لد
| |
---|---|
عبرانی نقل نگاری | |
• آئی ایس او 259 | Lodd |
ضلع | وسطی |
حکومت | |
• قسم | شہر |
• میئر | Yair Revivo |
رقبہ | |
• کل | 12,226 دونم (12.226 کلومیٹر2 یا 4.72 میل مربع) |
آبادی (2010) | |
• کل | 70,000 |
لُد (انگریزی: Lod) اسرائیل کا ایک City council جو سینٹر (ضد ابہام) میں واقع ہے۔[1] لُد کی مجموعی آبادی 70,000 افراد پر مشتمل ہے۔
تاریخ
[ترمیم]تاریخی اعتبار سے ’’لُد‘‘ ایک قدیم شہر ہے۔ یہاں پر 5250 سال قبل مسیح پرانے ظروف بھی پائے گئے ہیں، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں بھی یہاں آبادی موجود تھی۔ تاہم تاریخ میں اس کا سب سے پہلا ذکر 1500 قبل مسیح کی مصری تاریخ میں کیا گیا۔ تاریخ کے سفر کے دوران اس شہر پر کئی اقوام کا قبضہ رہا اور فاتحین نے اس کو کئی نام دیے۔ مختلف ادوار میں یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ 636 ء میں حضرت خالد بن ولید نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور اس کا نام ال۔ لُد رکھا گیا۔ بعد ازاں صلیبی جنگوں کے دوران یہ شہر مسلمانوں سے چھن گیا۔ یہ شہر برطانوی راج کا بھی حصہ رہا اور اس دوران اس کا نام تبدیل کرکے لِڈا رکھ دیا گیا۔ تاہم جب 1948ء میں اسرائیلیوں نے عربوں کو شکست دے کر اس شہر کو فتح کر لیا تو اس شہر کا نام ایک دفعہ پھر سے تبدیل کر دیا گیا اور اس کا پرانا یہودی نام لُد دے دیا گیا۔
موجودہ شہر
[ترمیم]موجودہ دور میں لُد اسرائیل کے دار الحکومت تل ابیب سے 15 کلومیٹر دور واقع شہر ہے۔ 2007ء کے اختتام پر یہاں کی آبادی کا اندازہ تقریباً 67,000 نفوس کا تھا، جس میں سے 80% یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ باقی ماندہ آبادی عربوں کی تھی، جس میں سے اکثریت مسلمانوں کی، جبکہ کچھ مسیحی بھی شامل تھے۔
ایئرپورٹ
[ترمیم]لُد شہر کی موجودہ اہمیت یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈے کی وجہ سے ہے۔ یہ ہوائی اڈا برطانوی راج کے دوران فوجی پروازوں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم 1948 ء میں اسرائیلی حکومت کے زیراستعمال آنے کے بعد سے یہ کمرشل، پرائیویٹ اور فوجی تینوں طرح کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹرین، بس یا کار کسی بھی ذریعے سے اس ہوائی اڈے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ایئرپورٹ کے چار ٹرمینل ہیں، جن میں سے تین استعمال میں ہیں جبکہ چوتھا ٹرمینل 1999ء میں تکمیل کے باوجود ابھی تک کھولا نہیں گیا ہے۔ اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پیش نظر یہاں سیکیورٹی کا بہت زیادہ انتظام کیا گیا ہے اور یہ دنیا کے محفوظ ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے۔
اسلامی ادب میں ذکر
[ترمیم]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے، دیکھا تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ نے دجال کا ذکر اس طرح فرمایا کہ اس غم میں مجھے بے ساختہ رونا آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر وہ نکلا اور میں اس وقت موجود ہوا تو تمھاری طرف سے اس سے نمٹ لوں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلا تو پھر یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا پروردگار کانا نہیں ہے (جبکہ دجال وہ کانا ہوگا)۔ جب وہ نکلے گا تو اس کے ساتھی اصفہان کے یہود ہوں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ مدینہ آئے گا تو وہاں ایک طرف آ کر اترے گا، اس وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازہ پر دو دو فرشتے نگران ہوں گے (جو اس کے اندر آنے سے مانع ہوں گے)۔ مدینہ میں جو بداعمال آباد ہیں وہ نکل کر خود اس کے پاس چلے جائیں گے۔ اس کے بعد وہ فلسطین میں بابِ لُد پر آئے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام نزول فرما چکے ہوں گے اوریہاں وہ اس کو قتل کریں گے، پھر عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک ایک منصف امام کی حیثیت سے زمین پر زندہ رہیں گے۔[2]
آج سے 1400 سال قبل اس حدیث کے بیان کے وقت ’’لُد‘‘ کے مقام پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں دجال کے اس مقام پر قتل کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ تاہم مسلمان کئی صدیوں تک بابِ لُد کی اہمیت جاننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
لُد شہر کی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد 1400 سال پہلے بیان کی گئی حدیث میں متذکر بابِ لُد کی اہمیت کی وجہ واضح ہوتی ہے، یعنی یہاں موجود بین الاقوامی ہوائی اڈا۔ حدیث کی وضاحت کے تناظر میں ایک زاویہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے لڑائی کے دوران دجال پسپا ہو کرکسی ہمدرد مغربی ملک کی طرف بھاگنے کی کوشش کرے اور اس کے لیے اسے ہوائی اڈے کا رخ کرے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو زمین پر فتنہ دجال کا خاتمہ کرنے کے لیے اتارے گئے ہوں گے وہ اسے بھاگنے سے پہلے ہی پکڑ لیں گے اور قتل کر دیں گے۔ یوں دنیا سے دجال کا خاتمہ ہو جائے گا اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]ویکی ذخائر پر لد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |