فلسفہ تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تعارف فلسفہ تاریخ

جب انسانیت کا ایک حصہ کسی بڑے قطعہ زمین پر لمبی مدت تک مل جُل کر رہتا ہے تو قدرتِ الٰہیہ اُن کی طبعی ترقی کے ساتھ عقلی اور اخلاقی بلندی کا سامان بھی بہم پہنچاتی ہے۔ یعنی انبیا کرام اور اولیاء عظام کے ساتھ اصلح سلاطین اور حکام بھی پیدا ہوتے ہیں یا حکماء اور شعرا کے ساتھ عدالت شعار بادشاہ اور بلند ہمت سپاہی برسرِکار آتے ہیں۔ اس طرح وہ قوم ترقی کے تمام مدارج طے کرتی ہے۔ اپنی حکومت کا نظام بناتی ہے، جس سے ظلم کی بیخ کنی ہو۔ شہر بساتی ہے، ہُنر پھیلاتی ہے، جس سے رفاہِ عامہ کا سامان بہم پہنچتا ہے۔ اس کی ہمسایہ قومیں اس کی رفاقت اور سرپرستی میں اپنی فلاح سمجھتی ہیں۔ اگر اس کی اجتماعی تاریخ کو انسانیت کے عام پسند عقلی افکارواخلاق پر مرتب کیا جاءے تو اسے "حکمتِ الادیان" یا "فلسفہءِ تاریخ" کہا جاءے گا۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. خطبات و مقالات امام عبید اللہ سندھیؒ از مفتی عبد الخالق آزادؔ صاحب