لاہوت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لاہوت دراصل ”لا ہو الا ہو“ ہے اس میں ”لا“ نفی کا ہے یعنی افراد کے لیے تجلی صفات نہیں اور ”ہو“ اسم ذات ہے لہٰذا ”لا ہو الا ہو“ کا مطلب یہ ہے کہ افراد کے لیے تجلی صفات نہیں۔ بحر تجلی ذات (یعنی افراد کے لیے تجلی صفات نہیں ہے بلکہ تجلی ذات ہے) پس افراد کے لیے ہمیشہ مقام لاہوت یعنی تجلی ذات ہے اور لاہوت یعنی افراد کا مقام نہیں۔ کیونکہ یہ تمام حدود سے بالاتر ہے اور اس لفظ مقام سے جو بیان کیا جاتا ہے مقام مراد نہیں ہے مجازاً اسے مقام کہا جاتا ہے کہ یہ مقام لاہوت ہے۔[1]

اس سلسلہ میں شیخ عبدالرحمنٰ چشتی قدس سرہ اپنی تصنیف ”مرآۃ الاسرار“ میں لکھتے ہیں کہ

جب کوئی فنا فی الرسول یا فنا فی اللہ کے درجات حاصل کر لیتا ہے تو بعض اولیاء کرام کو تجلی افعالی نصیب ہوتی ہے۔ اور بعض کو تجلی اسماء اور بعض کو تجلی آثار حاصل ہوتی ہے۔ پس بعض مقام محو (ہوشیاری) میں ہوتے ہیں۔ بعض مقام سکر لاستغراق یا بے ہوشی، غشی، نشہ کی حالت میں ہوتے ہیں اور بعض دونوں میں یعنی کبھی محو اور سکر کی حالت میں ہوتے ہیں اور اولیائے کرام کے یہ مقامات عالم کثرت میں ہوتے لیکن اہل فردانیت کو ان مقامات سے باہر تجلی نصیب ہے اور فردانیت لامکاں ہے۔ یہ فردانیت جو اولیاء کو حاصل ہوئی ہے وہی مقام لاہوت میں گم ہونے کا نام ہے۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تعارف و تذکرہ لاہوت لامکاں۔ صفحہ 8
  2. مرآۃ الاسرار۔ باب لاہوت۔ تمام صفحات