فیصل بن حسین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فیصل بن حسین
(عربی میں: فيصل الأول ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 مئی 1885ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طائف[2]،  مکہ[3]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 8 ستمبر 1933ء (48 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برن  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات عَجزِ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن بغداد  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ
مملکت شام
مملکت عراق  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد شاہ غازی  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد حسین ابن علی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان ہاشمی  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان،  فوجی افسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سیاست[4]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر
 نائیٹ گرینڈ کراس آف دی آرڈر آف سینٹ مائیکل اینڈ سینٹ جورج
 جی سی بی
 تمغائے احیا
 رائل وکٹورین چین  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شاہ فیصل بن حسین بن علی ہاشمی (عربی: فيصل بن الحسين بن علي الهاشمي) عراق کے پہلے حکمران (1921ء تا 1933ء) تھے جنھوں نے عربوں کی تحریک آزادی میں بڑی بیدار مغزی سے حصہ لیا تھا۔ شریف حسین کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ 20 مئی 1883ء کو طائف میں پیدا ہوئے۔ مشروطی حکومت کے قیام کے بعد جدہ سے عثمانی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ جدوجہد آزادی کے دوران انھوں نے ایک طرف برطانوی حکومت سے خفیہ مراسلت جاری رکھی اور دوسری طرف ترکوں کو اپنی وفاداری کا یقین بھی دلاتے رہے۔ انھوں نے عثمانی حکومت کی امداد کے نام پر جو رضا کار دستے منظم کیے تھے وہ بغاوت شروع ہونے پر انگریزوں سے مل گئے اور ایک ایسے نازک موقع پر جب انگریز مصر کی طرف سے فلسطین پر حملہ آور ہوئے ان دستوں نے ترکوں کی پشت پر خنجر گھونپ دیا جس کی وجہ سے ترک فوجوں کو بڑے حصے کو انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے عرب باغیوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگ کے بعد 1919ء میں شاہ فیصل نے پیرس امن کانفرنس میں اپنے والد کی طرف سے نمائندگی کی۔ اس کے بعد وہ لندن چلے گئے تاکہ برطانیہ کو جولائی 1915ء کے عرب برطانیہ معاہدے پر عمل درآمد پر آمادہ کریں۔ اس کے بعد وہ دمشق آئے جہاں ان کو شام کا بادشاہ منتخب کیا گیا لیکن فرانسیسیوں نے ان کو جلد ہی دمشق سے بے دخل کر دیا۔ بالآخر انگریزوں نے ان کو 23 اگست 1921ء کو عراق کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ عراق کی مکمل آزادی کے بعد شاہ فیصل صرف ایک سال اور زندہ رہے۔ 8 ستمبر 1933ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

شاہ فیصل کے بعد ان کے بیٹے شاہ غازی تخت نشین ہوئے۔

علامہ اقبال نے ترکوں کے خلاف بغاوت کے پس منظر میں ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب https://data.bnf.fr/ark:/12148/cb137701204 — اخذ شدہ بتاریخ: 31 دسمبر 2019 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb137701204 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20191052411 — اخذ شدہ بتاریخ: 29 جنوری 2023
  4. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20191052411 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022