قرآنی رموز اوقاف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

رُمُوز۔ عریبی زبان کا یہ اسم رَمز کی جمع ہے جس کے معنی اشارہ، راز یا بھید کے ہیں اور اوقاف عربی زبان کے اسم وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہراؤ یا توقف کے ہیں۔[1]
رُمُوزِ اَوقاف {رُمُو + زے + اَو (و لین) + قاف} (عربی)
عربی زبان سے ماخوذ اسم 'رموز' کے آخر پر کسرہ اضافت لگا کر عربی اسم 'وقف' کی جمع 'اوقاف' لگانے سے مرکب اضافی بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔
اسم نکرہ ( مذکر - جمع ) عبارت یا تحریر میں الفاظ اور فقروں کے درمیان وقفے، کم یا زیادہ دیر تک ٹھہرنے کے نشانات، قواعد، علائم۔
"اس کتاب میں کتابت کی دوسری غلطیوں کے علاوہ رموز اوقاف (Punctuation) کی غلطیاں بہت کثرت سے رہ گئی ہیں۔" ( 1915ء، فلسفۂ احتجاج، دیباچہ، دیوان ) [2]
انگریزی ؛ Punctuation
(n.) The act or art of punctuating or pointing a writing or discourse; the art or mode of dividing literary composition into sentences, and members of a sentence, by means of points, so as to elucidate the authors meaning.[3]

قرآنی رموز اوقاف[ترمیم]

ہر زبان کے اہلِ زباں جب گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہر جاتے ہیں، کہیں نہیں ٹھہرتے۔ کہیں کم ٹھہرتے ہیں، کہیں زیادہ اور اس ٹھہرنے اور نہ ٹھہرنے کو بات کے صحیح بیان کرنے اور اس کا صحیح مطلب سمجھنے میں بہت دخل ہے۔ قرآن مجید کی عبارت بھی گفتگو کے انداز میں واقع ہوئی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے اس کے ٹھہرنے نہ ٹھہرنے کی علامتیں مقرر کر دی ہیں، جن کو رموز اوقاف قرآن مجید کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان رموز کو ملحوظ رکھیں اور وہ یہ ہیں:

O[ترمیم]

جہاں بات پوری ہو جاتی ہے، وہاں چھوٹا سا دائرہ لگا دیتے ہیں۔ یہ حقیقت میں گول (ت) جو بصورت (ۃ) لکھی جاتی ہے۔ اور یہ وقف تام کی علامت ہے یعنی اس پر ٹھہرنا چاہیے، اب (ۃ) تو نہیں لکھی جاتی۔ چھوٹا سا دائرہ ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کو آیت کہتے ہیں۔ دائرہ پر اگر کوئی اور علامت ہو تو بھی رک جائیں اور آیت کا ہی اعتبار کریں۔

5[ترمیم]

یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس موقع پر غیر کوفیین کے نزدیک آیت ہے۔ وقف کریں تو اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس کا حکم بھی وہی ہے جو دائرہ کا ہے۔

م[ترمیم]

یہ وقف لازم کی علامت ہے۔ یعنی یہاں ٹھہرنا ضروری ہے، ورنہ کلام کے مفہوم کے غلط ملط ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

ط[ترمیم]

وقف مطلق کی علامت ہے۔ اس پر ٹھہرنا چاہیے۔ یہ علامت وہاں ہوتی ہے جہاں مطلب تمام نہیں ہوتا اور بات کہنے والا ابھی کچھ اور کہنا چاہتا ہے۔

ج[ترمیم]

وقف جائز کی علامت ہے۔ یہاں ٹھہرنا بہتر اور نہ ٹھہرنا جائز ہے۔

ز[ترمیم]

علامت وقف مجوّز کی ہے۔ یہاں نہ ٹھہرنا بہتر ہے۔

ص[ترمیم]

علامت وقف مرخص کی ہے۔ یہاں ملا کر پڑنا چاہیے لیکن اگر کوئی تھک کر ٹھہر جائے تو رخصت ہے۔ معلوم رہے کہ (ص) پر ملا کر پڑھنا (ز) کی نسبت زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔

صلے[ترمیم]

الوصل اولیٰ کا اختصار ہے۔ یہاں ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

ق[ترمیم]

قیل علیہ الوقف کا خلاصہ ہے۔

اس کا معنیٰ ہے:

کہا گیا ہے کہ یہاں وقف ہے۔

مگر قیل کے ساتھ قول کمزور گنا جاتا ہے۔

اس لیے یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے۔


صل[ترمیم]

قَد یو صل کا مخفف ہے۔ یہاں ٹھہرا بھی جاتا ہے اور کبھی نہیں۔ بوقت ضرورت وقف کر سکتے ہیں۔

قف[ترمیم]

یہ لفظ قِف ہے۔ جس کے معنی ہیں ٹھہر جاؤ۔ اور یہ علامت وہاں استعمال کی جاتی ہے، جہاں پڑھنے والے کے ملا کر پڑھنے کا احتمال ہو۔

س یا سکتہ[ترمیم]

سکتہ کی علامت ہے۔ یہاں کسی قدر ٹھہرنا چاہیے مگر سانس نہ ٹوٹنے پائے۔

وقفہ[ترمیم]

مبے سکتہ کہ علامت ہے۔ یہاں سکتہ کی نسبت زیادہ ٹھہرنا چاہیے لیکن سانس نہ توڑیں۔ سکتہ اور وقفہ میں یہ فرق ہے کہ سکتہ میں کم ٹھہرنا ہوتا ہے، وقفہ میں زیادہ۔

لا[ترمیم]

لا کے معنی نہیں کے ہیں۔ یہ علامت کہیں آیت کے اوپر استعمال کی جاتی ہے اور کہیں عبارت کے اندر۔ عبارت کے اندر ہو تو ہر گز نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ آیت کے اوپر ہو تو اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ٹھہرنا چاہیے بعض کے نزدیک نہیں ٹھہرنا چاہیے لیکن ٹھہرا جائے یا نہ ٹھہرا جائے اس سے مطلب میں خلل واقع نہیں ہوتا۔اگرچہ ٹھرنا بہتر ہے۔

ک[ترمیم]

ذلک کا مخفف ہے، اس سے مراد ہے کہ جو رمز اس سے پہلی آیت میں آ چکی ہے، اس کا حکم اس پر بھی ہے۔

ۛ[ترمیم]

ۛ یہ تین نقاط والے دو وقف قریب قریب آتے ہیں۔ ان کو معانقہ کہتے ہیں۔ کبھی اس کو مختصر کر کے (مع) بھی لکھ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں وقف گویا معانقہ کر رہے ہیں۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان میں سے ایک پر ٹھہرنا چاہیے دوسرے پر نہیں۔ ہاں وقف کرنے میں رموز کی قوت اور ضعف کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فیروز اللغات اردو جامع
  2. bookspk.com
  3. Punctuation Urdu Meaning: رموز اوقاف ramz okaf Meaning, English to Urdu Dictionary
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 05 مئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2011