لوگ کیا کہیں گے
لوگ کیا کہیں گے | |
---|---|
![]() | |
ہدایت کار | ارم حق |
پروڈیوسر | Maria Ekerhovd (ماریہ ایکیرہوود) |
تحریر | ارم حق |
ستارے |
|
موسیقی |
|
ایڈیٹر |
|
پروڈکشن کمپنی |
|
تاریخ نمائش |
|
دورانیہ | 106 منٹ |
ملک |
|
زبان |
|
لوگ کیا کہیں گے (انگریزی: What Will People Say) (نارویجین: Hva vil folk si) ایک 2017 کی بین الاقوامی طور پر مشترکہ طور پر بنائی گئی ڈراما فلم ہے جسے ارم حق نے تحریر اور ہدایت دی ہے۔ اس فلم میں دکھائے گئے پاکستان کے تمام مناظر بھارت میں فلمائے گئے، جو زیادہ تر راجستھان کے مختلف مقامات پر شوٹ کیے گئے۔[1]
اس فلم کا عالمی پریمیئر 9 ستمبر 2017ء کو 42ویں ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوا۔ اسے 91ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے لیے ناروے کی سرکاری نامزدگی کے طور پر منتخب کیا گیا تھا، تاہم یہ فلم نامزد نہیں ہو سکی۔[2][3][4]
ثقافتی پس منظر
[ترمیم]"لوگ کیا کہیں گے؟" — یہ ایک عام مگر خطرناک جملہ ہے جو اکثر ایشیائی معاشروں، بالخصوص مسلمان برادریوں میں لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ یہ صرف ایک سوال نہیں بلکہ ایک خاموش سماجی ضابطہ ہے، جو فرد کی خود مختاری، آزادیِ رائے اور ذاتی انتخاب کو محدود کر دیتا ہے۔ یہ جملہ ایسے سماجی دباؤ کی نمائندگی کرتا ہے جو انسان کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کی بجائے معاشرے کے طے کردہ سانچوں میں ڈھالنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
ہمارے معاشروں میں ایک فرد کا ہر قدم — خواہ وہ تعلیم کا انتخاب ہو، کیریئر کا فیصلہ ہو، شادی کا معاملہ ہو یا لباس کا انتخاب — سب کچھ اس بنیاد پر جانچا جاتا ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا معاشرہ ایک جج بن کر ہر عمل کا فیصلہ سنانے کو تیار بیٹھا ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے یہ جملہ ایک قید بن جاتا ہے، جہاں ان کی ہر حرکت خاندان کی عزت اور وقار سے جوڑ دی جاتی ہے۔
اکثر مسلمان معاشروں میں "لوگ کیا کہیں گے؟" کی بنیاد مذہب سے نہیں، بلکہ ثقافتی روایات سے جڑی ہوتی ہے۔ اسلام خود کسی فرد کو بے جا پابندیوں میں جکڑنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ قرآن کریم میں بارہا غور و فکر، خود احتسابی اور انفرادی فیصلوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ کچھ معاشرتی روایات کو مذہب کا لبادہ اڑھا دیا جاتا ہے تاکہ افراد، خاص طور پر نوجوانوں اور عورتوں، کو قابو میں رکھا جا سکے۔
اس سماجی دباؤ کا اثر صرف ظاہری نہیں بلکہ ذہنی و جذباتی طور پر بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ لوگ اپنی مرضی کے خواب، خواہشات اور زندگی کے مقاصد کو صرف اس خوف سے ترک کر دیتے ہیں کہ "لوگ کیا کہیں گے؟"۔ نتیجتاً ذہنی دباؤ، احساسِ کمتری اور خودی کی پہچان کھو بیٹھنا عام ہو جاتا ہے۔ ان مسائل پر بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، جس سے صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔
جدید دور کی تیزی سے رو نما ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر وقت آ گیا ہے کہ اس جملے کی زنجیروں کو توڑا جائے۔ آج کا نوجوان، خاص طور پر غیر ملکی تارکین وطن جو اجنی ماحول میں رہنے والے ہیں، وہ ان پابندیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، ادب، فلم اور عوامی مکالمے کے ذریعے لوگ اپنی شناخت، آزادی اور ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں۔
معاشرے کو چاہیے کہ وہ "لوگ کیا کہیں گے؟" کی بجائے "فرد کیا محسوس کرتا ہے؟" کو اہمیت دے۔ عزت صرف معاشرے کو خوش رکھنے میں نہیں بلکہ سچائی اور خودی کے ساتھ جینے میں ہے۔
