فضل بن دکین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو نعیم فضل بن دکینؒ
معلومات شخصیت
پیدائش ۱۲۹ ھ
کوفہ
وفات سنہ 834 (86–87 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ
عملی زندگی
استاذ مالک بن انس  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب[ترمیم]

فضل نام،ابو نعیم کنیت اورسلسلہ نسب یہ ہے،فضل بن دکین عمرو بن حماد بن زہیرا بن درہم [4] ال طلحہ بن عبداللہ التیمی کے غلام تھے، کوفہ میں ایک شخص عبدالسلام بن حرب کی شرکت میں ملاءۃ (چادر یا عورتوں کا بالائی لباس) کی تجارت کیا کرتے تھے،اسی وجہ سے تیمی ملائی دونوں نسبتوں سے مشہور ہوئے۔ [5]

وطن اور ولادت[ترمیم]

کوفہ کے رہنے والے تھے،سنہ ولادت کے بارے میں خود ان کے دو بیان منقول ہیں، ایک کے مطابق وہ ۱۲۹ ھ میں پیدا ہوئے اور دوسرے کے اعتبار سے ۱۳۰ ھ میں پیدائش ہوئے،لیکن اکثر علماء نےمؤخر الذکر ہی کو اختیار کیا ہے اس لئے وہی مرجح ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

علم وعمل حق گوئی وبیباکی اورزہد واتقاء کے اعتبار سے ابو نعیم ایک سدا بہار گلدستہ تھے، وہ صغار تابعین کے دامانِ فیض سے وابستہ رہ کر آسمانِ علم وفضل پر مہر تاباں بن کر چمکے ،امام بخاری جیسے عبقری وقت ان کے تلمذ پر تاحیات فخر ومسرت محسوس کرتے رہے،یہ ایک حقیقت ہے کہ ابو نعیم کی شہرت ومقبولیت میں جہاں ان کے گوناگوں کمالات کو دخل ہے وہاں امام بخاری کی یگانہ روز گار شخصیت نے بھی ان کو چار چاند لگائے،امام بخاری سے استفادہ ان کے صحیفہ کمال کا درخشاں باب ہے یحیی بن معین کا بیان ہے جو لوگ حیات ہیں ان میں ابو نعیم وعفان سے زیادہ فاضل میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ [6] حافظ ذہبی انہیں"الحافظ محدث الکوفۃ"علامہ یافعی "محدث الکوفۃ الحافظ" اورامام خزرجی "الحافظ العلم" لکھتے ہیں [7] امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: کان یقظان فی الحدیث عارفا وہ حدیث کے بہت باخبر واقف کار تھے۔ انہی کا دوسرا بیان ہے کہ ابو نعیم کی وفات کے بعد ان کا مجموعۃ روایات خطا وصواب کا معیار قرارپایا،جب بھی لوگ کسی مسئلہ میں مختلف الرائے ہوتے تو اسی کتاب کی طرف رجوع کرتے۔ [8]

حدیث[ترمیم]

حدیثِ رسول ان کی توجہ کا خصوصی مرکز تھی،اس فن میں ابو نعیم کی جلالتِ مرتبت اور علوئے شان کا اندازہ صرف اسی سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے سو سے زائد ان اکابر شیوخ سے اکتساب علم کیا تھا جن سے سفیان ثوری کو شرفِ تلمذ حاصل تھا،خود بیان کرتے ہیں: کتبت عن ازید من ماۃ شیخ فمن کتب عنہ سفیان میں نے سو سے زیادہ ان شیوخ سے حدیثیں لکھیں جن سے سفیان ثوری کو شرفِ سماع حاصل تھا۔ ان کی مرویات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے؛چنانچہ خود ان کے بیان کے مطابق چار ہزار حدیثیں تو انہوں نے صرف سفیان ثوری سے حاصل کی تھیں، ان تمام روایات کا پایۂ ثقاہت نہایت بلند ہے۔ ابو نعیم جن محدثین وائمہ کے فیضانِ صحبت سے مستفید ہوکر مرتبۂ کمال کو پہنچے ان کی فہرست بہت طویل ہے کچھ ممتاز نام یہ ہیں:سلیمان الاعمش،مسعر بن کدام،سفیان ثوری،مالک بن انس، ابن ابی ذئب،سفیان بن عیینہ، اسرائیل بن یونس،ابن ابی لیلیٰ ،شعبہ بن الحجاج،شریک بن عبداللہ،حماد بن زید

تلامذہ[ترمیم]

اساتذہ کی طرح خود ان کے آفتابِ علم سے مستنیر ہونے والوں کا دائرہ بھی کافی وسیع تھا،جس میں عبداللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر ائمہ کے نام بھی نظر آتے ہیں جن کے فضل وکمال کی پوری دنیا معترف تھی اور جو ابو نعیم سے عہد وعمر دونوں میں متقدم تھے، تلامذہ میں امام احمد بن حنبل،ابوبکر بن شیبہ، اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن معین،امام بخاری،ابوزرعہ،محمد بن سعد (کاتب الواقدی)یعقوب بن شیبہ،عباس الدوری،احمد بن حسم،زہیر بن حزب،عثمان ابن ابی شیبہ، ابو حاتم کے اسمائے گرامی ذکر کے لائق ہیں۔ [9]

