قمر جلالوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شاعرِ اہلبیتؐ جناب سید محمدحسین عابدی متخلص قمرؔ المعروف استاد قمرؔ جلالوی کو برِ صغیر پاک و ہند میں وہ شہرت حاصل ہوئی جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں- جناب جب تک ہندوستان میں رہے وہاں بھی اور پاکستان آنے کے بعد یہاں بھی کوئی اہم اور قابلِ ذکر مشاعرہ ایسا نہیں تھا جس میں وہ شریک نہ ہوئے ہوں۔[1]

مزاج کے اعتبار سے بھی جناب بہت سا دہ لو اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اس مقام و مرتبے کے باوجود غرور اور تمکنت کا نام نہ تھا۔ محفل میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ مزاح بھی استاد کے مزاج کا حصہ تھا-

ان کی شاعری آگ لگا دینے والے کلام پر مشتمل ہوا کرتی تھی ۔ بعض اشعار کی وجہ سے ان پر کفر کے فتوے بھی لگے ۔


قمَر جلالوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1 دسمبر 1887ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جلالی، بھارت, علی گڑھ, بھارت
وفات 24 اکتوبر 1968ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی, پاکستان
قومیت پاکستانی
عملی زندگی
پیشہ شاعر
وجہ شہرت شاعری

حالات زندگی[ترمیم]

ابتدائی حالات[ترمیم]

سید محمد حسین عابدی، استاد قمر جلالوی کی پیدائش 1887ء میں علی گڑھ کے قریب ایک تہذیبی قصبہ جلال میں ہوئی اور انھوں نے آٹھ سال کی عمر سے ہی اشعار موزوں کرنے شروع کردیے۔ انھوں نے کسی بڑے تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ مگر ان کی آواز میں غضب کا درد اور کرب تھا اور ترنم بھی اچھا تھا جس کی وجہ سے سامعین ان کے کلام سے متاثر ہو تے۔

آباء و اجداد کا سلسلہ مشہور ایرانی شخصیت سید نجیب علی ہمدانی سے ملتا ہے۔ جناب کے آباء و اجداد کا پیشہ مدتوں سپہ گری رہا جو بعد میں خدمات کے صلہ کے طور پر زمین داری میں تبدیل ہو گیا۔ جناب کے والدِ گرامی جناب سید غلام سجاد حسین عابدی قصبہ جلالی کے معزز ترین رؤسا میں سے تھے- معاشی حیثیت بھی کسی رئیس سے کم نہ تھی یہاں تک کہ دو گاؤں ان کی ملکیت میں تھے- خود جناب کے پاس بھی خاصی زمین تھی لیکن فیاضانہ مزاج و دریا دلی نے انھیں گردشِ روزگار سے آشنا کروادیا- جناب کے والد خود بھی صاحبِ ذوق تھے اور شعر بھی کہتے تھے لیکن مشاعروں میں بحیثیت شاعر کبھی شرکت نہ کرتے تھے۔ قصبہ جلالی کا ماحول کچھ یوں تھا کہ گھر گھر علم و ادب کا چرچا تھا اور شعر و ادب کی محفلیں اکثر گرم رہا کرتی تھیں- اسی ماحول میں استاد نے آنکھ کھولی تھی- یعنی استاد کو شاعری وراثت میں ملی تھی۔ اس پر ماحول نے گویا چار چاند لگا دیے- جس کے نتیجے میں ابھی جناب کی عمر دس سال کی تھی کہ اشعار موزوں کرنے لگے۔ سن ١٩٩٠ میں جلالی کے ایک مشاعرے میں جب جناب بحیثیتِ شاعر پہنچتے ہیں تو دیگر شعرا و اہلِ محفل حیران ہوتے ہیں کہ یہ بچہ کون ہے اور کیسے ایک شاعر کی حیثیت سے یہاں آیا ہے اور جب مشارے کا آغاز ہوتا ہے اور سب سے پہلے استاد قمر جلالوی اپنی غزل پیش کرتے ہیں اور اس کا مطلع پڑھتے ہیں