"لوگ کیا کہیں گے؟" بظاہر ایک معمولی جملہ ہے، مگر اس کے اثرات انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خوف ہے جو فرد کی شخصیت، خواب اور خود مختاری کو کچل دیتا ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو تبدیل نہیں کرتے، ہم ایک آزاد، بامعنی اور خوش حال معاشرے کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ یہ فلم اسی تصور کو فلمی پردے پر دکھانے کی کوشش ہے جو ہدایت کی خود کی ذاتی کہانی اور ناخوش گوار تجربوں پر مبنی ہے۔
کہانی
[ترمیم]"لوگ کیا کہیں گے" ایک نارویجین - پاکستانی لڑکی نِشا کی کہانی ہے، جو دوہری زندگی گزار رہی ہے۔ ناروے میں اپنے گھر پر وہ ایک روایتی، شریف اور فرماں بردار بیٹی ہے، لیکن باہر کی دنیا میں وہ ایک نارویجین لڑکیوں کی طرح جیتتی ہے — وہ پارٹی کرتی ہے، دوستوں کے ساتھ گھومتی ہے اور ایک نارویجین لڑکے ڈینیئل سے بوائے فرینڈ جیسا تعلق رکھتی ہے۔
ایک رات اس کا باپ مرزا اسے ڈینیئل کے ساتھ اسے اس کے کمرے میں دیکھ لیتا ہے اور طیش میں آ کر تشدد پر آمادہ ہوتا ہے۔ بات پولیس تک پہنچتی ہے اور نشا کو بچوں کے فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ معاشرتی دباؤ اور "عزت" بچانے کے لیے مرزا نشا کو زبردستی پاکستان لے جا کر اپنی بہن کے گھر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ "ٹھیک" ہو جائے۔
پاکستان میں نشا کا پاسپورٹ جلا دیا جاتا ہے اور اسے مکمل طور پر قید جیسی زندگی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ وہاں رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ اپنے رشتوں کے بھائی عامر کے ساتھ رشتہ بنا لیتی ہے۔ ایک رات وہ دونوں پکڑے جاتے ہیں اور پولیس ان کے ساتھ نہایت ہتک آمیز سلوک کرتی ہے۔
مرزا دوبارہ پاکستان آتا ہے، مگر صورت حال بگڑ چکی ہوتی ہے۔ وہ نشا کو واپس ناروے لے جاتا ہے، جہاں اس کی زندگی پہلے سے زیادہ قید و بند کے ماحول پر مبنی ہو جاتی ہے۔ والدین اس پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اور آخر کار اس کی شادی ایک پاکستانی لڑکے سے طے کر دیتے ہیں۔
لیکن نشا جو اب تک بہت کچھ برداشت کر چکی ہے، آخرکار ہمت کرتی ہے اور گھر سے فرار ہو جاتی ہے۔ جاتے جاتے وہ اپنے باپ کو آخری بار دیکھتی ہے، جو خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لیے اسے جاتا ہوا دیکھتا ہے — نہ روکتا ہے، نہ کچھ کہتا ہے۔
اداکاروں کی فہرست
[ترمیم]- ماریا موژداہ بطور نشا (مرکزی کردار، نارویجین - پاکستانی لڑکی)
- عادل حسین بطور مرزا (نشا کے والد)
- ایکاولی کھنہ بطور نجمہ (نشا کی ماں)
- روہت سریش سراف بطور عامر (نشا کا کزن / رشتوں کا بھائی، جس کے وہ جذباتی طور پر قریب آنے لگی تھی۔)
- علی عرفان بطور آصف (نشا کا بڑا بھائی)
- شیبا چڈھا بطور نشا کی پھوپھی (مرزا کی بہن)
- جنت زبیر رحمانی بطور سلیمہ (نشا کی رشتوں کی بہن) (یہ بجائے خود اداکاری، ماڈل اور سماجی میڈیا کی اثر انداز ییا انفلوئینسر ہیں)
- للِت پریمو بطور (نشا کے ماموں)
- فرو جعفر بطور نشا کی دادی / مرزا کی ماں [حوالہ درکار]
ناقدین کی رائے اور پزیرائی (Reception)
[ترمیم]فلم کو بین الاقوامی سطح پر مجموعی طور پر مثبت تبصرے موصول ہوئے۔
مشہور فلمی تجزیاتی ویب گاہ راٹن ٹوماٹوز (Rotten Tomatoes) پر فلم کو 78 فیصد منظوری حاصل ہے، جو 41 تجزیوں پر مبنی ہے۔ فلم کی اوسط درجہ بندی 7/10 رہی۔
ویب گاہ پر ناقدین کی متفقہ رائے کچھ یوں ہے:
"لوگ کیا کہیں گے؟ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ادارہ جاتی صنفی امتیاز کی شروعات گھر سے ہوتی ہے — اور اس کے نتائج جتنے طاقتور ہوتے ہیں، اتنے ہی دیکھنے میں کٹھن بھی۔"[5]
