قرآن اور فلکیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قرآن اور فلکیات (Astronomy) دراصل قرآن میں جدید فلکیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف فلکیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔[1][2]

کائنات کی تخلیق :بگ بینگ (Big Bang)[ترمیم]

فلکی طبیعیات کے ماہرین٫ ابتداے ِکائنات کی وضاحت ایک ایسے مظہر کے ذریعے کرتے ہیں جسے وسیع طور پر قبول کیا جاتا ہے اور جس کا جانا پہچانا نا م بگ بینگیعنی عظیم دھماکا ہے۔ بگ بینگ کے ثبوت میں گذشتہ کئی عشروں کے دوران مشاہدات و تجربات کے ذریعے ماہرین فلکیات و فلکی طبیعیات کی جمع کردہ معلومات موجود ہے۔ بگ بینگ کے مطابق ابتدا میں یہ ساری کائنات ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی۔ (جس کو Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر ایک عظیم دھماکا یعنی بگ بینگ ہوا جس کا نتیجہ کہکشاؤں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں۔ کائنا ت کی ابتدا اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔

قرآن پاک درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنا ت کے متعلق بتایا گیا ہے:

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا [3]

ترجمہ : اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا

اس قرآنی آیت اور’’بگ بینگ‘‘ کے درمیان حیرت انگیز مماثلت سے انکار ممکن ہی نہیں ! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب جو آج سے 1400سال پہلے عرب کے ریگستانوں میں ظاہر ہوئی اپنے اندر ایسی غیر معمولی سائنسی حقیقت لیے ہوئے ہو۔[4]

پھیلتی ہوئی کائنات[ترمیم]

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہو کہ کائنات پھیل رہی ہے کائنات پھیلا رہی ہے یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے ملا حظہ فرمائے کہ قرآن پاک میں کائنات کی فطرت اور خاصیت کے حوالے سے کیا ارشاد ہوتاہے ۔
وَ السَّمَآ ئَ بَنَیْنٰھَا بِاَ یْدٍ وَّ اِ نَّ لَمُوْ سِعُوْ نَ ہ [5]
ترجمہ:۔ اور ہم ہی ہے جس نے آسمان کو اپنی دست قدرت سے پید ا کیا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہے۔
عربی لفظ موسعون کا صیح ترجمہ اسے پھیلا رہے ہیں بنتا ہے اور یہ ایک ایسی کائنات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی وسعتیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہو۔ عصر حاضر کا مہشور ترین فلکی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکینگ (Stephen Hawking) اپنی تصنیف اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں لکھتا ہے۔ یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے بیسویں صد ی کے عظیم علمی و فکری انقلابات میں سے ایک ہے۔
غو ر فرمائیے کہ قرآن پاک کے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، اس کے باوجود، متشکک ذہن رکھنے والے بعض لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں فلکیاتی حقائق کا موجود ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ کیونکہ عرب اس علم میں بہت ما ہر تھے، فلکیات میں عربوں کی مہارت کی حد تک تو ان کا خیال درست ہے، لیکن اس نکتے کا ادراک کرنے میں و ہ ناکام ہو چکے ہیں کہ فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا۔

کہکشائوں کی تخلیق سے پہلے، ابتدائی گیسی کمیت یعنی مادہ[ترمیم]

سائنس دان اس پر متفق ہیں کہ کائنات میں کہکشائیں بننے سے بھی پہلے، کائنات کا سارا مادہ ایک ابتدا ئی گیسی حالت میں تھا، مختصر یہ کہ کہکشائوں کی تشکیل سے پہلے، وسیع و عر یض (گیسی مادہ) بادلوں کی شکل میں موجود تھا جسے کہکشائوں کی شکل میں آنا تھا۔ اس ابتدائی گیسی مادے کی وضاحت میں گیس سے زیادہ موزوں لفظ دھواں ہے۔ درج ذیل آیت قرآن میں کائنات کی اسی حالت کا حوالہ دخان یعنی دھوئیں کا لفظ استعمال کرکے دیا گیا ہے۔
ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآ ئِ وَ ھِیَ دُخَا نُ فَقَا لَ لَھَا وَ لِلْاَ رْ ضِ ائْتِیَا طَوْ عًا اَوْ کَرْ ھًا ط قَا لَتَآ اَ تَیْنَا طَآ ئِعِیْنَ ہ[6]
ترجمہ : پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہو ا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے کہا: وجود میں آجا ئو، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو دونوں نے کہا : ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح۔
ایک بار پھر یہ حقیقت بھی بگ بینگ کی طرح واضح ہے جس کے بارے میں محمدؐ کی بعثت سے پہلے کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔ (بگ بینگ کی حقیقت بیسویں صد ی کی یعنی عہد نبوی کے 1300سال بعد کی پیدا وار ہے۔ مترجم)۔ اگر اس زمانے میں کوئی بھی اس سے واقف نہیں تھا تو پھر اس علم کا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے۔؟