؎ جیسا کہ مجھ کو عشق ہے اس گل بدن کے ساتھ

بلبل کو بھی نہ ہو گا وہ شاید چمن کے ساتھ

تو تمام لوگوں کی حیرانی منزلِ معراج پہ جا پہنچتی ہے- اور توریباٙٙ ہر شخص یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ "یہ غزل اس کی نہیں کسی اور سے لکھوا کر لایا ہے"- اہلِ مشاعرہ کی حیرانی بے سبب نہ تھی کیونکہ یہ غزل زبان و بیان کے اعتبار سے اتنی معیاری تھی کہ کسی منجھے ہوئے شاعر کے زورِ فکر کا نتیجہ معلوم ہوتی تھی- ظاہر ہے حاضرینِ محفل کو یقین نہیں آیا کہ بارہ سال کا لڑکا ایسی غزل کہنے پر قادر ہو سکتا ہے- اس دن کے بعد سے جناب قصبہ جلالی کے تمام مشاعروں میں مسلسل شرکت کرنے اور نئی نئی غزلیں پڑھنے لگے- تب جاکر اہلیانِ جلالی کو یقین آیا کہ ان کے درمیان ایک نادرِ روزگار بچہ ممتاز شاعر کے قالب میں ڈھل رہا ہے- جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقامی شعرا بغرضِ اصلاح اپنا کلام جناب کو دکھانے لگے- یہاں تک کہ جناب کے دو ایسے بھی شاگرد تھے جو سِن میں استاد کے باپ تو کیا بلکہ دادا کی عمروں کے تھے- ایک عبد الرحمٰن خاں سوزاںؔ جن کی عمر ٨٨ برس تھی اور دوسرے تھے ریوتی پرشاد داناؔ جن کی عمر ٩٢ برس کی تھی-

استاد کے علاقے میں اسکول و کالج نہ ہونے کی وجہ سے جناب نے عربی، فارسی اور اردو کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ جناب نے دس سال کی عمر ہی میں موزوں اشعار کہنا شروع کر دیے تھے۔ آواز میں غضب کا درد تھا۔ رفتہ رفتہ مشقِ سخن کے ساتھ ساتھ جناب کی شہرت قصبہ جلالی کی حدود سے نکل کر علی گڑھ اور گرد و نواح میں پھیل گئی۔ صرف بائیس سال کی عمر میں جناب کو "استاد" کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔[1]

معاشی بدحالی[ترمیم]

کم عمری میں ہی قمر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے ان کی شہرت جلال سے نکل کر علی گڑھ پہنچی اور علی گڑھ سے ملک کے دوسرے حصوں میں۔ وہ جلال سے نکل کر میرٹھ چلے گئے اور ایک سائیکل مرمت کی دکان میں میں کام کرنے لگے۔ 24 سال کی عمر میں ہی انھوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے لیکن وہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے البتہ جب علامہ رشید ترابی کو پتا چلا کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر کراچی کی ایک سائیکل کی دکان پر پنکچر لگاتا ہے تو انھوں نے ان کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے ان کا وظیفہ مقرر کروایا۔

شاعرانہ دور[ترمیم]

تقسیمِ ہند کے بعد 11 ستمبر سن ١٩4٧ میں پاکستان تشریف لے آئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی لیکن یہاں بھی ان کے معاشی حالات ویسے ہی رہے-

تین ہٹی سے لیاقت آباد جاتے ہوئے، چورنگی نمبر ایک سے پہلے داہنی طرف ایک جامع مسجد واقع ہے- اس مسجد کی گلی میں بائیں جانب دکانوں کی ایک قطار ہے- اس قطار میں پانچویں دکان میں آج سے تقریباٙٙ ساٹھ، پینسٹھ سال قبل سائیکلوں کی مرمّت ہوا کرتی تھی اور مرمّت کرنے والے برِ صغیر کے مشہور معروف شاعر استاد قمر جلالوی تھے- المختصر جب سن ١٩5٩ میں حضرت علامہ رشید ترابی اعلی اللہ مقامہُ کو علم ہوا کہ قمر جلالوی جیسا باکمال شاعر کراچی کی ایک سائیکل کی دکان پر پنکچر لگاتا ہے تو انھوں نے استاد کو بلا کر اپنے پاس رکھا اور پاکستانی حکومت سے جناب کا وظیفہ بھی مقرر کروایا۔ ڈیڑھ سو روپے وظیفہ مقرر ہوا جو تا حیات ملتا رہا۔ البتہ بہت سے گلوگاروں نے جناب کے کلام سے لاکھوں کمائے-

اب استاد جب ترابی صاحب قبلہ کے پاس ان کے دولت کدے بلاک بیس سادات کالونی فیڈرل بی ایریا المعروف انچولی آگئے تو منظر نامہ کچھ تھا کہ یہاں بھی شام ہوتے ہی جناب کی خدمت میں اصلاح لینے والے شاگرد جمع ہوجاتے یا کسی مشاعرے کے منتظمین کی بھیجی ہوئی گاڑی آجاتی اور سب مشاعرے کو چل دیتے۔ لیکن اکثر یہ ہوتا کہ لوگ جناب کو مشاعرے کی دعوت دیا کرتے تھے مگر کوئی ہدیہ نہیں دیتے تھے اور استاد اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہدیہ مانگتے بھی نہیں تھے سو علامہ رشید ترابی صاحب وبلہ نے اس بات کو محسوس کیا کہ لوگ استاد کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو علامہ صاحب قبلہ نے یہ انتظام کیا کہ استاد کو کہا کہ جب آپ کے پاس کوئی مشاعرے کی دعوت دینے آئے تو آپ ان سے کہئے گا کہ علامہ ترابی کے پاس میرا شیڈول ہے وہ بتائیں گے کہ اس دن میری مصروفیت ہے کہ نہیں اور جب لوگ علامہ سے پوچھتے تو وہ ڈائری میں دیکھ کر بتایا کرتے تھے اور ساتھ میں دعوت دینے والے سے یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ استاد کا مشاعرے میں شرکت کا ہدیہ کتنا ہوگا اور پیشگی دے کر جائیں- اس طرح استاد قمر جلالوی کی کچھ آمدنی شروع ہو گئی اور حالات بہتر نظر آنے لگے اور جناب پرانی شیروانی کی جگہ نئی شیروانی زیب تن کرنے لگے-[1]

استادی[ترمیم]

اپنی قادر الکلامی کے سبب وہ 30 برس کی عمر میں ہی استاد قمر جلالوی کہے جانے لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ لفظ ان کے نام کا جزو بن گیا۔ انھوں نے بہت سے شعرا کے کلام پر اصلاح دی لیکن اپنے کلام کی اشاعت سے بے نیاز رہے۔ وہ بہت خوددار طبیعت کے مالک تھے اس لیے کبھی انہو ں نے کسی کے سامنے دامنِ طلب دراز نہیں کیا اور شاید یہی وجہ رہی کہ ان کی زندگی میں ان کے مجموعہٴ کلام کی اشاعت تک نہیں ہو سکی۔ بعد میں ان کی صاحبزادی کنیز جلالوی نے جو کلام انھیں مل سکا اسے جمع کر کے شائع کروا دیا۔ جو ’رشک قمر‘، ’اوجِ قمر‘ اور ’تجلیاتِ قمر‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن یہ مکمل کلام نہیں ہے کیوں کہ استاد قمر جلالوی کی غزلیں ان کے مداحوں اور شاگردوں نے اڑا لی تھیں۔ جو اپنے نام سے مشاعروں میں پڑھتے تھے اور بہت سا کلام دوسرے شعرا کے نام سے شائع بھی ہو گیا۔ استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انھوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ہیں۔ جنہیں ”غم جاوداں“ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔


سن ١٩٦٠ میں نشتر پارک میں ہونے والے جشن عید میلاد النبیؐ میں جس کے سرپرست حضرت علامہ رشید ترابی اعلی اللہ مقامہُ تھے- استاد نے اپنا کلام پیش فرمایا اور قبلِ نعت دو شعر پڑھے جو اتنے مقبول ہوئے کہ بعد میں ریڈیو پاکستان سے انھیں اشعار سے جناب کا تعروف کروایا گیا اور بار بار کروایا گیا- اور وہ اشعار یہ تھے،

بزم کی خاص خبر عام ہوئی جاتی ہےدوستی باعثِ دُشنام ہوئی جاتی ہے
مردہ پروانوں کو پہلو سے اٹھا لو آکرشمع معصوم ہے بدنام ہوئی جاتی ہے

مشہور ہے ان اشعار کو سننے کے بعد جناب کے معروف شاگرد جناب اعجازؔ رحمانی نے استاد سے فرمایا "استاد میں ان اشعار کا مطلب سمجھ گیا" جس پر استاد نے جواباٙٙ فرمایا تھا- "تم کو سمجھنا بھی چاہیے کیونکہ تم میرے شاگرد ہو-"[1]

تبرا[ترمیم]

استاد نے جس سلیقے سے تبرا کیا ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے-