ایک اور معروف ویب گاہ میٹا کریٹیک (Metacritic( نے فلم کو 69 از 100 کا اوسط اسکور دیا، جو 15 ناقدین کے تجزیوں پر مبنی ہے۔ اس اسکور کو "عمومی طور پر مثبت آراء" (Generally favorable reviews) کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔[6]
تبصرے
[ترمیم]- فرسٹ پوسٹ میں اودیتا جھن جھن والا کے مطابق یہ فلم اپنے ابتدائی منظر سے لے کر آخری فریم تک ایک مسلسل تناؤ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ نشا کے لیے دل دکھتا ہے اور ناظر بے چینی سے اگلے سانحے کا انتظار کرتا ہے، دعا کرتا ہے کہ وہ دوبارہ وہی غلطیاں نہ دہرائے۔ ایک خاص طور پر دل دہلا دینے والا منظر پاکستانی پولیس کے ساتھ ہے، جسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ اسکرین میں گھس کر نشا کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ یہ فلم ایک طاقتور کہانی ہے جس کا پس منظر بے حد حقیقی محسوس ہوتا ہے (اگرچہ پاکستان کی جگہ فلم کی عکس بندی راجستھان میں ہوئی ہے)۔ موزدہ نے نیشہ کے مختلف رنگوں کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے — باغی، فرماں بردار بیٹی، نادان لڑکی، دبی ہوئی اور دھوکا کھائی ہوئی بیٹی اور الجھی ہوئی نوجوان۔ حسین نے ایک ایسے باپ کے جذباتی اتار چڑھاؤ کو عمدگی سے دکھایا ہے جو محبت، فرض اور مایوسی کے بیچ جھول رہا ہے۔ یہ فلم مہاجر خاندانوں پر ایک گہرا اور دل توڑ دینے والا تبصرہ ہے — وہ خاندان جو اپنے بچوں کو غیر ملکی ثقافت میں پروان چڑھاتے ہیں لیکن پھر بھی روایات کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے ہیں۔[7]
- ییدییو ڈاٹ کام کے مطابق ماریہ موژدہ نے نشا کے کردار میں ایک متاثر کن اداکاری پیش کی ہے، جو اس کے اندرونی انتشار اور جذباتی گہرائی کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرتی ہے۔ ادیل حسین بھی نیشہ کے والد کے کردار میں نہایت جاندار نظر آتے ہیں — ایک ایسا کردار جو ایک طرف محبت کرنے والا ہے اور دوسری طرف سخت گیر باپ کی جھلک بھی رکھتا ہے۔ ایکوالی کھنہ سمیت معاون اداکاروں نے بھی فلم کو ایک ثقافتی سچائی اور روایتوں کی گہرائی عطا کی ہے۔ مجموعی طور پر یہ فلم ایک طاقتور اور دل کو چھو لینے والا ڈراما ہے جو ثقافتی شناخت اور مہاجر تجربے پر منفرد زاویہ پیش کرتا ہے۔ یہ فلم اُن خاندانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو اجاگر کرتی ہے جو دو مختلف دنیاؤں کے بیچ پھنسے ہوتے ہیں — ایک طرف اپنے آبا و اجداد کی روایات اور دوسری طرف نئے معاشرے کی جدید اقدار۔ یہ فلم اُن مشکلات کو حقیقت پسندانہ انداز میں دکھاتی ہے جن سے مہاجرین گزرتے ہیں جب وہ غیر ملک میں رہتے ہوئے اپنی ثقافت کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔[8]
- اے گڈ مووی ٹو واچ ڈاٹ کام کے مطابق سولہ سالہ نشا دوہری زندگی گزار رہی ہے۔ گھر میں وہ ایک مثالی پاکستانی بیٹی ہے، جبکہ دوستوں کے ساتھ وہ ایک عام نارویجن ٹین ایجر کی طرح زندگی گزارتی ہے۔ لیکن جب اُس کے والد اُسے اُس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ بستر پر دیکھ لیتے ہیں، تو نشا کی دونوں دنیائیں اچانک اور بے رحمی سے آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ خاندان کی عزت بچانے اور "سبق سکھانے" کے لیے نشا کے والدین اُسے اغوا کر کے پاکستان میں رشتہ داروں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں وہ کبھی گئی بھی نہیں، نشا کو زبردستی اپنے والدین کی ثقافت میں ڈھالنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔وہ جو اوسلو میں ایک قدامت پسند پاکستانی مہاجر خاندان کی بیٹی ہے، چھپ چھپ کر نارویجین دوستوں کے ساتھ باہر نکلتی ہے — وہ پارٹیز میں جاتی ہے، باسکٹ بال کھیلتی ہے اور ایک لڑکے سے تعلق بھی رکھتی ہے۔ لیکن جب اُس کے والد اُسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں، تو ان کے نزدیک یہ خاندان کی عزت پر دھبہ بن جاتا ہے۔ نشا کی نازک توازن والی زندگی ایک جھٹکے میں بکھر جاتی ہے اور اُس کے والدین شدید قدم اٹھاتے ہیں: وہ اُسے بغیر بتائے پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی نہ صرف ایک نوجوان لڑکی کی جدوجہد کی عکاس ہے بلکہ یہ ایک سچی کہانی پر مبنی ہے۔ فلم کی ہدایت کارہ و مصنفہ ارم حق نے خود 16 سال کی عمر میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کیا تھا، جب انھیں زبردستی پاکستان لے جایا گیا اور پھر وہ نارویے واپس آئیں۔ یہ فلم ان تمام نوجوانوں کے لیے ایک آئینہ ہے جو دو متضاد ثقافتوں کے درمیان اپنی شناخت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن والدین کے لیے بھی ایک سوال چھوڑتی ہے جو عزت کے نام پر اپنے بچوں کی آزادی چھین لیتے ہیں۔[9]
- لیٹر باکسڈ ڈاٹ کام پر ایک تبصرے کے مطابق اس فلم کو محض "مشکل فلم" کہنا اُس گہرے اثر کا احاطہ نہیں کرتا جو یہ فلم اپنے ناظر پر چھوڑتی ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو جتنا دل دہلا دینے والی ہے، اتنی ہی دل کو چھو لینے والی بھی ہے۔ اس کی ہمدردی سے بھرپور ہدایت کاری اور حقیقت سے قریب تر اداکاری اسے ایک خالص، مگر تکلیف دہ ایمانداری عطا کرتی ہے۔ مرکزی کردار نشا ہر قدم پر الزام کا نشانہ بنتی ہے — حالانکہ وہ اکثر بے گناہ ہوتی ہے — اور جو کچھ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ہولناک مگر پر کشش مشاہدہ ہے — ذاتی اختیار (agency) پر اور اُس کے فقدان پر۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ہر کردار کی پسند، ناپسند اور فیصلے محدود ہیں اور یہ دباؤ اور توقعات کے سلسلے وہی لوگ جاری رکھتے ہیں جو خود ان سے نجات چاہتے ہیں۔ خاندانی عزت کا تصور اتنا بوجھل ہے کہ اُسے بچانے کے لیے بند دروازوں کے پیچھے سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہانی محبت سے سنائی گئی ہے اور اس کا جذباتی باہمی تضادوں سے بھرپور انجام اس بات پر مہر ثبت کرتا ہے۔ یہ فلم دیکھنے کے بعد میں کچھ لمحوں کے لیے ساکت ہو گیا — اس کی طاقت، درد اور سچائی نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اگرچہ میری پرورش مختلف ماحول میں ہوئی، لیکن میرے ایرانی خاندان اور خاص طور پر میری ماں کی بتائی ہوئی کہانیوں اُن کا اپنے ملک کے ساتھ پیچیدہ تعلق، اُن کے تجربات — اس فلم سے مجھے ایک گہرا ربط محسوس ہوا۔ افسوس کی بات ہے کہ فلم ختم ہوتے ہی ایک خود کو ترقی پسند کہنے والی گوری عورت نے اپنے دوست سے ایک سطحی اور بے بصیرت تبصرہ کیا، جو سن کر دل بہت خراب ہوا۔ تنقیدی نگاہ سے دیکھنا ضرور ہے، لیکن ہم رنگین فلمانے والے فنکاروں کو اُن کہانیوں پر بات کرنے سے روک نہیں سکتے جو اُن کے دل سے نکلی ہوں۔ ہمیں بھی حق ہے کہ ہم وہ کہانیاں سنائیں جو ہمارے زخموں، ہماری حقیقتوں اور ہمارے اندر کے سوالات کو چھوتی ہوں۔[10]
- ہیومن رائٹس واچ ویب گاہ پر ایک سرکرہ محققہ ہیتھر بار کے مطابق ""یہ فلم اُن زیادتیوں کو طاقتور انداز میں نمایاں کرتی ہے جن کا سامنا پاکستانی خواتین اور لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے — جن میں جبری شادی، تعلیم کے مواقع میں رکاوٹیں اور تشدد شامل ہیں، خصوصاً خاندان کی 'عزت' کے نام پر کیا جانے والا تشدد، جو اکثر و بیشتر سزا کے بغیر ہی رہ جاتا ہے۔"[11]
