فضل ابن عباس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(فضل بن عباس سے رجوع مکرر)
فضل ابن عباس
(عربی میں: فضل بن عباس ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 614ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 639ء (24–25 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عباس بن عبد المطلب  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ سائنس دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ(12ق.ھ / 13ھ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد ہیں، حضور کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثابت قدم رہے حجۃ الوداع میں حضور کے ساتھ تھے حضور کو غسل وفات دینے والوں میں آپ بھی تھے،پھر شام میں جہاد کرتے رہے اردن کے علاقہ میں وفات پائی، اکیس سال عمر ہوئی اپنے بھائی عبداللہ اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایات کرتے ہیں۔[1] حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فضل بن عباس نے آپ کو غسل دیا اور بدھ کی شب جب نصف گذر چکی تھی آپ کو دفن کر دیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ منگل کی شب آپ کو دفن کیا گیا۔[2] علی بن ابی طالب‘ فضل بن عباس اور ان کے بھائی قثم‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام شقران آپ کی قبر میں اترے‘ اوس بن خولی نے حضرت علی سے کہا میں تم کو اللہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمارے تعلق کی قسم دیتا ہوں‘ علی نے ان سے کہا تم بھی اترو‘ شقران نے اس چادر کو لیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے‘ اور اس کو قبر میں رکھ دیا اور کہا خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس چادر کو کوئی نہیں پہنے گا۔[3] عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جن کے دل بہلائے جاتے ہیں[4] روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضل بن عباس کے گلے سے تمیمۃ کو کاٹ دیا۔[5] امام حسین بن مسعود بغوی 516ھ لکھتے ہیں : تمائم ان سیپیوں یا کوڑیوں کو کہتے ہیں جن کو عرب اپنے بچوں کے گلوں میں لٹکاتے تھے، ان کا اعتقاد تھا کہ اس سے نظر نہیں لگتی، شریعت نے اس کو باطل کر دیا۔ ابن ابی الدنیا و بیہقی نے فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ گانا زنا کا تعویذ ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات 13ھ میں ہوئی ۔

نام ونسب[ترمیم]

فضل نام، ابو محمد کنیت، ہمرکاب رسول لقب، سلسلہ نسب یہ ہے فضل ابن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی، ماں کانام لبابہ تھا، آنحضرت کے چچازاد بھائی تھے۔ [6]

اسلام[ترمیم]

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر سے قبل مشرف باسلام ہوئے،[7] اس زمانہ میں ان کا پورا گھر اسلام سے منور ہو چکا تھا؛لیکن مشرکین کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔ [8]

ہجرت[ترمیم]

فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے کچھ دنوں پہلے اپنے والد بزرگوار حضرت عباس کے ساتھ ہجرت کی۔ [9][10]

غزوات[ترمیم]

ہجرت کے بعد غزوۂ فتح ہوا ، آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسی غزوہ میں شریک ہوئے،اس کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا، اس میں غیر معمولی جان فروشی دکھائی،اورمسلمانوں کی ابتدائی شکست میں جب فوج کا بڑا حصہ منتشر ہو گیا،ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور بدستور پیکر اقدس کے ساتھ جمے رہے۔ [11]

پھر حجۃ الوداع میں آنحضرت کے ساتھ اس شان سے نکلے کہ آپ کی سواری پر سوار تھے، اسی دن سے "ردف رسول" یعنی ہمرکاب رسول لقب ہو گیا ،اسی درمیان میں قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان اورخوبصورت عورت حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے آئی، حج میں منہ چھپانا عورتوں کے لیے درست نہیں، اس لیے اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا، فضل بھی نہایت خوش رو تھے، وہ ان کی طرف گھورنے لگی اور یہ بھی اس کو دیکھنے لگے، آنحضرت باربار ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیتے تھے،مگر یہ پھر اس کی طرف رخ کر دیتے ،آخر میں آپ نے فرمایا "برادر عزیز!آج کے دن جو شخص آنکھ، کان اور زبان پر قابو رکھے گا اس کے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے، [12] رمی جمار کے وقت آنحضرت کی پشت پر چادر آڑ کیے ہوئے سایہ کیے کھڑے تھے۔ [13] [14]

