فے ڈی سوزا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فے ڈی سوزا

معلومات شخصیت
پیدائش 8 اکتوبر
بنگلورو
قومیت بھارتی
شریک حیات ساگر گوکھلے
عملی زندگی
تعليم ماؤنٹ کارمل کالج، بنگلورو کمٹس (Convergence institute of Media, Management and Information Technology Studies)، بنگلورو
پیشہ نیوز اینکر
دور فعالیت 2003-تا حال
تنظیم مرر ناؤ
کارہائے نمایاں دی اربن ڈبیٹ، انویسٹرز گائڈ، آل اباؤٹ اسٹاکس اور دی پراپرٹی گائڈ

فے ڈی سوزا ایک بھارتی صحافی، نامہ نگار ہیں جو ٹائمز گروپ کے نیوز چینل مرر ناؤ کی مدیر رہ چکی ہیں۔۔[1] قبل ازیں وہ سی این بی سی ٹی وی 18 کے نیوزروم کے لیے بھی کام کر چکی ہیں۔[2] مرر ناؤ کے دی اربن ڈبیٹ کا وہ مقبول پروگرام ان کی شہرت کا باعث بنا جس میں انھوں نے ایک مسلمان عالم کو متنازع تبصرہ کرنے پر کھری کھری سنائی۔[3]

تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی[ترمیم]

ڈی سوزا کی نشو و نما بنگلورو میں ہوئی جہاں انھوں نے ماؤنٹ کارمل کالج، بنگلورو[4] سے صحافت اور انگریزی ادب میں بی اے اور ماس کمیونیکیشن میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ نیز بنگلورو کے تعلیمی ادارے کمٹس سے انھوں نے پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔[5] انھوں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کر دیا تھا، چنانچہ وہ اس دور میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہیں۔[3] پھر پوسٹ گریجویٹ صحافی کی حیثیت سے سنہ 2003ء سی این بی سی ٹی وی 18 میں کام کیا، بعد ازاں وہ بیمہ، نجی سرمایہ کاری اور میوچول فنڈ سے متعلق نامہ نگاری کرنے لگیں۔[4] ای ٹی ناؤ پر انھوں نے تین ہفتہ وار پروگرام چلائے ہیں: "انویسٹرز گائڈ"، "آل اباؤٹ اسٹاکس" اور "دی پراپرٹی گائڈ"۔[5]

مرر ناؤ اور اربن ڈبیٹ[ترمیم]

دی ٹائمز نے اپریل 2007ء میں مرر ناؤ کے نام سے ایک انگریزی نیوز چینل شروع کیا اور ڈی سوزا کو اس کا مدیر مقرر کیا۔ اس چینل کا مقبول ترین پروگرام دی اربن ڈبیٹ بھی شروع ہوا جس کا مقصد ڈی سوزا کے الفاظ میں "نااہلی، بے حسی اور بدعنوانی کو نمایاں کرنا ہے جو ہم ہندوستانیوں کو درپیش مسائل کا حقیقی سبب ہے۔"[6] جون 2017ء کو اربن دبیٹ کے ایک پروگرام میں دوران میں رمضان میں اداکارہ کی نیم برہنگی پر مباحثہ جاری تھا، اسی اثنا میں مباحثے میں شریک مولانا یعقوب عباس نے ایک متنازع تبصرہ کیا۔ انھوں نے ڈی سوزا سے کہا کہ اگر وہ مرد کی برابری کرنا چاہتی ہیں تو زیر جامہ میں کام پر جائیں۔ ڈی سوزا نے سخت لہجے میں جواباً کہا کہ آپ پہلے شخص نہیں ہیں جنھوں نے مجھے دھمکی دی اور نہ میں ایسی عورت ہوں جسے آپ بآسانی سراسیمہ کر سکیں۔ پروگرام کا یہ منظر فیس بک اور ٹویٹر پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور ڈی سوزا کا یہ پروگرام ایک ہی رات میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگا۔[3][6][7][8][9][10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Expert profile – Faye D'Souza"۔ Times Now۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  2. "Faye D'Souza – The times of India blog"۔ The Times of India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  3. ^ ا ب پ Shruti Menon (20 جون 2017)۔ "This TV news anchor is trying to rescue news from noise"۔ www.newslaundry.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  4. ^ ا ب Bhavya Dore (3 اکتوبر 2017)۔ "How an anchor is winning Indian TV news without yelling"۔ Quartz۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 – scroll.in سے 
  5. ^ ا ب "Inspirational Women – Faye D'Souza"۔ www.wearethecity.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  6. ^ ا ب "Times network launches second general news channel"۔ www.www.afaqs.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  7. "What we can learn from Faye D'Souza's man's underwear jibe"۔ The Quint۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  8. "When news anchor Faye D'Souza tore into Maulana Yasoob Abbas over sexist remark on live TV"۔ The Financial Express۔ 12 جون 2017۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  9. Ashitha Nagesh (12 جون 2017)۔ "TV anchor shuts down sexist guest who told her to come to work in underwear"۔ Metro UK۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017 
  10. Dishya Sharma (12 جون 2017)۔ "Watch Mirror Now editor Faye D'Souza shuts down a panellist who asked her to come to office in underwear"۔ International Business Times۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 نومبر 2017