قبیلہ ازد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ازد جزیرہ عرب میں میں ایک قبیلہ کا نام ہے۔
قبیلہ الازد کو الاسد اور الذعر بھی کہا گیا جس کی نسبت الأزد بن نبت بن مالك بن زيد بن كهلان کی طرف کی جاتی ہے[1] اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلیٰ کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور ومتعارف ہوا، اسی قبیلہ کو " ازد " اور " ازد شنوہ " بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے
ازد بی قبیلہ کہلان ( بنو قحطان ) کی ایک شاخ تھا۔ بنو قحطان کی دیگر شاخیں قضاعہ کہلان اور حمیر تھیں۔ ازد کی ذیلی شاخوں میں اوس خزرج خزاعہ غسان اور دوس شامل تھے۔ علاقائی لحاظ سے ازد کی چار شاخیں تھی۔ ( 1 ) ازد شنوءۃ ( 2 ) ازد السراة ( 3 ) ازد غسان (4) ازد عمان - ازد شنوءۃ اور اازد السراة تہامہ اور عسیر میں آباد تھے۔ ازدی قبائل ذو الشری نامی بت کو پوجتے تھے۔ قبائل ازد و دوس سعودی عرب کے موجودہ صوبہ عسیر میں اس مقام کے آس پاس آباد تھے جہاں آج ابہا کا مشہور شہر ہے۔ یہ شہر طائف سے یمن کو جانے والی شاہراہ پر مکہ سے تقریباً ساڑھے تین سو میل جنوب میں ہے۔ ابہا سے ایک سڑک بحیرہ قلزم کے ساحل پر جیزان کی سعودی بندر گاہ پہنچتی ہے اور دوسری شاہراہ مشرق میں خمیس مشیط سے ہوکر سرحد یمن کی طرف نجران جاتی ہے۔[2] انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قبیلہ ازد کے لوگ روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون ومددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت وبلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے۔
قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو لقب کے ساتھ کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون مددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لیے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔ کاش میرا باپ ازدی ہوتا مطلب یہ ہے کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلندہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ کاش ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قلائد الجمان فی التعريف بقبائل عرب الزمان مؤلف: أبو العباس أحمد بن علی القلقشندی ناشر: دار الكتاب المصری
  2. اٹلس سیرت نبوی ڈاکٹر شوقی ابو خلیل، دار السلام ریاض سعودی عریبیہ
  3. مظاہر حق شرح مشکوۃ شریف، نواب قطب الدین خاں دہلوی :جلد پنجم:حدیث نمبر 591