حملے کرنا شروع کیے۔ چنانچہ اگر کسی شیعہ مسجد پر حملہ ہوتا تو کچھ ہی دنوں میں کسی دیوبندی مسجد میں بے گناہ لوگ قتل کیے جاتے۔ حکومت نے صورت حال خطرناک ہوتے دیکھ کر دونوں تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہا تو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے سپاہ صحابہ کے عسکری حصے کو لشکر جھنگوی کا نام دے کر لا تعلقی کا اعلان کر دیا، اگرچہ لشکر جھنگوی کے کارکنوں کی گرفتا ری کی صورت میں سپاہ صحابہ ہی قانونی اور مالی امداد مہیا کرتی۔ لشکر جھنگوی کے بانی مولانا ضیاء الرحمن فاروقی جنوری 1997ء میں سپاہ محمد کی طرف سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔چونکہ یہ تنظیم سٹریٹجک اثاثوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی لہذا لاہور پولیس نے آپریشن کر کے سپاہ محمد کا خاتمہ کر دیا، اسی عرصے میں سپاہ صحابہ کے متعدد دہشت گرد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہو ئے مگر سپاہ صحابہ کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ کن آپریشن نہیں ہو سکا۔

نوے کی دہائی میں ہی کراچی میں سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی کی طرف سے بریلوی مساجد پر قبضے کے خلاف سنی تحریک کے نام سے ایک اور مزاحمتی گروہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ چنانچہ تکفیری علما نے اب بریلویوں پر قاتلانہ حملے کرنے کا آغاز کر دیا۔ بریلویوں پر پہلا نمایاں حملہ 2001ء میں ہوا جب سنی تحریک کے بانی جناب سلیم قادریؒ کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔اسی دوران میں سپاہ صحابہ کی طرف سے دیگر مذاھب کے ماننے والوں پر بھی حملے شروع ہو ئے۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2001ء میں سپاہ صحابہ کے چھ کارکنان نے بہاولپور میں سینٹ ڈومینک چرچ میں فائرنگ کر کے اٹھارہ نہتے اور بے گناہ مسیحیوں کو قتل کر دیا۔

مفتی نظام الدین شامزئی اور خودکش حملوں کا دور

90ء  کی دہائی کے آخر میں افغان طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا جس کی تنظیم نے 1998ء میں مشرقی افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم سے حملے کیے تھے اور ایک امریکی  بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش کی تھی۔اسامہ بن لادن دراصل اپنے ملک سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف تھا مگر اپنے ملک میں سیاسی تحریک چلانے  کے بجا ئے اس قسم  کی  کارروائیوں  میں ملوث ہو گیا تھا۔کراچی میں مقیم ایک بڑے نام والے دیوبندی عالم مفتی نظام الدین شامزئی سعودی عرب میں امریکی موجودگی کے خلاف پاکستان میں پورے اخلاص کے ساتھ سرگرم تھے۔11 ستمبر  2001 ء کو القاعدہ نے کچھ مسافر بردار طیارے اغوا کر کے امریکا کے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی  میں عمارتوں سے ٹکرا دیے۔7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔  پاکستان کی حکومت نے القاعدہ کی جنگ اپنے سر لینے کے بجا ئے  امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی  نے  پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جہاد کا فتویٰ جاری کیا[59]۔ مفتی شامزئی دیوبندی مسلمانوں میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو پاکستان بھر میں خصوصا قبائلی علاقہ جات میں جہاں حکومتی رٹ کمزور تھی، بہت پزیرائی ملی۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے  ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو پاکستانی  علاقوں میں آ گئے۔ اس طرح ریاست اور طالبان کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی۔ ادھر 2002ء کے الیکشن میں خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت اور کراچی کی شہری حکومت متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان حکومتوں نے سرکاری نوکریاں ایسے مذہبی مہم جو افراد کو دیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں  طالبان کے سہولت کار بنے۔ اس جنگ کے ماحول میں شیعہ مخالف تنظیموں نے شیعہ کشی میں خودکش دھماکے کا استعمال شروع کیا جس کے نتیجے میں اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے 2017ء  تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ، کراچی اور ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعہ ہیں۔

مفتی شامزئی صاحب کے فتوے کے بعد پنجاب اور سندھ میں متشدد مدارس نے مسلح ہونے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ کئی مرتبہ تبلیغی جماعت کے سامان میں چھپایا گیا بارود پھٹ چکا ہے[60] [61]جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ قبائلی علاقہ جات سے پنجاب اور سندھ کے قصبوں میں  بارود اور اسلحے کی منتقلی کا عمل کس تیزی سے جاری ہے؟  عراق اور شام میں شکست کے بعد داعش کی نظریں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔

حوالہ جات

  1. ملفوظات شاہ عبد العزیز، صفحہ 54، میرٹھ، 1314 ہجری، 1896۔1896.
  2. خیر الدین محمد الہ آبادی، عبرت نامہ، 30۔88
  3. دہلوی، محمد بیگ، مرزا، دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4
  4. "نزھہ اثنا عشریہ"، https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1
  5. علامہ عبد الحئی بن فخر الدین، "نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر"، جلد 7، شمارہ 713، "الشیخ قمر الدین دہلوی"- دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1999.
  6. "عبقات الانوار" alabaqat.com/download/
  7. ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ"، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک، تاریخ پبلیکیشنز لاہور
  8. Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900"، pp. 46-86, Princeton university Press.
  9. Barbara Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900"، pp. 46-86, Princeton university Press.
  10. مرزا حیرت دہلوی، "حیات طیبہ"‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260
  11. مولانا جعفر تھانیسری، "حیات سید احمد شہید" ص 293
  12. سر سید احمد خان، "مقالات سرسید"، حصہ نہم 145-146
  13. رشید احمد گنگوہی، فتاوٰی رشیدیہ، ص 435
  14. مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، جلد 18، صفحہ 233 اور 423 تا 428
  15. مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، جلد 19، صفحہ 193
  16. "دارالعلوم دیوبند اور ردِّشیعیت"۔ ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  17. سوانح قاسمی، جلد اول، صفحہ 132
  18. سوانح قاسمی، جلد دوم، صفحہ 129۔
  19. "Afghanistan: Who are the Hazaras?"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  20. Government Gazetteer of the United Provinces, Extraordinary (Lucknow, 1938)، GAD No. 113/1939, UPSA, page 2-4.
  21. Mushirul Hasan,"Traditional Rites and Contested Meanings: Sectarian Strife in Colonial Lucknow"، Economic and Political Weekly, Vol. 31, No. 9 (Mar. 2, 1996)، pp. 543-550.
  22. مرزا حیرت دہلوی، "کتاب شہادت"، کرزن پریس دہلی، (1920)-
  23. Jasbir Singh to G. M. Harper, 22 Feb 1939, Political Department No. 65/1939, UPSA.
  24. Jasbir Singh to G. M. Harper, 15 and 18 اپریل 1939, Political Department No. 65/1939, UPSA.
  25. R. Haider, “Ruttie Jinnah: The Story, Told and Untold”، Ch.7
  26. Abul Hassan Isphani, "Quaid e Azam Jinnah, as I Knew Him"، Forward Publications Trust Karachi (1967)۔
  27. ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، "اقبال اور مُلا"، صفحات17،18 -
  28. N. Hollister, " The Shia of India"، p-178, Luzac and Company Ltd, London (1953)۔
  29. The Statesman, Delhi Edition, 21 فروری 1940.
  30. Abul Hassan Isphani, "Quaid-e-Azam Jinnah, as I Knew Him "، Forward Publications Trust Karachi (1967)
  31. کتاب " کفایت المفتی"، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: 539، 538، 554، 555
  32. Liaqat H. Merchant, “Jinnah: A Judicial Verdict”، East and West Publishing Company, Karachi (1990)۔
  33. Liaqat H. Merchant, “Jinnah: A Judicial Verdict”، East and West Publishing Company, Karachi (1990)۔
  34. Jinnah Papers، second series, volume XI (1 اگست 1944-31 جولائی 1945); page 174.
  35. "قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے"۔ عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی
  36. "میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء
  37. آپ کا پہلا جنازہ گورنر ہاؤس میں شیعہ طریقے پر ہوا، آپ کی جائداد بھی محترمہ فاطمہ جناح کو شیعہ طریقے پر منتقل کی گئی، تفصیل اس کتاب میں: Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011.
  38. فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67
  39. قائد اعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“
  40. Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔
  41. ^ ا ب Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔
  42. http://sharaabtoon.blogspot.dk/2013/06/the-most-unfortunate-incident-html
  43. http://www.shaheedfoundation.org/tragic.asp?Id=13
  44. Mohammad Ayub Khan, "Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan"، 9 جولائی 1967 and 11 جولائی 1967, Oxford University Press, 2008.