زمین کی کروی (گول نہا Spherical) ساخت[ترمیم]

ابتدائی زمانوں کے لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ زمین چپٹی (یعنی بالکل ایک پلیٹ کی طرح ہموار) ہے یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک انسان صرف اسی وجہ سے دور دراز کا سفر کرنے سے خوفزدہ رہا کہ کہیں وہ زمین کے کناروں سے گرنہ پڑے ! سر فرانسس ڈریک (Sir Frances Drek) وہ پہلا آدمی تھا جس نے 1597ء میں زمین کے گرد (سمند ر کے راستے) کشتی کے ذریعے چکر لگایا اور عملاً یہ ثابت کیا کہ زمین گول (کروی) ہے۔
یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا ذرج ذیل قرآنی آیت پر غور فرمایے جو دن اور رات کے آنے اور جانے سے متعلق ہے:
اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْ لِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَا رِ وَ یُوْ لِجُ النَّھَا رَ فِی الَّیْل[7]
ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعا لیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔
یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات کے بتدریج دن میں ڈھلنے اور دن کے بتدریج رات میں ڈھلنے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب زمین کی ساخت کسی گولے جیسی یعنی کر وی ہو۔ اگر زمین چیٹی ہوتی تو دن کی رات میں یا رات کی دن میں تبدیلی اچانک ہوتی۔ ذیل میں ایک اور آیت مبارک ملا حظہ ہو۔ اس میں بھی زمین کی کروی (spherical ) ساخت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خَلَقَ السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضَ بِا لْحَقَّ یُکَوِّ رُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَا رِ وَ یُکَوِّ رُ النَّھَا رَ عَلَی الَّیْلِ[8]
ترجمہ:۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پررات کواور رات پردن کولپیٹتاہے۔
یہاں استعمال کیے گئے عربی لفظ کور کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا۔ دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا ایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کر وی ہو۔
زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ارضی کر وی (Geo spherical) ہے، یعنی قطبین(Poles ) پر سے تھوڑی سے چپٹی (Flate) ہوتی ہے۔ درج ذیل آیت مبارک میں زمین کی ساخت کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔
وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰٰٰٰلِکَ دَحٰھَا [9]
ترجمہ:۔پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے کی طرح بنایا۔
یہاں عربی عبارت دَ حٰھَا استعمال ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے شتر مرغ کا انڈہ۔ شتر مرغ کے انڈے کی شکل زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو ا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے، حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی یعنی پلیٹ کی طر ح ہموار ہے۔

چاند کی روشنی، منعکس شدہ (Reflected) روشنی ہے[ترمیم]

