لندن میں مذہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لندن میں مذہب (2011)[1]

  مسیحیت (48.4%)
  لادینیت (20.7%)
  اسلام (12.4%)
  غیر علانیہ (8.6%)
  ہندو مت (5%)
  یہودیت (1.8%)
  سکھ مت (1.5%)
  بدھ مت (1%)
  دیگر مذاہب (0.6%)

لندن متعدد عقائد کی عبادت کا مرکز ہے۔ مملکت متحدہ کی مردم شماری 2011ء کے مطابق سب سے بڑی مذہبی جماعت مسیحی (48.4 فیصد) ہیں، جس کے بعد لادینیت (20.7 فیصد)، کوئی جواب نہیں (8.5 فیصد)، مسلمان (12.4 فیصد)، ہندو (5.0 فیصد)، یہودی (1.8 فیصد)، سکھ (1.5 فیصد)، بدھ (1.0 فیصد) اور دیگر (0.6 فیصد)۔ [1]

تقسیم[ترمیم]

2011ء کی مردم شماری کے مطابق گریٹر لندن میں مذاہب کی تقسیم
مسیحیت
اسلام
یہودیت
ہندو مت
سکھ مت
بدھ مت
دیگر مذہب
دیگر مذہب 
لادینیت

لندن میں اسلام[ترمیم]

مملکت متحدہ کی مردم شماری 2011ء کے مطابق لندن عظمیٰ کے علاقے میں 1,012,823 مسلمان آبادی ہے۔[1] 2011ء کی مردم شماری کے مطابق دفتر قومی شماریات، لندن میں مسلمانوں کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ جو اب لندن کی آبادی کا 12.4% ہے۔ لندن کے بورو میں لندن بورو نیوہیم اور لندن بورو ٹاور ہیملٹس، مسلمانوں کی شرح 30 فیصد سے زیادہ تھی۔

لندن میں آباد ہونے والے پہلے مسلمان لیسکر (لشکر (دیسی ملاحوں کے لیے استعمال ہونے والا لفظ) تھے، یعنی 19 ویں صدی کے بنگالی اور یمنی ملاح۔ برصغیر سے بہت سے مسلمانوں نے برطانوی فوجاور برطانوی ہندی فوج کی طرف سے پہلیاور دوسری جنگ عظیم شرکت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہجرت کی لہر میں، بہت سے مسلمان ان دولت مشترکہ ممالک اور سابقہ کالونیوں سے برطانیہ ہجرت کر گئے۔ تقسیم ہند کے بعد، بہت سے لوگ پاکستان سے آئے خاص طور پر پنجاب اور آزاد کشمیر سے اور بھارتی ریاست گجرات سے۔ 1950ء اور 60 کی دہائی کی ہجرت کی اس ابتدائی لہر کے بعد قبرص، سلہٹ بنگلہ دیش، سابقہ مشرقی پاکستان سے نقل ہجرت کی گئی۔بہت سے مسلمان مختلف دوسرے ممالک سے بھی پہنچے، حالاں کہ یہ تعداد جنوبی ایشیا سے بہت کم ہے۔دوسرے ممالک کے مسلمانوں میں، یمن، صومالیہ اور ترکی کے مسلمانوں کی خاصی تعداد ہے، جبکہ ملائیشیا، نائیجیریا، گھانا اور کینیا کے مسلمان چھوٹی برادریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔آج، لندن کے مسلمان دنیا بھر سے آتے ہیں اور ایک چھوٹا گروہ بہر حال تبدیلی مذہب سے مسلمان ہونے والوں کا بھی ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ "2011 Census: KS209EW Religion, local authorities in England and Wales"۔ ons.gov.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2012