- بیٹا سنیما کے مطابق اسکرین انٹرنیشنل کا فلم پر تبصرہ یوں ہے: "پُرتحریک اور جذبات سے بھرپور مواد کو ایسی پختگی اور اعتماد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو اسے بین الاقوامی سطح پر وسیع تر ناظرین کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ قبول بنا دیتا ہے۔"[12]
مجموعی جائزہ
[ترمیم]"لوگ کیا کہیں گے" (2017) ارم حق کی تحریر و ہدایت میں بننے والی ایک طاقتور نارویجین-پاکستانی ڈراما فلم ہے جو ایک نوجوان لڑکی نشا کی کہانی بیان کرتی ہے جو دو مختلف ثقافتوں کے بیچ اپنی شناخت تلاش کر رہی ہے۔ ناروے میں وہ ایک آزاد خیال زندگی گزارتی ہے، مگر جب اُس کے والد اُسے ایک لڑکے کے ساتھ دیکھتے ہیں تو وہ "عزت" کے نام پر اُسے زبردستی پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ وہاں وہ سخت روایتی ماحول کا شکار بنتی ہے، جہاں اس کی آزادی، جذبات اور اختیارات سب چھین لیے جاتے ہیں۔ فلم معاشرتی دباؤ، ثقافتی زنجیروں اور خواتین کے خلاف جبر جیسے موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے اور "لوگ کیا کہیں گے" جیسے تباہ کن جملے پر تنقید کرتی ہے۔ سچی کہانی سے متاثر یہ فلم عالمی سطح پر سراہا گیا اور اسے مہاجر شناخت، صنفی امتیاز اور والدین و اولاد کے درمیان خلیج پر ایک گہرا تبصرہ مانا جاتا ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]- 91ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے لیے بھیجی گئی فلموں کی فہرست
- اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کے لیے ناروے کی پیش کردہ فلموں کی فہرست
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ Indiran Kannan (14 اکتوبر 2017)۔ "What Will People Say presents a deeply relatable story of family values"۔ بزنس اسٹینڈرڈ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-04-16
- ↑ Abbatescianni, Davide. (5 September 2018). What Will People Say to represent Norway at the Oscars. Cineuropa. Retrieved 7 September 2018
- ↑ Catherine Gonsholt Ighanian (4 ستمبر 2018)۔ "Hva vil folk si vant kampen om å bli Norges Oscar-håp"۔ Verdens Gang۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-04
- ↑ Vladimir Kozlov (4 ستمبر 2018)۔ "Oscars: Norway Selects 'What Will People Say' for Foreign-Language Category"۔ The Hollywood Reporter۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-09-04
- ↑ "What Will People Say? (Hva vil folk si) (2018)"۔ روٹن ٹماٹوز۔ Fandango Media۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-11-30
- ↑ "What Will People Say Reviews"۔ میٹاکریٹک۔ CBS Interactive۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-11-30
- ↑ https://www.firstpost.com/entertainment/what-will-people-say-movie-review-this-norwegian-urdu-drama-is-painstakingly-crafted-4145107.html
- ↑ https://www.yidio.com/movie/what-will-people-say/148943
- ↑ https://agoodmovietowatch.com/what-will-people-say/
- ↑ https://letterboxd.com/film/what-will-people-say/
- ↑ https://ff.hrw.org/film/what-will-people-say/
- ↑ https://www.betacinema.com/138/pid/200/What-Will-People-Say.htm
بیرونی روابط
[ترمیم]- لوگ کیا کہیں گے آئی ایم ڈی بی پر (بزبان انگریزی)
- 2017ء کی فلمیں
- 2017ء کی ڈراما فلمیں
- امیگریشن کے بارے میں فلمیں
- پاکستان میں ہونے والے واقعات پر فلمیں
- مذہب سے متعلق فلمیں
- نارویجن کثیر لسانی فلمیں
- نارویجن ڈراما فلمیں
- جرمن ڈراما فلمیں
- سویڈش ڈراما فلمیں
- جرمن فلمیں
- فرانسیسی فلمیں
- سویڈش فلمیں
- ڈراما فلمیں
- نورویجینی زبان کی فلمیں
- اردو زبان کی فلمیں
- ڈینش ڈراما فلمیں
- فرانسیسی ڈراما فلمیں
- بھارتی فلمیں