قدیم تہذیبوں میں یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ چاند اپنی روشنی خود خارج کرتا ہے(یعنی از خود روشن ہے) سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی، منعکس شدہ روشنی ہے۔ تا ہم یہ حقیقت آج سے چودہ سو سال پہلے، قرآن پاک کی درج ذیل آیت مبارک میں بیان کر دی گئی ہے۔
تَبٰرَ کَ الَّذِ یْ جَعَلَ فِی السَّمَآ ئِ بُرُ وْ جًا وَّ جَعَلَ فِیْھَا سِرٰ جًا وَّ قَمَرً ا مُّنِیْرًا ہ[10]
ترجمہ :۔ بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج (constillation) بنائے اور اس میں ایک چراغ (یعنی سور ج) اور روشنی منعکس کرنے والا چاند بنایا۔
قرآن پاک میں سورج کے لیے عربی لفظ شمس استعمال ہوا ہے۔ البتہ اسے (سورج کو)سراج بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے مشعل (ٹارچ) جب کہ بعض مواقع پر اسے وہاج بمعنی جلتا ہوا چراغ یا جلتا ہو ادیا کے الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے جس کا مفہوم چمکتی ہوئی شان و عظمت ہے مذکورہ تینوں وضاحتیں سورج کے لیے بالکل صحیح ہے۔ کیوں کہ سورج اپنی اندرونی سوختگی(Combustion)کی وجہ سے نہایت تیزروشنی پیدا کرتاہے۔ چاند کے لیے عربی لفظ قم رہے۔ قرآن پاک میں چاند کو ْمُنیر'یا نور کہاگیاہے۔ نور کے معنی ہے اخذکی گیٔ روشنی۔ جبکہ ُُُمُنیرکامطلب ہے منعکس کی گیٔ روشنی۔ ایک بار پھر قرآن پاک کی وضاحت مکمل طور پر چاندکی خاصیت اور فطرت سے ملتی ہے کہ چانداپنی کویٔی روشنی خارج نہیں کرتابلکہ سورج کی روشنی کو منعکس کرتاہے۔ قرآن پاک میں ایک مرتبہ بھی چاند کو وہّاج یا دیہ یا سراج نہیں کہاگیااورنہ سورج کو مُنیر یا نور کہا گیا۔ اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ قرآن مجیدنے چاند اور سورج کی مختلف خاصیت اور فطرت کو پہچاناہے۔ مذکورہ آیت میں سورج اور چاند کی خا صیت اور فطرت کے با رے میں بتا یا گیا ہے۔
ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآ ئً وَّ الْقَمَرَ نُوْ رً ا [11]

ترجمہ:۔ وہی ہے جس نے سورج کو اجالا (یعنی بذات خود روشنی دینے والا) اور چاند کو چمک دار (یعنی منعکس کرنے والا روشنی کو)بنایا۔
اَ لَمْ تَرَ وْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰ تٍ طِبَا قًا ہ وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْ رًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَ اجًا ہ[12]

ترجمہ:۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سات آسمان تہ در تہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔
ان آیات مبارکہ کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید اور جدید سائنس میں سورج اور چاند کی روشنی کی فطرت کے بارے میں مکمل اتفاق رائے ہے۔

سورج گھومتا ہے[ترمیم]

