قتادہ بن دعامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قتادہ بن دعامہ
(عربی میں: قتادة بن دعامة بن قتادة بن عزيز السدوسي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 680ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 736ء (55–56 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
محافظہ واسط   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طاعون   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب الإسلام، أهل السنة والجماعة
طبی کیفیت اندھا پن   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد انس بن مالک ،  عطاء بن ابی رباح ،  محمد بن سیرین ،  عامر بن شراحیل شعبی ،  حسن بصری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد ایوب سختیانی ،  شعبہ بن حجاج ،  عبد الرحمٰن اوزاعی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  مفسر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

قتادہ بن دعامہ سدوسیؒ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

قتادہ نام،ابوالخطاب کنیت،نسب نامہ یہ ہے،قتادہ بن دعامہ بن قتادہ بن عزیز بن عمرو بن ربیعہ بن عمروبن حارث بن سدوس سدوسی۔ قتادہ علمی اعتبار سے اجلۂ تابعین میں تھے۔

پیدائش[ترمیم]

61ھ میں پیدا ہوئے۔[3]

ذوق علم[ترمیم]

قتادہ کو علم کے ساتھ فطری مناسبت تھی،حصول علوم کا ذوق بچپن سے لے کر بڑھاپے تک یکساں رہا، مطرالوراق کا بیان ہے کہ قتادہ مرتے دم تک طالب العلم رہے۔

قوت حافظ[ترمیم]

اس ذوق وشوق کے ساتھ ،انھوں نے حافظ نہایت قوی پایا تھا ایک مرتبہ جو چیز سن لیتے تھے،وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی تھی،ایک مرتبہ حدیث سننے کے بعد کبھی کسی محدث سے دوبارہ اس کو سننے کی خواہش نہیں کی،ایک مرتبہ جو بات کانوں میں پڑ گئی وہ ہمیشہ کے لیے قلب کے خزانہ میں محفوظ ہو گئی،ان کے حافظہ کے نہایت حیرت انگیز واقعات کتابوں میں مذکور ہیں،ان میں سے ایک واقعہ لائق ذکر ہے،عمران بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ قتادہ ایک مرتبہ سعید بن مسیب کے پاس آئے اورچند دنوں قیام کرکے ان سے دل کھول کر اچھی طرح حدیثیں پوچھتے اوربکثرت سوالات کرتے رہے،ایک دن ابن مسیب نے ان سے پوچھا کہ تم نے جو باتیں مجھ سے پوچھی ہیں کیا وہ سب تم کو یاد ہیں، انھوں نے اثبات میں جواب دیا اور پوچھے ہوئے مسائل کو دہرانا شروع کیا کہ میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا، آپ نے یہ جواب دیا تھا، میں نے یہ سوال کیا تھا،آپ نے یہ بتایا تھا اورحسن بصری نے یہ جواب دیا تھا،اس طریقہ سے انھوں نے ان حدیثوں کا بیشتر حصہ جو ان سے سنا تھا دہرادیا، ابن مسیب کو اس وقت قوتِ حافظہ پر سخت حیرت ہوئی،فرمایا میں نہیں گمان کرسکتا تھا کہ خدانے تمھارے جیسا شخص بھی پیدا کیا ہے۔[4]

فضل وکمال[ترمیم]

اس ذوق وشوق،تلاش وجستجو اورقوتِ حافظ نے ان کو قرآن،تفسیر حدیث فقہ،زبان،لغت،ایام عرب اورنسب وغیرہ اس عہد کے جملہ مذہبی اور غیر مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا [5] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت شان اورفضیلت علمی پر سب کا اتفاق ہے۔

قرآن[ترمیم]

قرآن کے حافظ تھے اورنہایت اچھا یاد تھا،بڑی بڑی سورتوں میں ایک لفظ کی غلطی نہ ہوتی تھی،معمر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ قتادہ نے سعد بن ابی عروہ کو قرآن دے کر سورہ بقرہ سنائی اوراس میں ایک حرف کی غلطی نہیں کی سنانے کے بعد ان سے پوچھا کیوں میں نے ٹھیک یاد کیا،انھوں نے کہا ہاں ۔[6]