کبھی جناب کہتے ہیں ؎

جب بھی اٹھے گا نبیؐ کی جانشینی کا سوالفیصلہ ہوگا شبِ ہجرت کا بستر دیکھ کر

کبھی اس لہجے میں کہتے ہیں ؎

خیبر کا در ہوا تھا یہ اک اک سے کہہ کے بند تم سے بہت سے مرگئے سر مار مار کے

کبھی اس سلیقے سے گفتگو کرتے ہیں ؎

غدیرِ خم میں سب اپنے ہیں کوئی غیر نہیں بہت قریب کے رشتے مگر ضمیر کی بات

کبھی استیارے کو اس منزل پر لے جاکر شعر کہتے ہیں کہ زبان اور بیان دونوں کو لطف ملتا ہے

نتیجہ کیا قمرؔ ایسی فلک نشینی سے سمجھ سکے نہ ستارے مئہ منیر کی بات


جناب کی غزل کی شاعری پر میں کیا گفتگو کرسکتا ہوں ایک عالم جس کا اثیر ہے-

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

[1]

غزل[ترمیم]

ے عشقِ مجازی کے میدان میں جس طرح غزل کا حق ادا کیا اس سے بھی احباب بخوبی واقف ہیں-

لیکن عشقِ حقیقی کے معاملے میں جناب نے جو خیرات آلِ محمدؐ سے حاصل کی وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے-

جناب کی ایک حمد احباب کی نذر ہے، اس حمد کا مقطع زبان زدِ عام ہے


سن سن کے مجھ سے وصف ترے اختیار کا دل کانپتا ہے گردشِ لیل و نہار کا
لٙا رٙیب لٙا شریک شہنشاہِ کُل ہے تُو سر خم ہے تیرے در پہ ہر اک تاجدار کا
محمود تیری ذات، محمدؐ ترا رسول رکھا ہے نام چھانٹ کے مختارِ کار کا
ہوتا نہیں جو حکم ترا صید کے لیے صیّاد چھوڑ دیتا ہے پیچھا شکار کا
بنوا کے باغِ خلد ترے حکم کے بغیر شدّاد منہ نہ دیکھنے پایا بہار کا
جاتی ہے تیرے کہنے سے گلزار سے خزاں آتا ہے تیرے حکم سے موسم بہار کا
رزّاق تجھ کو مذہب و ملت سے کیا غرض خالق تو ہی ہے کافر و ایماندار کا
کہنا پڑے گا لاکھ عبادت گزار ہو بندہ گناہ گار ہے پروردگار کا
منزل تو شے ہے دوسری لاکھوں گذر گئے اب تک پتہ چلا نہ تری رہگزار کا
پایا جو پھل تو شاخِ ثمر دار جھک گئی کہتی ہوئی کہ شکر ہے پروردگار کا
دے کر عروج اخترِ قسمت کو ائے قمرؔ مالک بنادیا تجھے شب کی بہار کا

[1]

مرثیہ گوئی[ترمیم]

جناب نے مرثیہ گوئی بھی فرمائی ہے، مناقب و سلام نگاری کی طرح جناب کی مرثیہ نگاری بھی اپنا منفر رنگ رکھتے ہیں- جناب نے مختصر مراثی تخلیق فرمائیں ہیں لیکن کمال تخلیق فرمائیں-

میں نے ایک خواب میں ایسے بھی شرف پائے ہیں مجھ کو مجلس کے لیے لوگ بلا لائے ہیں
ائے قمرؔ مجھ سے یہ فرماتے ہیں چودہ معصومؐ پم ترا مرثیہ سننے کے لیے آئے ہیں
میرء لیے تکلیف وہ فرماتے ہیں آ آ کے مجھے خواب میں سمجھاتے ہیں
تم مرثیہ پڑھنے کو جہاں جاتے ہو ہم مرثیہ سُننے کو وہاں جاتے ہیں

جناب کے دس مرثیے

  • ؎ جب فتح ملکِ شب کو کیا آفتاب بے
  • ؎ آمد ہے ابنِ حیدرِؐ کردوں وقار کی
  • ؎ خدا پسر دے تو دے بنتِ مرتضیٰؐ کی طرح
  • ؎ جب دشتِ کربلا میں اذانِ سحر ہوئی
  • ؎ قیامِ گلشنِ عالم میں جب ظہور ہوا
  • ؎ جب ہم شبیہِ خاتمِ مُرسلؐ جواں ہوا
  • ؎ روشن ہوا جو بامِ فلک پر چراغِ شب
  • ؎ خواب میں حضرتِ زہراؐ کو جو حرؑ نے دیکھا
  • ؎ مسند آرائے فلک جب شبِ عاشور ہوئی

جناب کو مرثیے میں خوبصورتی کے ساتھ "ساقی نامہ" نظم کرنے میں کمال حاصل تھا-[1]