ایک لمبے عرصے تک یورپی فلسفیوں اور سائنس دانوں کا یقین یہ رہا کہ زمین، کائنات کے مرکز میں ساکن کھڑی ہے اور سورج سمیت، کائنات کی ہر چیز اس کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ اوریہ نظر یہ جسے ارض ساکن یا 'ارض مرکزی ساکن' بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بطلیموس (Ptolmy) کے زمانے (دوسری صدی قبل از مسیح ) سے لے کر سو لیویں صدی عیسوی تک سب سے زیادہ تسلیم کیا جانے والا سائنسی نظریہرہا۔ پھر 1512ء میں نکولس کو پرنیکس(Nicholas Copernicus ) نے (Heliocentric Theory of Planetry Motion) کا نظریہ پیش کیاجس کے مطا بق سورج نظام شمسی کا مرکز ہے اور ساکن ہے اور تمام سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔1609ء میں ایک جرمن سائنس دان یوہا نس کیپلر (Yohannus Keppler) نے آسٹرونومیانووا ( Astronomia Nova) کے نام سے ایک کتاب شائع کروائی۔ اس کتاب میں کیپلر(Keppler) نے صرف یہی ثابت نہیں کیا کہ نظام شمسی کے سیارے بیضہ نمامداروں (Eliptical Orbits ) میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ بلکہ اس نے یہ بھی ثابت کیاکہ سیارے اپنے محوروں پر غیر مستقل نوعیت کی رفتاروں سے گردش بھی کرتے ہیں۔ اس علم کی بدولت یورپی سائسندانوں کے لیے نظام شمسی کے کئی ایک نظاموں کی درست وضاحت کرنی ممکن ہو گئی۔ بشمول رات اور دن کے تسلسل کے، ان دریافتوں کے بعد یہ سمجھاجانے لگا کہ سورج ساکن ہے اور زمین کی طرح اپنے محور پر گردش نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ سکو ل کے دنوں میں جغرافیہ کی کئی کتابوں میں اسی غلط فہمی کا پر چار کیا گیا تھا۔ اب ذرا قرآن پاک کی درج ذیل آیت مبارکہ ملا خطہ فر مایے۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النّھَا رَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلُ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ[13]
ترجمہ:۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
غور فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیت میں عربی لفظ یَسْبَحُوْن استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ بذات خود سے نکلا ہے۔ جس کے ساتھ ایک ایسی حرکت کا تصور وابستہ ہے جو کسی جسم کے متحرک ہونے سے پیدا ہوئی ہو۔ اگر آپ یہ لفظ زمین پر کسی شخص کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ لڑک رہا ہے۔ بلکہ اس سے یہ مراد ہو گی کہ وہ شخص دوڑ رہا ہے یا چل رہا ہے۔ اگر یہ لفظ پانی میں کسی شخص کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ (پانی پر) تیر(float) رہا کہ بلکہ اس سے مراد ہوگی کہ وہ شخص پانی میں تیراکی کر رہا ہے۔
اسی طرح جب آ پ یہ لفظ سَبَحَا کسی آسمانی جسم (جرم فلکی ) سورج کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہو گا کہ وہ جسم خلا میں حرکت کر رہا ہے، بلکہ اس کا پورا مطلب یہ ہوگاکہ کوئی ایسا جسم جو خلا میں حرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے محور(axis) پر بھی گھوم رہا ہے۔ آج اسکولوں کی بیشتر نصابی کتابوں نے اپنی معلومات درست کرتے ہوئے یہ حقیقت شامل کرلی ہے کہ سورج اپنے محور پر گرد ش بھی کر رہا ہے۔ سورج کی محوری گردش کی تصدیق کسی ایسے مشاہداتی سازو سامان کی مدد سے آسانی کی جا سکتی ہے جو سورج کا عکس کسی میز جتنی بڑی جگہ پر پھیلا کر دکھا سکے، اسی طرح نابیناپن کے خطرے سے دو چار ہوئے بغیر سورج کے عکس کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج کی سطح پر دھبے ہیں جو اپنا ایک چکر تقریباً پچیس دن میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سورج کو اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرنے کرنے میں تقریباً پچیس دن لگ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سورج تقریباً 240کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے (اپنے سیاروں سمیت) خلا میں سفر کر رہا ہے۔ اس رفتار سے یہ تقریباً بیس کروڑ سال میں ہماری ملکی وے (Milky Way) کہکشاں کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُد ْرِکَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَا رِط وَکُلُّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ [14]
ترجمہ:۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
یہ آیت مبارکہ ایک ایسی بنیادی اور اہم حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے جسے جدید فلکیات نے قدرے حال ہی میں دریافت کیا ہے، یعنی چاند اور سورج کے انفرادی مداروں کی موجودگی اور حرکت کرتے ہوئے خلا میں انکا سفر کرنا۔
وہ ساکن جگہجس کی سمت ہماراسورج اپنے تمام (نظام شمسی ) سمیت سفرکر رہا ہے۔ جدید فلکیات کی بدولت ٹھیک شاخت کر لی گئی ہے۔ اسے سولر اپیکس کا نام دیا گیا ہے۔ پورا نظام شمسی در حقیقت خلا میں اس مقام کی سمت حرکت کر رہا ہے جو ہرکولیس (Herculis) نامی برج (ایلفا لیرایٔی ) میں واقع ہے اور جس کی درست جگہ آج ہمیں معلوم ہو چکی ہے۔
چاند اپنے محور پر اتنی مدت میں گردش پوری کرتا ہے کہ جتنی دیر میں وہ زمین کے گردایک چکر پورا کرتا ہے چاند کو اپنی ایک محوری گردش پورے کرنے میں ساڑ ے انتیس دن لگ جاتے ہیں۔ قرآن پاک کی آیات مبارکہ میں سائنسی حقائق کی درستی پرحیران ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کیا ہمارے زہینوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتاکہ قرآن میں پیش کیے گئے علم کا ماخذ، علم کا منبع آخر کیا ہے؟

