نامور ماؤں کی فہرست

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وہ مائیں جن کی پرورش میں پلنے والے بچے زمانے میں نامور ہوئے اور بچوں کی تربیت کی وجہ سے شہرت یافتہ ہوئیں، جنہیں تاریخ نے اپنے اندر محفوظ کر لیا۔

مسلم مائیں[ترمیم]

مسلمانوں میں مقام رکھنے والی مائیں جو ان کے اکابرین و بزرگان دین کے متعلق یاد رکھی گئی ہیں۔

عالیہ بنت شریک[ترمیم]

امام دارالحجرۃ حضرت امام مالکؒ کی والدہ ماجدہ ہیں، بڑی عاقلہ فاضلہ خاتون تھیں، انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ جب امام مالکؒ نے ان سے علم حاصل کرنے کی خواہش کی تو اس نیک خاتون نے اپنے بیٹے کو علما کا لباس پہنایا اور کہا:

ربیعہ کی مجلس میں جاؤ اور ان کے علم سے پہلے ان کے اخلاق و آداب سیکھو۔

والدہ سفیان بن عیینہ[ترمیم]

حضرت سفیان بن ہلالیؒ تبع تابعی، عالم اور امام شافعیؒ کے استاذ ہیں۔ امامشافعیؒ کا قول ہے کہ :

اگر مالک و سفیان نہ ہوتے تو حجاز سے علم ختم ہو گیا ہوتا۔

ان کی والدہ نے اپنے بیٹے کو جس انداز میں تعلیم دلوائی وہ مثالی ہے، انھوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ:

پیارے بیٹے! تم علم حاصل کرو، میں کتائی کرکے تماہری ضرورت پوری کروں گی۔ بیٹے! جب تم دس حدیثیں لکھ لو (پڑھ لو) تو اپنے بارے میں غور کرو اور دیکھو کہ چال چلن میں تحمل اور وقار کااضافہ ہوا ہے کہ نہیں، اگر یہ باتیں نہ دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ علم تمہارے حق میں بہتر نہیں۔

والدہ کی خصوصی توجہ اور نصیحت کے مطابق امام ابن عیینہ نے 78 سے زائد علما و تابعین سے روایت کی اور ان کا شمار علمائے حدیث میں ہوا۔

والدہ امام اوزاعی[ترمیم]

امام اوزاعی کا نام کا نا عبد الرحمٰن بن عمر بن محمد اوزاعی ہے ان کا فقہی مسلک تیسری صدی تک جاری رہا۔ اسی ہزار مسائل کے جوابات زبانی دیے یہ سب ان کی والدہ ماجدہ کی تربیت کا نتیجہ تھا، عالم ربانی تھے۔ ان کے احوال میں لکھا ہے کہ:

بعلبک میں پیدا ہوئے، اپنی ماں کی گود میں یتیمی کی حالت میں پرورش پائی اور ماں نے جیسا داب سکھایا، سلاطین بھی اپنی اولاد کو ایسا ادب سکھانے سے قاصر رہے۔

والدہ امام شافعی[ترمیم]

امام شافعیؒکا نام محمد بن ادریس بن عباس ہے۔
والدہ کا نام فاطمہ بنت عبد اللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ہے۔ امام صاحب کے والد کا انتقال بعض مؤرخین کے مطابق ان کی پیدائش سے پہلے ہی ہو گیا تحا۔

امام شافعی کا اپنا بیان ہے کہ میں یتیم تھا، میری کفالت والدہ کرتی تھین، میں ملک شام کے شہر غزہ میں پیدا ہوا اور دوسال کی عمر میں مکہ آیا۔ میں علما کی مجلس میں احادیث اور مسائل سن کر زبانی یاد کرلیتا تھا۔ میری والدہ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ کاغذ خرید کر اس پر لکھ سکوں۔

یمن کا سفر درپیش ہوا تو میری ماں کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ سفر کی تیاری کرسکوں اس لیے ماں کی ایک چادر کو سولہ دینار میں رہن رکھ کر سامان سفر مہیا کیا۔

والدہ امام احمد بن حنبل[ترمیم]

حضرتاحمد بن حنبلؒ کی والدہ کا نام صفیہ بنت میونہ بنت عبد الملک تھا۔ امام صاحب تین سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے امام صاحب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو بہت پیار اور محبت سے پالا، حتیٰ کہ امرا بھی رشک کرنے لگے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت پر اتنا خرچ کرتے ہیں، مگر نامراود رہتے ہیں لیکن یہ احمد بن حنبل یتیم بچہ ہے اور کتنا اچھا چل رہا ہے۔ یہ تعلیم و تربیت ہی تھی کہ احمد بن حنبل امام احمد بن حنبل بن گئے۔

والدہ امام بخاری[ترمیم]

صاحب بخاری، امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ بھی یتیم تھے۔ ان کی والدہ نے اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم و تربیت میں پوری توجہ صرف کی۔ انھوں نے بچپن میں ہی حضرت عبد اللہ بن مبارک کی کتابیں زبانی یاد کر لیں۔ امامذہبیؒ نے لکھا ہے کہ:

امام بخاریؒ نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی اپنے شہر میں احادیث پڑھنے کے بعد اپنی ماں اور بہن کے ساتھ علمی سفر پر نکلے ۔ امام بخاریؒ کی تصانیف میں الجامعہ الصحیح اور التاریخ الکبیر شاہ کار ہیں اور یہ ان کی والدہ ماجدہ کا فیض ہے کہ ان اک یتیم لڑکا امیرالمؤمنین فی لحدیث کے مرتبہ کو پہنچا۔