مثنوی[ترمیم]

جناب نے امام باڑہ حصار جلالی المعروف چھوٹا امام باڑہ کے تاریخی حالات اور پس منظر ایک مثنوی کی صورت میں نظم فرمائے ہیں- یہ مثنوی علامہ ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی اعلی اللہ مقامہُ کے کتب خانے میں استاد کے قلمی نسخے کی شکل میں موجود تھی، احباب کی نذر ہے

جوشِ عشقِ شئہ مظلوم عیاں کرتا ہوں اس عزاخانہ کے حالات بیاں کرتا ہوں

پیش کرتا ہوں حقیقت کی بناکر تصویر سب سے پہلے یہ عزاخانہ ہوا ہے تعمیر

اب بھی موجود ہیں شاہانِ اودھ کے اسناد اہلِ تاریخ نے اس طرح لکھی ہے روداد

فرخ آباد سے اُٹھا جو نزاعی شعلہ لے کے لشکر چلے نواب شجاع الدولہ

سپہ سالار مظفرؔ بھی تھے ہمراہِ سفر اور وزیروں میں اک الماسؔ علی نیک سیر[1]

گلوکاروں کا شاعر[ترمیم]

قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں فکر کی شدت کم ہے اور زبان کا ذائقہ بہت زیادہ۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہند و پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔ بلکہ ان کی کچھ غزلوں کو پاکستان کے کئی گلو کاروں اور قوالوں نے صدا بند کیا ہے۔ قمر جلالوی کی چند گائی جانے والی غزلیں بے حد مشہور ہوئیں:

  • کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔ حبیب ولی محمد، منی بیگم
  • مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے ۔۔۔ منی بیگم
  • میرا خاموش رہ کر بھی انھیں سب کچھ سنا دینا ۔۔۔ عابدہ پروین
  • کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو ۔۔۔ نورجہاں
  • آئے ہیں وہ مزار پہ ۔۔۔ صابری برادران

کتب[ترمیم]

ہ کلاسیکی روایت کے آخری مقبول شاعر تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے قدر دانوں نے ان کی حسب ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’عقیدتِ جاوداں‘ (سلام اور مراثی کا مجموعہ)، ’رشکِ قمر‘، ’روحِ قمر‘، ’غمِ جاوداں‘، ’اوجِ قمر‘۔ [2] ان کی درج ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں:

  1. رشکِ قمر
  2. اوج ِ قمر
  3. تجلیاتِ قمر
  4. غمِ جاوداں

اجمالی جائزہ[ترمیم]

اردور کے نقاد اور شاعراحمد سہیل نے قمر جلالوی کے متعلق لکھا ہے ،" قمرجلالوی کلاسیکی اردو غزل کے بہتریں کلاسیکل شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی غزل شاعری اظہار اور حسیت کے منفرد شاعر ہیں۔آٹھ سال کی عمر میں اشعار کہنا شروع کیے۔ بیس (٢٠) سال کی عمر میں ان کی شاعری کی دھوم مچ چکی تھی اور وہ ایک مقبول شاعر بن گے۔.۔ 24 سال کی عمر میں ہی انھوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ یہیں سے لفظ استاد ان کے نام کا سابقہ بن گیا اور کیا چھوٹے کیا بڑے‘ سبھی انھیں استاد کہنے لگے۔جلالی اور علی گڑھ کے اکثر نوجوان اور شعرا انھیں اپنا کلام دکھانے لگے تھے لیکن وہ خود تشنگی سی محسوس کرتے تھے اور اسی لگن نے انھیں اس وقت کے مشہور استاد اور پختہ کار شاعر امیر مینائی اور سیماب اکبر آبادی سے وابستہ کر دیا۔ قمر جلالوی کا نکاح 1929ء میں محترمہ کنیزہ سیدہ سے ہوا جن کے بطن سے ان کی صرف ایک بیٹی کنیز فاطمہ ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد آپ 11، ستمبر 1947ء کو پاکستان تشریف لے آئے۔بہت جلد ہر مشاعرے کا جزو لازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنؤ دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی، شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے، سلام، منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کے سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔استاد قمرؔ جلالوی اپنے وقت کی عہد آفرین شخصیت رہے… حبِ اہلِ بیت علیہما السلام میں ڈوبی آپ کی اردو شاعری رہتی دنیا تک آ پکا نام زندہ رکھے گی…

خطیبِ شامِ غریباں حضرتِ مفتی علامہ نصیر الاجتہادی نے قمر جلالوی کی شاعری پر کیا شاندار تبصرہ کیا کہ