سورج بجھ جائے گا[ترمیم]

سورج کی روشنی ایک کیمیائی عمل (Fusion Reaction) کی وجہ سے ہے۔ جو اس کی سطح پر گز شتہ تقریباً پانچ ارب سال سے جاری ہے۔ مستقبل میں کسی موقع پر یہ عمل رک جائے گا اور تب سورج مکمل طور پر بجھ جائے گا جس کی وجہ سے زمین پر زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔ سورج کے وجود کی اس فانی خاصیت کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے۔
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍٍّ لَّھَا ط ذٰلِکَ تَقْدِ یْرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیْمِ ہ[15]
ترجمہ:۔ اور سورج، اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ کم و پیش اسی نوعیت کی باتیں قرآن پاک کی سورة 13آیت 2سورة 35آیت 13سورة 39آیت 5اور سورة 39اور آیت21میں بھی بیان کی گئی ہیں۔
یہاں عربی لفظ مستقر استعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے پہلے سے متعین کیا ہوا وقت یا جگہ، یعنی اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالٰی یہ فرما رہا ہے کہ سورج پہلے سے طے شدہ ایک مقام کی طرف جا رہا ہے اور یہ کہ وہ ایسا پہلے سے طے شدہ وقت کے مطابق ہی کرے گا۔ مطلب یہ کہ سورج بھی ختم ہو جائے گا یا بجھ جائے گا۔

بین الخمی مادہ (Interstellar Matter)[ترمیم]

پچھلے زمانوں میں منظم فلکیاتی نظاموں سے باہر کی خلاء (بیرونی خلا) کو مکمل طور پر خالی خلا (vaccum) تصور کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں ماہرین فلکی طبیعیات نے اسی خالی خلا یعنی بین النجمی خلا میں مادے کے پل (برج ) دریافت کیے۔ مادے کے ان برجوں پلوں کو پلازما (plasma) کہا جاتا ہے۔ جو مکمل طور پر آئن شدہ گیس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جس میں مثبت چارج والے آئن اور آزاد الیکٹرانوں کی مساوی تعداد ہوتی ہیں۔ مادے کی تین جانی پہچانی حالتوں یعنی، ٹھوس، مائع اور گیس کو چھوڑ کر پلازما کو بیشتر اوقات مادے کیچوتھی حالت بھی کہا جاتا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ میں قرآن پاک بین النجمی مادے (انٹر سٹلر میٹر) کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَ رْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا
ترجمہ:۔ وہ جس نے زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں پیدا کیا،[16]
کسی کے لیے بطور قیاس بھی یہ کہنا مضحکہ خیز ہو گا کہ بین النجمی کہکشانی مادے کی موجودگی آج سے 1400سال پہلے ہمارے علم میں تھی۔
علاوہ ازیں اور بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، مثلا بگ بینگ، سے کائنات کی ابتدا وغیرہ سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے بر عکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قرآن اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحات 14-8
  2. قرآن، بائبل اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 45
  3. القرآن، الانبیاء، 21 : 30
  4. قرآن اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 8
  5. القرآن، سورة الذاریات، سورة 51 : آیت 47
  6. القرآن، سورة حٰم سجد، سورة ٤١ : آیت ١١
  7. القرآن، سورة لقمٰن، سورة ٣١ : آیت ٢٩
  8. القرآن، سورة الزُمر، سورة ٣٩ : آیت ٥
  9. القرآن، سورة النٰزعٰت، سورة ٧٩: آیت ٣٠
  10. القرآن، سورة الفرقان، سورة ٢٥ : آیت ٦١
  11. القرآن، سورة یونس، سورة ١٠ : آیت ٥
  12. القرآن، سورة الحجر، سورة ١٥ : آیت ١٦تا ١٧
  13. القرآن، سورة الانبیاء، سورة ٢١ : آیت ٣٣
  14. القرآن، سورة یٰس، سورة ٣٦ : آیت ٤٠
  15. القرآن، سورة یٰس، سورة ٣٦ : آیت ٣٨
  16. القرآن، سورة الفرقان، سورة 25 : آیت 59