لاپتہ افراد مقدمہ، پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لاپتہ افراد' مقدمہ ان افراد کو بازیاب کروانے کے لیے پاکستان کی عدالت اعظمی میں دائر کیا گیا جن کو 2001ء کی دہشت پر جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے پولیس، خفیہ اداروں اور ISI نے اغوا کر کے غیر قانونی طور پر مقید کیا ہوا تھا۔[1] ان میں سے بعض کو امریکا کے حوالے کر دیا گیا جن کی اکثریت افغانستان میں امریکی فوجی عقوبت خانوں میں قید ہے۔ پاکستان میں قید ہونے والوں سے بھی امریکی اہلکار تشدد اور پوچھ گچھ میں ملوث ہیں۔ امریکیوں کا بظاہر مقصد طالبان کے رہنماوں کا پتہ چلانا ہے۔[2]

اغوا کندگان کی کچھ تعداد بلوچستان کی قومیتی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے بارے میں خفیہ اداروں کو بیرونی ممالک کی شہہ پر وفاق کو نقصان پہنچانے کا شبہ ہے۔[3]

تحقیقاتی لجنہ[ترمیم]

لاپتہ افراد کے بارے تحقیق کرنے کے لیے عدالت اعظمی کے سابق منصف جاوید اقبال کی سربراہی میں لجنہ قائم کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد کے بارے میں بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ لاپتہ افراد کی کچھ تعداد بیرون ملک مقیم ہے۔[4][5]

عدالتی کارروائی 2013ء[ترمیم]

دسمبر 2013ء میں عدالت اعظمی نے دوران حراست ہلاک ہونے پر سرکاری اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔[6] عدالت نے سرحدی فوج بلوجستان کے سربراہ اعجاز شاہد کو عدالت میں نہ پیش ہونے پر توہین عدالت کا اعلامہ بھی جاری کیا۔[7] اس کارروائی میں عدالت نے ن-لیگی وزیر دفاع خواجہ آصف کو 35 لاپتہ افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں ہیں۔ یہ 35 افراد وہ ہیں جو مالاکنڈ نظربندی مرکز کے سربراہ عطااللہ کے بیان کے مطابق فوجی حکام نے بغیر قانونی کارروائی کے مالاکنڈ مرکز سے اپنی حراست میں لیے۔[8] وزارت دفاع نے لیت لعل سے کام لیتے ہوئے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا جن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی۔[9] عدالت منصف اعظم افتخار کی سربراہی میں منصف عامر ہانی مسلم اور منصف جواد خواجہ کر رہے ہیں۔ منصف اعظم افتخار 12 دسمبر 2013ء کو سبکدوش ہو گئے۔

عوامی رد عمل[ترمیم]

ماروائے عدالت گرفتاریوں پر عوامی احتجاج ہوا۔[10]

مزید[ترمیم]

2011ء میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے وزارت داخلہ کا جاری کردہ گوشوارہ پُر کیا جا سکتا ہے۔[11]

اندرونی روابط[ترمیم]

  1. روزنامہ ڈان، 18 مارچ 2010ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dawn.com (Error: unknown archive URL) "Lt. Col threatens SC lawyer in missing persons’ case "
  2. انڈپنڈنت، 18 مارچ 2010ء، آرکائیو شدہ 2010-03-27 بذریعہ Stanford Web Archive "Robert Fisk: Into the terrifying world of Pakistan's 'disappeared'"
  3. بی بی سی، 18 مارچ 2010ء، "’لاپتہ بلوچوں کے مقدمات درج کیے جائیں‘"
  4. "Foreign agencies behind missing persons: Justice Iqbal"۔ ڈان۔ 9 جون 2012ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. "بیرونی خفیہ ادارے بلوچستان کے حالات خراب کر رہے ہیں'"۔ بی بی سی اردو موقع۔ 9 جون 2012ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. "'تحویل میں ہلاک ہونے والوں کے قتل کے مقدمات درج کریں'"۔ بی بی سی۔ 2 دسمبر 2013ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  7. "SC issues contempt notice to IG (FC) Balochistan"۔ بزنس ریکارڈر۔ 5 دسمبر 2013ء 
  8. "Bearer of 'good news' asked to produce 14 detainees today"۔ ڈان۔ 6 دسمبر 2013ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  9. "'Secret' Pakistani prisoners appear before Supreme Court"۔ BBC۔ 17 دسمبر 2013ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  10. "Pain hardens resolve of families of missing persons"۔ ڈان۔ 16 فروری 2012ء۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2012 
  11. وزات داخلہ پاکستان[مردہ ربط]