استاد قمر جلالوی کی شاعری "مرگ پسر پر کس طرح صبر ہوتا ہے" اور "محراب خنجر کے نیچے کس طرح شکر ہوتا ہے" کی تفسیر ہے ۔

 
مرتضی' کو خانہ زاد رب اکبر دیکھ کربیاہ دی بیٹی پیمّبرۖ نے بڑا گھر دیکھ کر
جب بھی اٹھے گا نبی کی جانشینی کا سوالفیصلہ ہوگا شب ہجرت کا بستر دیکھ کر
وہ تو یوں کہیے کہ آپہنچے مدینے سے علیورنہ لوٹ آۓ بہت سے باب خیبر دیکھ کر
ہوتے ہوں گے کنج مرقد میں فرشتوں کے سوالہم سے تو کچھ بھی نہ پوچھا شکل حیدر دیکھ کر
زوج زہرا کا پتا معلوم تھا ورنہ قمرعرش سے آتا ستارہ سینکڑوں گھر دیکھ کر

شاگرد[ترمیم]

برصغیر پاک و ہند میں یوں تو جناب کے بے شمار شاگرد تھے- لیکن جناب کے معروف شاگردوں میں ہندوستان میں جناب خورشید علی خورشیدؔ، جناب سجاد حسین ہدفؔ، جناب کرشن پرشاد بہارؔ، جناب راج بہادر اوجؔ، جناب راج نرائن ساجدؔ، ٹھاکر کرن سنگھ کرنؔ اور پاکستان میں جناب ایازؔ بجنوری، جناب پرنمؔ الہ آبادی، جناب حافظؔ بریلوی، جناب فضاؔ جلالوی، جناب محشرؔ علیم، جناب مخمورؔ بھوپالی، جناب عطاء اللہ بخارؔ، جناب اعجازؔ رحمانی اور جناب سروؔر کانپوری نام شامل ہیں- شہید علامہ سید عرفان حیدر عابدی طاب ثراہ کی بھی استاد سے بہت قربت رہی ہے-[1]

وفات[ترمیم]

24 اکتوبر 1968ء کو کراچی 80 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ جناب کی نماز جنازہ جناب علامہ آغا مرزا مہدی پویا اعلی اللہ مقامہُ نے پڑھائی، جس میں علامہ رشید ترابی صاحب قبلہ سمیت بہت سے شعرا اور ذاکرینِ اہلبیتؐ نے شرکت فرمائی-

آغا مرتضیٰ پویا کے والد نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں علامہ رشید ترابی اور بہت سے شعرا نے شرکت کی۔ جناب کو کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا-


( ان کی لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کنندہ ہے )

ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریری
یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر
اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی

نمونہ کلام[ترمیم]

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
چمن میں برق نہیں چھوڑتی کسی صورت طرح طرح سے بناتا ہوں آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے حضور شمع نہ لا یا کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
دبا کے قبر میں سب چل دئے دعا نہ سلام ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
اب آگے اس میں تمھارا بھی نام آئے گا جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو

؎

کسی کا نام لو بے نام افسانے بہت سے ہیں نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
بنائے دے رہی ہیں اجنبی ناداریاں مجھ کو تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں

؎

بہاروں میں یہ بھی ستم دیکھتے ہیں کہ جلتا ہے گھر اور ہم دیکھتے ہیں
زمانے کو ان کے کرم دیکھتے ہیں مگر اپنی قسمت کو ہم دیکھتے ہیں

؎
تاروں کی بہاروں میں بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں
؎

چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے

؎ قمر اک دن سفر میں خود ہلالِ عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایام آجائے

؎ چاندنی کی سیر ان کے ساتھ یہ حسرتِ فضول
اے قمر نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے

؎ اے قمر صبح ہوئی اب تو اٹھو محفل سے
شمع گل ہو گئی رخصت ہوئے پروانے تک

سیر فلک کو بام پہ آئے وہ جو قمر
تاروں نے آسماں کو چراغاں بنا دیا

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح "شاعرِ اہلبیتؐ جناب سید محمد حسین عابدی متخلص قمرؔ المعروف استاد قمرؔ جلالوی"۔ فیس بک آفیشل پیج - Ustad Qamar Jalalvi۔ سید سلمان حیدر رضوی۔ 10-24-2022 
  2. پیمانۂ غزل(جلد اول)۔ صفحہ: 311  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت)