قاضی محمد عبد الباقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قاضی محمد عبد الباقی کرسالوی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔

قاضی محمد عبد الباقی
ذاتی
پیدائش(1262ھ بمطابق 1846ء)
وفات( 25 رمضان 1337ھ بمطابق 24 جون 1919ء)
مذہباسلام
والدین
  • قاضی احمد الدین (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامکرسال شریف چکوال
پیشروشمس العارفین

ولادت[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کی ولادت 1262ھ بمطابق 1846ء میں بمقام کرسال ضلع چکوال میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام قاضی احمد الدین کرسالوی تھا۔

والد ماجد[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کے والد ماجد حضرت قاضی احمد الدین کر سالوی جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔ آپ مفتی صدر الدين دہلوی کے نامور تلامذہ میں سے تھے۔ کر سال میں درس و تدریس اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ بے شمار علما نے آپ سے علمی فیض حاصل کیا۔ آپ کا مزار کرسال شریف کے بڑے قبرستان میں سرخ اینٹوں سے بہت خوبصورت بنا ہوا ہے۔ آپ نے دہلی میں بھی درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ مولوی محمد قاسم نانوتوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی نے آپ سے پڑھا۔ علاوہ ازیں مولوی محمد یعقوب دہلوی اور شاہ محمد اسحاق دہلوی بھی آپ کے شاگرد تھے۔

حصول علم[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی نے کتب مروجہ منقول و معقول اور حدیث شریف قاضی غلام نبی چاولی، قاضی غلام محمد موہڑ کد لتھی اور اپنے والد ماجد قاضی احمد الدین کر سالوی سے پڑھیں۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی سے کتب تصوف کا درس لیا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

محمد عبد الباقی کرسالوی نے خواجہ سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور مدارج سلوک طے کر کے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ آپ کو اپنے شیخ طریقت سے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ پیاده پا سیال شریف حاضر ہوتے تھے۔ خواجہ سیالوی بھی آپ پر بہت مہربانی فرماتے تھے۔

درس وتدریس[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی نے علوم دینیہ سے فراغت اور حصول خلافت کے بعد کرسال میں درس و تدرلیں اور سلسلہ رشد و ہدایت جاری کیا۔ لاتعداد طلبہ نے آپ سے علمی استفادہ کیا۔ جنات بھی آپ کے حلقے درس میں شامل ہوتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قاضی ثناء اللہ آف پنچائن نماز عصر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک طالب علم نے عرض کیا کہ قاضی محمد عبد الباقی کر سانوی السلام علیکم کہتے تھے۔ آپ نے وعلیکم السلام کہا اور پوچھا کہ کرسیال شریف سے کب چلا؟ عرض کرنے لگا کہ نماز عصر ادا کر کے چلا ہو۔ اس پر آپ نے تعجب کا اظہار فرمایا۔ طلب علم نے عرض کیا کہ میں آپ کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ واقعی میں عصر کے وقت وہاں سے چلا ہوں اور میں جن ہوں۔ بعد ازاں آپ نے قاضی صاحب کی خیر و عافیت دریافت فرمائی۔ خواجہ محمد الدین سیالوی کے دور میں سیال شریف کے مدرسہ میں مسند تدریس پر فائز رہے۔ کچھ عرصہ چک نمبر 67 جنوبی میں اپنی زمینوں میں قیام فرمایا اور یہاں خواجہ محمد حسین معظم آبادی اور مولانا محمد حنیف آف کوٹ مومن نے آپ سے استفاده کیا۔

  • قاضی محمد عبد الباقی کرسالوی کو اپنے آبائی گاؤں کرسال سے مغرب کی طرف تین کوس کے فاصلے پر موضع روپوال کے لوگ برائے درس و تدریس لے گئے۔ انھوں نے بیس بیگهہ زمین بطور ہدیہ پیش کی جو تا حال آپ کے ورثاء کے نام چلی آرہی ہے۔ ایک دن کسی گستاخ غير شرع آدمی نے مسجد میں قاضی صاحب کے پاپوش چرا لیے۔ یہ حرکت تو کسی ایک نے کسی کے مشورے سے کی لیکن آپ برداشت نہ کر سکے اور وہاں کی تدریس چھوڑ کر کرسال آگئے۔ فرمایا : یہاں کوئی عالم دین قیامت تک پیدا نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آج تک وہاں دینی تعلیم حاصل کرنے والا کوئی شخص پیدا نہیں ہوا۔

تلامذه[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کے بعض تلامذہ کے نام یہ ہیں۔

  1. مولانا شمس الدین دھرابی ساکن دھرابی ضلع چکوال
  2. خواجہ محمد حسین معظم آبادی ، معظم آباد شریف ضلع سرگودھا
  3. مولانا محمد حنیف ساکن کوٹ مومن ،ضلع سرگودھا
  4. شیخ محمد امان اللہ ساکن چک عمر ضلع گجرات
  5. مولانا احمد الدین جسیالوی

خواجہ گولڑوی سے تعلق[ترمیم]

قاضی عبد الباقی بہت بڑے مفتی اور فقیہ تھے۔ مسائل شرعیہ پر بے تکلف گفتگو فرماتے۔ ذہانت میں منفرد مقام کے مالک تھے ۔ سیال شریف عرس کے موقع پر حضرت خواجہ سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے مخصوص مسائل میں گفتگو اور تبادلہ خیال ہوا کرتا تھا۔

حلیہ[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کے جسمانی اعضاء بہت ملائم اور نازک تھے۔ چہرہ سے رعب اور نورانیت ٹپکتی تھی۔ آپ کا قد درمیانہ اور رنگ گندمی تھا۔

لباس و خوراک[ترمیم]

قاضی عبد الباقی بہت نفیس اور عمده لباس زیب تن فرماتے تھے جو سفید ہوتا تھا۔ خوراک سادہ اور بہت تھوڑی استعال کرتے تھے۔ آپ بہت متمول اور مالدار تھے۔

اخلاق و اطوار[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی زہد و تقوی اور علم و فضل میں بے مثال تھے۔ نہایت شفیق اور خوش مزاج تھے۔ عابد و زاہد شب زنده دار اور صوفی باصفا تھے۔ شریعت محمدیہ پر دل و جان سے عمل پیرا اور تعلیمات اسلامیہ کی زندہ تصویر تھے۔ طبیعت میں استغناء تھا۔ بے حد و نعدار اور ملنسار تھے۔ خوش اخلاق، حمیدہ خصال اور بہت سی خوبیوں اور صفات کے مالک تھے۔ اوراد و وظائف کے پابند اور صاحب وجد و سماع بزرگ تھے۔ آپ مستجاب الدعوات اور مقبول الہی تھے۔

علمی تبحر[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی بہت بڑے منطقی اور تبحر عالم تھے۔ بے نظیر مناظر ، مفتی اور فقیہ تھے۔ معاصر علما کی بعض کتب پر آپ کے تصدیقی دستخط ملتے ہیں۔ آپ کی علمی شہرت پنجاب اور ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ آپ اپنے دور کے شیخ الاسلام تھے۔

وصال[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کرسالوی کا وصال 25 رمضان 1337ھ بمطابق 24 جون 1919ء کو کرسال میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا قاضی غلام نبی چاولی نے پڑھائی۔ آپ کی تدفین آبائی قبرستان میں کی گئی۔ خوبصورت اور عالیشان پختہ مزار بنا ہوا ہے۔

اولاد[ترمیم]

قاضی محمد عبد الباقی کی اولاد میں صرف ایک بیٹی تھی۔

  1. بخت بانو

بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے قاضی سلطان علی سے کی۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 620 تا 625