قومی لائحہ عمل پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قومی لائحہ عمل پاکستان ایک لائحہ عمل ہے جسے جنوری 2015 میں پاکستانی حکومت نے قانون کی شکل میں مرتب کیا تاکہ ملک میں جاری دہشتگری کا سدباب ایک منظم طریقے سے کیا جائے۔ اس لائحہ عمل کو ترتیب دینے میں پشاور اسکول حملے نے اور تقویت دی اس عمل کے تحت تمام صوبوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں اور سیاسی حکام کے روابط کو مضبوط کیا گیا اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ وسیع تر اور تیز کیا گیا۔ ملک کے تمام سیاسی اور عسکری قیادت نے قومی لائحہ عمل کی حمایت کی۔

پس منظر[ترمیم]

آرمی پبلک اسکول ،پشاور

16 دسمبر 2014 کو سات دہشت گردوں نے پاکستان کے شمالی مغربی میں واقع شہر پشاور پر زیرتعلیم طلبہ اور اساتذہ پر حملہ کیا۔ دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جا رہاہے جن میں 1 چیچن ،3 عرب اور 2 افغان باشندے تھے۔ دہشت گردوں نے اسکول میں داخل ہوکر اندھا دھن فائرنگ شروع کی جس میں 145 سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں سے 132 زیر تعلیم 8 سے 18 سال والے بچے اور باقی اسکول عملے کے افراد شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد نہ صرف پاکستان میں بلکہ بہت سے ممالک بشمول ترکی میں سوگ منایا گیا۔ واقعے کے فورا بعد پاک فوج کے اسپیشل سروس گروپ نے ساتوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور 960 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔

قیامِ لائحہ عمل[ترمیم]

واقعے کے بعد 24 دسمبر 2014 تک وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں تمام سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اب ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی اس لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، وزیر اعظم نے کہا:

ہمیں جلد از جلد قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کرنا ہے اور یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن وقت ہے ہم دہشت گردوں کا صفایہ کرکے رہیں گے

24 دسمبر کو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے قومی لائحہ عمل کے نکات سے قوم کو آگاہ کیا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق قومی لائحہ عمل میں تمام پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کرنے کے بعد مسودہ تیار کیا گیا جس میں ہر پارٹی نے تجاویز جمع کرادی۔

لائحہ عمل[ترمیم]

لائحہ عمل کے نکات درج ذیل ہیں:

  1. سانحہ پشاور کے بعد، حکومت نے دہشت گردی میں ملوث سزائے یافتہ مجرموں کی پھانسیوں پر عمل درآمد شروع کیا۔
  2. ماضی میں کمزور قوانین کے باعث مجرمان سزاؤں سے بچتے رہے لہذا فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹ (فوجی عدالتیں) قائم کیے جائے گے۔ ان خصوصی عدالتوں کی مدت 2 سال ہوگی ۔
  3. ملک بھر میں کسی قسم کی عسکری تنظیموں اور عسکری جتھوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
  4. انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنایا جا رہاہے۔
  5. نفرت انگیز تقاریر،دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے اخبارات ،میگزین اور اس طرح کے دیگر چیزوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی۔
  6. دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی مالی امداد کے راستے بند کیے جائے گے اور مالی طور پر دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
  7. کسی تنظیم پر پابندی کے بعد اس تنظیم کو کسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
  8. دہشت گردی کے خلاف اسپیشل فورس قائم کیا جائے گا۔
  9. مذہبی انتہا پسندی کو روکا اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا رہاہے۔
  10. دینی مدارس کے رجسٹریشن اور ضابطہ حدود کا اہتمام کیا جائے گا۔
  11. پرنٹ اور الیکٹرونک دونوں میڈیا پر دہشت گردوں کی نظریات کی تشریح کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔
  12. جنگ کے متاثرین کی بحال کو جلد از جلد یقینی بنایا جائے گا اور قبائلی علاقہ جات میں تنظیمی اصلاحات کیے جائیں گے۔
  13. دہشت گردوں کے معاشرتی نیٹورکس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
  14. انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت کی فروغ کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں گے۔
  15. ملک کے ہر حصے کے طرح پنجاب میں بھی انتہا پسندی کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی۔
  16. کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
  17. وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لیے تمام اسٹیک ہولڈر کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیارات دیے جائے گے۔
  18. فرقہ واریت کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہوگی۔
  19. افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی۔
  20. تمام صوبوں کے استخباراتی اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلات تک رسائی دی جائی گی۔

نفاذ[ترمیم]

قومی لائحہ عمل کے نفاذ کے لیے درجہ ذیل اقدامات کیے جاچکے ہیں:

  • 7 جنوری 2015، ایکسویں آئینی ترمیم پاس کیا گیا۔
  • دہشت گردی کے بڑے بڑے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے۔
  • 55,000 افغان باشندوں کو پاکستان سے نکال دیا گیا۔
  • سات سال پھانسیوں پر عائد پابندی کو ہٹا دیا گیا۔
  • مارچ 2015 تک 128 بڑے دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی۔
  • مارچ 2015 تک سیول اور خفیہ اداروں نے 150 مجرموں کو پکڑا۔
  • مارچ کے مہینے تک پاکستان بھر میں بے شمار کھاتوں کو روکا گیا جن میں 10.2 ارب سے زائد کی رقم دہشت گردوں تک پہنچ رہی تھی۔
  • تمام اسکولوں کے چاردیواریاں 8 فُٹ بلند کیے گئے اور ان دیواروں پر دو فُٹ اونچے خاردار تاریں نصب کیے گئے۔
  • ملک بھر میں پی ٹی اے نے 70 ملین سے زائد موبائل سیمز کی تصدیق کی اور جن کی تصدیق نہ ہو سکی ان پر پابندی لگائی گئی۔
  • 25 دسمبر 2014 سے 25 مارچ 2015 تک تقریبا 28,826 سے زائد آپریشنز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مختلف جرموں میں ملوث 32,347 افراد گرفتار کیے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]