رجال وانساب کا علم[ترمیم]

فن حدیث میں رجال وانساب کے علم کو ہمیشہ بڑی اہمیت وعظمت حاصل رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث کی صحت وسقم کا مدار بڑی حد تک اسی علم کی مہارت اورزرف نگاہی پر ہوتا ہے،ابو نعیم کو اس بارہ میں بڑا کمال حاصل تھا، ماہرین فن نے ان کو علم الانساب ورجال کا سب سے بڑا عالم اورواقفِ کار قراردیا ہے ،امام احمد برملا اعتراف کرتے ہیں: کان اعلم من وکیع بالرجال وانسابھم [10] وہ امام وکیع سے بھی زیادہ رجال وانساب کا علم رکھنے والے تھے البتہ فصاحت میں امام وکیع سے وہ کم مرتبہ تھے۔

ثقاہت[ترمیم]

ثقاہت وعدالت کے لحاظ سے ان کا مرتبہ بہت بلند تھا،علمائے حدیث نے ان کی مرویات کو قابلِ حجت ٹھہرایا ہے، احمد ابن صالح کا قول ہے: ما رایت محدثا اصدق من ابی نعیم [11] میں نے ابو نعیم سے زیادہ سچا کوئی محدث نہیں دیکھا امام احمد فرماتے ہیں: ابو نعیم سچے ثقہ اورحدیث میں لائقِ حجت ہیں۔ [12] علامہ ابن سعد رقمطراز ہیں: وہ ثقہ،مامون،کثیر الحدیث اورحجت تھے۔ [13] حافظ ذہبی حافظ حجۃ کے الفاظ سے ان کی ثقاہت کو سراہتے ہیں۔ [14]

تثبت واتقان[ترمیم]

اسی طرح اتقان وتثبت میں بھی وہ غایت درجہ مہارت وکمال کے حامل تھے،یحییٰ بن معین بیان کرتے ہیں میں نے ابو نعیم سے زیادہ صاحب تثبت کسی کو نہیں دیکھا۔ [15]

خلقِ قرآن اورابو نعیم[ترمیم]

خلیفہ بغداد مامون کے آخری عہد (۲۱۸ھ) میں خلق قرآن کا فتنہ اٹھ چکا تھا،مامون کو اس مسئلہ میں از حد غلو تھا؛چنانچہ وقت کے تمام مشاہیر علماء اورفقہا اس فتنہ کی زد میں آئے، اس ابتلاء وآزمائش کا سب سے زیادہ نشانہ امام احمد بن حنبل کی مایۂ ناز شخصیت بنی ،مامون اوراس کے بعدمعتصم ہر قسم کے جبر وتشدد کے باوجود امام موصوف سے اس عقیدۂ باطل کا اقرار نہ کراسکے۔ معتصم کے عہد میں یہ فتنہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا، اس نے تمام ممالک محروسہ میں فرامین جاری کردئے تھے، کہ علمائے وقت سے زبردستی خلقِ قرآن کا اقرار کرایا جائے؛چنانچہ جو اربابِ علم و فضل میدان عزیمت وہمت کے شہسوار نہ تھے، انہوں نے رخصت پر عمل کرتے ہوئے سر اقرار خم کردیئے،لیکن صاحبان عزیمت نے خلقِ قرآن کا اقرار کرنے کے مقابلہ میں طوق وسلاسل اور داد ورسن کو ترجیح دی ،انہی اہل عزیمت علماء میں ابو نعیم بھی تھے۔ خطیب بغدادی نے اس فتنہ میں ابو نعیم کے ابتلاء کی پوری تفصیل درج کی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو نعیم کوفہ ہی میں تھے، جس وقت فرمانِ خلافت کے تحت والی کوفہ نے خلقِ قرآن کا اعتراف کرنے کے لئے علماء کو طلب کیا؛چنانچہ ابو نعیم بھی ملنے گئے،ان سے پہلے ابن ابی حنیفہ،احمد بن یونس اورابو غسان پہنچے چکے تھے، والی نے سب سے پہلے ابو نعیم کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ دیکھو انہوں نے (ابن ابی حنیفہ نے) بھی اقرار کرلیا ہے،ابو نعیم نے یہ سن کر نہایت خشمناک لب ولہجہ میں ابن ابی حنیفہ کو سخت سست کہا اور والی سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے کوفہ میں کم و بیش سات سو شیوخ کو یہ کہتے سُنا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق یعنی قرآن خدا کا کلام ہے،مخلوق نہیں ہے اوریہی میرا بھی عقیدہ ہے اوراس برملا اظہارِ حق کی خاطر خواہ میری گردن سرسے جدا کردی جائے میں اس سے باز نہیں رہ سکتا۔ والی کوفہ کے دربار میں ابو نعیم کی اس بے مثال جرأت،حق گوئی اوربیباکی کو دیکھ کر احمد بن یونس فوراً اٹھے اورانہوں نے ابو نعیم کی پیشانی کو بوسہ دیا اورکہا جزاک اللہ خیراً حالانکہ اس سے قبل دونوں بزرگوں میں سخت غلط فہمیاں تھیں۔ [16]

