مال غنیمت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مال غنیمت:جب کوئی حکمران کسی دوسرے علاقے پر چڑھائی کرے تو فتح کے بعد جو بھی مال (مثلاً قیدی، اسلحہ، دولت وغیرہ) اس کے ہاتھ آتا ہے اسے مال غنیمت کہتے ہیں۔ اسلام میں غنیمت کے مال کو حاصل کرنے اور بھر تقسیم کرنے کے بھی اصول بتائے گئے ہیں۔

لغوی معنی[ترمیم]

وہ مال جسے کوئی فرد یا جماعت کوشش اور سعی سے حاصل کرے اسے لغت میں غنیمت کہتے ہیں۔ الغنیمۃ فی اللغۃ ما ینالہ الرجل او الجماعۃ بسعی (قرطبی)

اصطلاح شریعت آئین رسول محمد[ترمیم]

آئین شریعت میں مال غنیمت جو کفار سے علی مسلم قوت و غلبہ اور لشکر کشی میں ٹیکس حاصل کیا جائے۔

مال الکفار اذا ظفربہ المسلمون علی وجہ الغلبۃ والقھر (قرطبی)۔

مال غنیمت کفار کا آدا حسہ ٹیکس لے کر حلیفہ امام علی خلیفہ کے پاس مسلمانوں کے لیے رکھنے کو کہتے ہیں۔(بینک وغیرہ میں)

لیکن کفار کا وہ مال جو ٹیکس کے تور پر ہاتھ آجائے اسے اصلاح شریعت میں مسلم اور ضرورت مندوں میں تکسیم کرنے کو کہتے ہیں۔

والفیی ھو کل مال دخل علی المسلمین من غیر حرب ولا ایجاف (قرطبی)۔

وہ سارا مال امام علی اور ان کے بعد جو امام خلیفہ بادشاہ ہو گا وہ اس مال کو مسلمانوں اور غیر مسلم ضرورت مندوں میں تقسیم کریں گا شریعت کے متابق

مال غنیمت جنگی ہتیار وغیرہ احکام[ترمیم]

مال غنیمت کا پانچواں حصہ الگ کر لیا جائے گا اور بقیہ تین حصے مسلم غازیوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ شریعت نبوی نے ہمیں بتایا کہ پیادہ (پیدل)مجاہد کو ایک حصہ ملے گا اور سوار کو دو حصے ملیں گے۔ حضرت عمر فاروق، شیر خدا، عمر بن عبد العزیز اور فقہا میں سے امام مالک، شافعی، احمد، ابویوسف و محمدکا یہی مسلک ہے۔ امام اعظم کا مسلک ہے کہ پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو دو۔

  • 1۔ مال کا پانچواں حصہ (خمس) تو اس کو مصارف اس آیت میں وضاحت سے بیان فرما دیا بعض علما کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام محض تبرک کے لیے لیا گیا ہے۔ یہ کوئی مستقل مصرف نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا ایک حصہ ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یہ الگ مصرف ہے اور اس حصہ کا مال کعبہ شریفہ پر خرچ کیا جائے گا۔
  • لیکن حقیقت یہ بی کہ مالے غنیمت کا پانچھوا حیسہ خلیفہ وقت کے پاس اس لے جمعہ ہوتا ہے تاکے وہ پھر جب ضرورت پڑے تو وہ کام آسکے کسی مشکل وقت میں
  • 2۔ دوسرا حصہ حضور رحمۃ عالیان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے۔ حضور اسے اپنی ضروریات اور اہل و عیال پر خرچ کرسکتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد یہ مسلم خلیفہ وقت امام بادشاہ کے پاس مصرف جمع رہے گا عوام کی بہتری کے لیے خلیفہ وقت کے بادشاہ کے پاس جمع کرنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایات میں ہے۔
  • 3۔ ذی القربی سے مراد حضور کریم کے قریبی رشتہ دار ,اومتے مسلمہ ہیں اور وہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے افراد ہیں۔ اور باز کے نزدیک بنی ہاشم کیونکہ ان پر صدقات حرام ہیں اس لیے ان کی کفالت کا انتظام اس مد سے کر دیا گیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں تصریح کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار مسلمانوں کا حصہ قیامت تک بحال رہے گا۔ وسہم ذوہ القربی فی بنی ہاشم وبنی المطلب الفقیر منھم والغنی والذکرو الانثیٰ وعندی انہ غیر الامام فی تعیین المقادیر وکان عمر رضی اللہ منہ یزید فی فرض آل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ویعین المدین منھم والناکح و ذالحاج
  • ۃ (حجۃ اللہ البالغہمہدی):
  • رشتہ دار مسلم کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ملے گا۔ ان کے امیر اور فقیر، مرد اور عورت سب حقدار ہیں۔ اور خلیفہ امام وقت حسب ضرورت حصہ میں کمی بیشی بھی کر سکتا ہے۔ حضرت عمر فاروق اہل بیت کرام کو دوسروں سے زیادہ حصہ دیتے اور ان میں سے اگر کوئی زیادہ ضرورت مند ہوتا مثلاً مقروض، شادی کرنے والا، تنگدست تو اس کی زیادہ امداد فرماتے۔ اسی طرح صاحب تفسیر مظہری نے بڑے شرح و بسط سے اس موضوع پر بحث کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ وبھذا یثبت ان سہم ذوی القربی لم یسقط ویجوز دفعہ الیہم غنیہم وفقیرھم (مظہری)۔ اس بحث سے ثابت ہو گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار مسلم کا حصہ ساقط نہیں ہوا۔ ان کے اغنیاء اور فقراء سب کو ملے گا۔ علامہ ابن حبان اندلسی لکھتے ہیں۔ والظاھر بقاء ھذا السھم لذوی القربی وانہ لغنیم وفقیرھم (بحر) ظاہر یہ ہے کہ حصہ بدستور باقی ہے اور غنی اور فقیر دونوں کو دیا جائے گا۔ ٤۔ یتامیٰ۔ ٥۔ مساکین۔ ٦۔ مسافر۔ مال غنیمت کے خمس کے یہ مصرف ہیں۔[1]مطلب رشتے دار مسلم کے ایلاوا بدمذہب غریب کی بھی مدد کرنی پڑے گی کیوں کے اسلام کے معینی امن پسندی کے اور رحم دلی کے ہیں اور کسی پر ظلم کرنہ بھی اسلام کے خیلاف ہے اور ظلم کو روکنے کے لیے بہتر اقدام اوٹھانا مسلہ ایمان ہے معینی مسلمان خلیفہ امام کے ہیں جیسے مہدی علیہ اسلام ہوں گے اس موجودا دور میں انشاء اللہ جن کا انتظار پوری دنیاہ کر رہی ہے بس اب اللہ کی حکمت کی دیر ہے پھر انشاء اللہ بہتر دنیاوی نظام

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر حدیث القرآن پیر کرم شاہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور اور اللہ کا بندہ اشفاق احمد بن عبد اللہ صحافت حقیقت بیاں کرنے والا