تفسیر[ترمیم]

تفسیر قرآن کے وہ بہت بڑے عالم تھے، آیات قرآنی کی تفسیر وتاویل میں ان کی نظر نہایت وسیع تھی،وہ خود کہتے تھے ،کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق میں نے کچھ نہ کچھ نہ سنا ہو،امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ قتادہ تفسیر کے بڑے عالم تھے [7]ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ قرآن کے سب سے بڑے جاننے والے تھے [8]ابن ناصرالدین ان کو مفسر الکتاب لکھتے ہیں۔ [9]

حدیث[ترمیم]

قتادہ کا اصل فن حدیث تھا، اس میں وہ نہایت بلند پایہ رکھتے تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ حدیث میں وہ ثقہ ،مامون اورحجت تھے[10] حافظ ذہبی انھیں حافظ وعلامہ کے نام سے یاد کرتے ہیں [11]عراق کے سب سے بڑے حافظ حدیث مانے جاتے تھے،ابن مسیب کہتے تھے کہ ہمارے یہاں قتادہ سے بڑا عراق کا کوئی حافظ نہیں آیا،سفیان کہتے تھے کہ دنیا میں قتادہ کا مثل نہ تھا،بکر بن عبد اللہ کہتے تھے کہ جو شخص سب سے بڑے حافظ اورایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو حدیث کو بعینہ اسی طرح جس طرح اس نے سنا ہے، روایت کرتا ہو تو اسے قتادہ کو دیکھنا چاہیے ،عبد الرحمن بن مہدی کہتے تھے کہ قتادہ حمید کے جیسے پچاس آدمیوں سے زیادہ بڑے حافظ ہیں(تہذیب الاسماء،جلد اول،ق2،ص57،58)امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ قتادہ باشذگانِ بصرہ میں سب سے بڑے حافظ تھے،جو چیز بھی سنتے تھے اس کو یاد کرلیتے تھے،ایک مرتبہ ان کے سامنے جابر کا صحیفہ پڑھا گیا،ایک ہی مرتبہ سن کر اس کو یاد کر لیا۔ [12]ابن حبان ان کو ان کے عہد کا سب سے بڑا حافظ حدیث شمار کرتے ہیں سلیمان تیمی اورایوب سختیانی جیسے محدثین ان کی احادیث کے محتاج تھے اور ان سے پوچھا کرتے تھے۔ [13]

شیوخ[ترمیم]

قتادہ کے اصل شیخ حسن بصری تھے،زیادہ تر وہ انہی کے سرچشمہ فیض سے سیراب ہوئے تھے،بارہ سال تک ان کی خدمت میں رہے خود ان کا بیان ہے کہ میں بارہ برس تک حسن بصری کی خدمت میں بیٹھا اورتین برس تک نماز فجران کے ساتھ پڑھی،میرے جیسے شخص نے ان کے جیسے شخص سے علم حاصل کیا [14]حسن بصری کے سب سے ممتاز تلامذہ میں یہی تھے،ابو حاتم کہتے تھے کہ حسن کے سب سے بڑے اصحاب میں قتادہ تھے۔[15] حسن بصری کے علاوہ اس عہد کے تمام ممتاز محدثین ،انس بن مالک،ابوسعید خدریؓ،عمران ابن حصینؓ،سعید بن مسیب، عکرمہ،ابوبردہ بن ابی موسیٰ ،شعبی،عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود،مطرف بن عبد اللہ بن شخیروغیرہ صحابہ اورتابعین کی ایک کثیر جماعت سے سماع حدیث کیا تھا۔ [16]

ان کا یہ خاص کمال تھا جس محدث کے پاس پہنچ جاتے تھے،چند ہی دنوں میں اس کا سارا علم پی لیتے تھے،ایک مرتبہ سعید بن مسیب کے پاس جاکر چند دنوں کے لیے قیام کیا اوران سے اس قدر سوالات کیے کہ انھوں نے آٹھ ہی دن کے اندر گھبرا کر ان سے کہ اب جاؤ تم نے میرا سارا علم خالی کر لیا۔[17]

تلامذہ[ترمیم]

ان کے کمالات کی وجہ سے ان کی ذات مرجع خلائق بن گئی تھی،سینکڑوں تشنگان علم ان کے حلقہ درس سے سیراب ہوئے،ان کی فہرست نہایت طویل ہے ،بعض قابل ذکرنام یہ ہیں،ایوب سختیانی،سلیمان تیمی،جریربن حازم ،شعبہ ،مسعر،ابو بلال راسبی مطرالوراق ہمام بن یحییٰ،عمروبن حارث المصر،شیبان نحوی،سلام بن ابی المطیع،سعید بن ابی عروبہ ابان ابن یزید العطار،حصین بن ذکوان،حماد بن سلمہ، اوزاعی عمروبن ابراہیم عبدی عمران القطان وغیرہ[18]

فقہ[ترمیم]

فقہ میں بھی امتیازی پایہ رکھتے تھے،ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ قرآن اور فقہ کے بڑے علما میں تھے[19] امام احمد بن حنبل ان کے تفسیر حدیث کے کمال کے ساتھ ان کے فقہی کمال کے بھی معترف تھے[20]بصرہ کی جماعتِ افتاء کے ایک معزز رکن تھے۔[21]

رائے سے احتراز[ترمیم]

ان کمالات کے باوجود فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے،جو مسئلہ نہ معلوم ہوتا نہایت صفائی کے ساتھ اپنی لا علمی ظاہر کردیتے ، اپنی رائے سے کبھی جواب نہ دیتے،ابو ہلال کابیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ قتادہ سے ایک مسئلہ پوچھا ،انھوں نے کہا اپنی رائے بتادیجئے جواب دیا کہ میں نے چالیس سال سے اپنی رائے سے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔[22]

جامعیت[ترمیم]

قتادہ کی جیسی جامعیت کم تابعین میں تھی وہ تنہا مذہبی علوم کے عا لم نہ تھے ؛بلکہ اس عہد کے دوسرے مروجہ فنون مثلاً عربی،لغت،ایام عرب اورنسابی کے بھی بڑے ماہر تھے،ابو عمر کا بیان ہے کہ وہ بڑے نساب تھے،ابو عبیدہ کا بیان ہے کہ کچھ نہ کچھ پوچھنے کے لیے آتا تھا ،ابن ناصر الدین ان الفاظ میں ان کی جامعیت پر تبصرہ کرتے تھے، ابو الخطاب الضریرالاکم فسر الکتاب ایۃ فی الحفظ اما مافی النسب واسا فی العربیۃ واللغۃ ایام العرب [23]

وفات[ترمیم]

باختلافِ روایت 117 یا 118 میں وفات پائی۔[24]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/134327 — بنام: Qatādah ibn Diʻāmah — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/102371733 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. (تہذیب التہذیب:8/350)
  4. (ابن سعد،ج 7،ق2،ص2)
  5. (تذکرۃ الحفاظ:1/109)
  6. (ابن سعد،ج7،ق2،ص1)
  7. (ایضاً)
  8. (تہذیب التہذیب:8/355)
  9. (تذرات الذہب :1/153)
  10. (ابن سعد،ج7،ق2،ص1)
  11. (تذکرۃ الحفاظ:1/109)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/11)
  13. (تہذیب التہذیب:8355)
  14. (ابن سعد،ج7،ق2،ص1)
  15. (تہذیب الاسماء:1/158)
  16. (تہذیب التہذیب:8351)
  17. (ابن سعد ،ج7،ق2۔ص2)
  18. (تہذیب التہذیب:8/352)
  19. (تہذیب التہذیب:8/352)
  20. (تذکرۃ الحفاظ:1/109)
  21. (اعلام الموقعین:1/27)
  22. (ابن سعد،جلد7،ق2،ص1)
  23. (ایضاً)
  24. (ابن سعد،ج7،ق2،ص3)