تشیع کا الزام[ترمیم]

ان پر یہ اتہام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ان میں تشیع کا رجحان موجود تھا؛لیکن انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اس کی سخت تردید کردی تھی ؛چنانچہ احمد بن مثیم بن ابی نعیم کا بیان ہے کہ جب میرے جدامجد ابو نعیم بغداد تشریف لے گئے تو میں ان کے ہمراہ تھاوہاں وہ حدیث کا درس دینے لگے،ایک دن اثنا درس ایک خراسانی اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا کہ کیا آپ رافضی ہیں؟ احمد کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی ابو نعیم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اورفرطِ غضب سے انہوں نے منہ پھیر لیا۔ [17]

خوش طبعی[ترمیم]

بایں ہمہ جلالت علم وفضل وہ بہت خوش مزاج اورزندہ دل تھے خطیب رقمطراز ہیں کہ: کان ابو نعیم مزاحاً ذادعایۃ مع تدینہ وامانتہ وثقاھتہ [18] ابو نعیم اپنے تدین اور ثقاہت وامانت کے باوجود بہت زندہ دل اورپُر مذاق انسان تھے۔

استغناء[ترمیم]

وہ مال وہ دولت اور مزخرفات دنیا سے بے نیاز تھے،لیکن اس کے باوجودبعض لوگ ان پر تعلیم کی اُجرت لینے کا الزام لگاتے ہیں جسے اس زمانے میں بہت معیوب اور تدین وثقاہت کے منافی خیال کیا جاتا تھا، لیکن ابو نعیم خود ہی بیان کرتے ہیں کہ اگر لوگوں کا یہ خیال صحیح ہوتا تو پھر میرے ۱۳ نفری گھر کی عسرت اس حال کو نہ پہنچتی کہ اس وقت ایک روٹی بھی میرے گھر میں نہیں ہے۔ [19]

وفات[ترمیم]

شب سہ شنبہ ماہِ شعبان ۲۱۹ ھ کو بمقام کوفہ رحلت فرمائی،عبدالدوس بن کامل بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ماہ ربیع الاول ۲۱۷ھ کو کوفہ میں ابو نعیم کی صحبت میں حاضر تھے،اسی اثناء میں محاضر بن ابو رع کے صاحبزادے تشریف لائے،ابو نعیم نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ میں نے گذشتہ شب خواب میں تمہارے والد کی زیارت کی تھی، انہو ں نے مجھے ڈھائی درہم مرحمت فرمائے،تمہارے نزدیک اس کی کیا تاویل ہوسکتی ہے،ابن المحاضر نے عرض کیا کہ مجھے توخیر ہی معلوم ہوتا ہے،فرمایا میں اس کی تاویل یہ کرتا ہوں کہ میں اب یا تو ڈھائی یوم اورزندہ رہوں گا یا ڈھائی مہینے یا ڈھائی سال ؛چنانچہ ٹھیک ڈھائی سال کے بعد ان کی وفات ہوئی۔ [20] سہ شنبہ کی شب میں انتقال ہوا تھا، اس کے دوسرے دن مقام حبان میں تدفین ہوئی،نمازِ جنازہ محمد بن داؤد نے پڑھائی، تدفین کے بعد والی کو اطلاع ہوئی تو وہ دوڑا ہوا آیا اوروفات کی اطلاع نہ دینے پر سخت برہم ہوا اورپھر قبر سے ذرا ہٹ کر ایک کثیر مجمع کے ساتھ نماز ادا کی، اس وقت عباسی خلیفہ معتصم باللہ کی حکومت تھی۔ [21]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://catalog.perseus.tufts.edu/catalog/urn:cite:perseus:author.1895 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مارچ 2021
  2. https://d-nb.info/gnd/104324694 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مارچ 2021
  3. https://id.loc.gov/authorities/names/nr98028784.html — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مارچ 2021 — مصنف: کتب خانہ کانگریس
  4. (تہذیب التہذیب:۸/۲۷۰ وطبقات ابن سعد،ج۶،ص۲۷۹)
  5. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۶،تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۴)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۱۴)
  7. (العبر:۱/۳۷۷،مراۃ الجنان :۳/۷۹، خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۰۸)
  8. (تہذیب التہذیب:۸/۲۷۳)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۴)
  10. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۶،وتہذیب التہذیب:۸/۲۷۰)
  11. (تہذیب التہذیب:۸/۲۷۳)
  12. (تہذیب التہذیب:۸/۲۷۳)
  13. (الطبقات الکبیرات لا بن سعد،:۶/۲۸۰)
  14. (میزان الاعتدل:۲/۳۲۹)
  15. (العبر:۱/۳۷۷، مراۃ الحنان للیافعی:۲/۷۹ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۳۰۹)
  16. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۹)
  17. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۵)
  18. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۴۷)
  19. (تہذیب التہذیب:۸/۲۷۵)
  20. (طبقات ابن سعد:۶/۲۸۰)
  21. (تاریخ بغداد:۱۲/۳۵۷)