  45. محمود احمد عباسی، "تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ و یزید"، الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ، کراچی
  46. ابو یزید محمد دین بٹ، "خلافت رشید ابن رشید امیر المومنین سیدنا یزید"، طبع لاہور
  47. احسان الہی ظہیر، "الشیعہ و اہل بیت"
  48. غلام حسین نجفی، "قول سدید در جواب وکلا یزید" https://books.shiatiger.com/2016/03/Qol-e-Sadeed.html
  49. غلام حسین نجفی، "کیا ناصبی مسلمان ہیں" https://books.shiatiger.com/2016/03/Kya-Nasbi-Musalmaan-Hain.html
  50. [Urdu]Shia Stance on Qadiani Issue in National Assembly
  51. ترجمان القرآن اکتوبر 1963ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
  52. پروفیسرافتخار احمد، "عالمی تحریک اسلامی کے قائدین"، فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز، امین پورہ بازار، 1984
  53. علامہ محمد حسین برستی، "خمینیت اور شیعیت میں فرق"
  54. "Kunwar Khuldune Shahid, Shiaphobia"۔ The friday times۔ 14-08-2014 
  55. 20جنوری 1979ء کو آیت اللہ خمینی کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کی۔ وہ ان کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں" میں درج کی ہیں۔ ارشاد احمد حقانی نے بھی مولانا مودودی اور آیت اللہ خمینی کے روابط کا ذکر کیا ہے۔
  56. Hassan Abbas, "Pakistan's Drift Into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror"، Routledge, (2015)
  57. Khalid Ahmed, "Sectarian War: Pakistan's Sunni Shia Violence and its links to the Middle East"، Oxford University Press, 2011
  58. http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/database/sect-killing.htm
  59. مفتی نظام الدین شامزئی  صاحب کا پاکستانی تاریخ کا رخ موڑنے والا فتویٰ حسب ذیل ہے:۔ أ‌۔       تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اور امریکا کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔ ب‌۔     جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کے مسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ت‌۔     اللہ تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہے، تو ماتحت لوگوں کے لیے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی۔ ث‌۔    اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین، وسائل اور معلومات ان کو فراہم کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہے اس کے لیے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے۔ ج‌۔      افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کے شانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں اللہ تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔ اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں فقط و سلام مفتی نظام الدین شامزئی https://sadaehaqq.wordpress.com/2013/11/14/%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%B4%D8%A7%D9%85%D8%B2%D8%A6%DB%8C-%D8%B1%D8%AD%D9%85%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8C%D9%B0-%D8%AC%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D9%86%D8%A7/
  60. دھماکے کے بعد امیر صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ گیس کا سلنڈر پھٹا ہے۔بعد میں جب زخمی ہسپتال گئے تو ان کے جسم میں بم کے ٹکڑے ملے۔نیز مرنے والوں کی تعداد بھی امیر صاحب کے جھوٹ کی چغلی کھا رہی تھی۔ امیر صاحب کی اسی بات کو لے کر پولیس نے بھی میڈیا کو یہی بتایا تھا کہ سلنڈر پھٹا ہے۔ https://tribune.com.pk/story/492458/blast-at-swat-tableeghi-markaz-kills-22/
  61. یہ بہت عجیب واقعہ ہے کیوں کہ اس دھماکے کے بعد جب پولیس مرکز میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے تومرکز کی  انتظامیہ اس کو کچھ گھنٹے کے لیے داخل نہیں ہونے دیتی۔بعد کی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ وہدھماکا کسی تبلیغی کے سامان میں موجود بارود کے حادثاتی طور پر پھٹنے کی وجہ سے ہوا تھا۔  کمرے میں سردی کی وجہ سے جب کسی لا علم تبلیغی نے ہیٹر  جلایا تو پاس پڑے سامان میں موجود بارود چل گیا۔تفتیشی اداروں کو آلات کی مدد سے تبلیغی مرکز کی لیٹرین میں بارود بہا دینے کے شواہد بھی ملے۔بارود چھپانے کا کام اس وقت کے دوران میں کیا گیا جب دھماکے کے بعد پولیس کو مرکز میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔کئی گھنٹوں کی تاخیر کے باوجود تفتیشی اداروں کو اس مرکز سے بارود کے تین کنستر ملے۔ کیا  اس بات میں کوئی شک ہے کہ یہ بارود کسی بازار یا کسی دوسرے فرقے کی مساجد یا سرکاری دفاتر پر حملے کے لیے لے جایا جا رہا تھا؟ https://www.dawn.com/news/1080731

مزید دیکھیے