آخری سعادت[ترمیم]

فضلؓ بن عباس نے آنحضرت کی آخری خدمت کی سعادت بھی حاصل کی، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض الموت میں جو آخری خطبہ دیا تھا، اس کے لیے جن دوسعادت مندوں کے سہارے گھر سے باہر تشریف لائے تھے، ان میں سے ایک حضرت فضل تھے اور ان ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں میں خطبہ دینے کا اعلان کرایا تھا، [15] سب سے آخری سعادت جسم اطہر کے غسل کی حاصل ہوئی ؛چنانچہ جن لوگوں نے آپ کو غسل دیا تھا، ان میں ایک فضل بھی تھے، وہ پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی ؓ نہلاتے تھے۔ [16]

وفات[ترمیم]

آپ کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض کہتے ہیں کہ شام میں طاعون عمواس میں وفات پائی، بعض کا خیال ہے کہ جنگ اجنادین کے معرکہ میں شہید ہوئے،دوسری روایت زیادہ مستند ہے،امام بخاری نے بھی اسی پر اعتماد کیا ہے۔ [17] [18]

حلیہ[ترمیم]

نہایت حسین و جمیل تھے۔ [19]

اہل و عیال[ترمیم]

اولاد میں عبد الرحمن ، مجمد یا احمد اور صرف ایک بٹیی ام کلثوم تھیں، جن کے ساتھ بعد میں حضرت حسنؓ نے شادی کی اور ان کے طلاق کے بعد ابوموسیٰ اشعریؓ کے عقد میں آئیں۔ [20]

فضل و کمال[ترمیم]

فضل بن عباسؓ سے 24 حدیثیں مروی ہیں، ان میں 3 متفق علیہ ہیں، [21] اکابر صحابہ میں ابن عباسؓ اور ابو ہریرہ اور عام لوگوں معدیکرب ،قثم بن عباس بن عبیداللہ ربیعہ بن حارث ، عمیر، ابوسعید، سلیمان بن یسار ، شعبی ، عطاء بن ابی رباح وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔ [22]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ588نعیمی کتب خانہ گجرات
  2. (الطبقات الکبریٰ ج 2 ص 197
  3. سنن ابن ماجہ‘ باب : ٦٥‘ ذکر وفاتہ ووفنہ
  4. تفسیر ابن کثیر حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب سورہ التوبۃ آیت 60
  5. (المستدرک ج ٤ ص ٤١٧)
  6. "موسوعة الحديث : فضل بن العباس بن عبد المطلب بن هاشم"۔ hadith.islam-db.com۔ 15 يناير 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2021 
  7. (ابن سعد ،جزو4،ق1:37)
  8. (مسند احمد بن حنبل بروایت ابورافع)
  9. انظر:
  10. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الرابع (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 2278 
  11. (ابن سعد جزو4،ق1:37)
  12. (ابن سعد،جزو4،ق1:37،تھوڑے تغیر کے ساتھ یہ واقعہ بخاری کتاب العمرہ باب حج المراۃ میں بھی مذکور ہے)
  13. (ابوداؤد:1/96)
  14. أجوبة مسائل جار الله - السيد شرف الدين - ص 14 - 25. آرکائیو شدہ 2020-12-01 بذریعہ وے بیک مشین
  15. (اصابہ:5/212)
  16. (استیعاب:2/535)
  17. (اصابہ:5/212)
  18. موسوعة عبد الله بن عبّاس، جـ19، صـ59. آرکائیو شدہ 2020-10-23 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (اصابہ:5/212)
  20. (استیعاب:2/535)
  21. (تہذیب الکمال:309)
  22. (تہذیب التہذیب:4/280)