مبارکپور
شہر | |
ملک | ![]() |
ریاست | اتر پردیش |
ضلع | Azamgarh |
بلندی | 69 میل (226 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 109,539 |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
مبارکپور (انگریزی: Mubarakpur) بھارت کا ایک رہائشی علاقہ جو اعظم گڑھ ضلع، اتر پردیش میں واقع ہے۔[1]
تفصیلات[ترمیم]
مبارکپور کی مجموعی آبادی 109,539 افراد پر مشتمل ہے اور 69 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔
الجامعتہ الاشرفیہ[ترمیم]
عالمی شہرت یافتہ اسلامک یونیورسٹی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ہی میں موجود ہے۔ جسے حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمه نے قائم کیا۔ علاوہ ازیں مبارک پور قصبہ میں دار العلوم اشرفیہ، مدرسہ اشرفیہ، اشرفیہ انٹر کالج وغیرہ جسے دینی اور عصری ادارے بھی موجود ہیں۔
مدرسہ باب العلم[ترمیم]
مدرسہ میں سنہ 1929 ء مدرسہ "باب العلم" قائم کیا جس کو پچھتر سال سے زائد عرصہ گزر گیا اس مدرسہ میں فاضل تک کی تعلیم ہوتی ہے با صلاحیت اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں یہاں قصبہ اور اس کے مضافات نیز دور دراز سے آنے والے طلبہ کسب فیض کرتے ہیں، مدرسہ کا الحاق یوا. پی مدرسہ بورڈ سے ہے اور گورمنٹ کی جانب سے اسے امداد بھی ملتی ہے. اس سے متصل لڑکیوں کا بھی مدرسہ ہے جس میں عربی و فارسی کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی معقول انتظام ہے.
مولانا شیخ علی حسین مبارکپوری[ترمیم]
مولانا شیخ علی حسین مبارکپور کے محلہ پو رہ خضر میں 08ما رچ 1908کوپیدا ہوئے ۔ والد کا نام جناب عبد المجید تھا۔ماں کا نام محترمہ سکینہ عرف معصومہ تھا۔ آپ نے قرآن اور اردو کی تعلیم گھر پرحا صل کی ۔ جوادیہ عربی کا لج بنا رس سے فخرالا فاضل اور سلطان المدارس لکھنو ¿ سے صدرالا فاضل کی سند حاصل کی ۔ لکھنو ¿ پہنچنے کے بعد ان کی رسائی لکھنو ¿ کے عربی کالج میں ہوئی۔ عربی ادبیات اور علم کلام کا کو رس وہاں مکمل کیا ۔مولانا علی حسین کو بچپن سے علم طب حاصل کر نے کا شوق و ذوق تھا لہٰذا انہوں نے اس فن میںمہارت کے حصول کی خاطرسخت محنت کی۔ بلا آخرفن طب میں آپ امتیازی نمبروں سے کامیابی حا صل کی ۔
سلطان المدارس میں لکھنو ¿ میں آپ کے اسا تذہ کی فہرست کچھ اس طرح ہے ۔ ۱۔ مولانا سید محمد رضا فلسفی صا حب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ ۲۔ مولانا سید عالم حسین ادیب صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ ۳۔ مولانا سید محمد باقر مجتہد صاحب قبلہ اعلیٰ اللہ مقامہ ۴۔ مولانا سید محمد ہادی مجتہد صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ کے علا وہ دیگر عظیم شخصیات ہیں ۔
اس کے علا وہ حکیم سید مظفر حسین صا حب سے علم طب حا صل کیا جس میں وہ مہارت رکھتے تھے ۔ اس کے علا وہ مدرسة الواعظین میں داخل ہوئے ۔ وہاں کا تین سالہ کو رس دوہی برس میں اپنی علمی صلاحیت کی بنیاد پر مکمل کر لیا ۔ فن مناظرہ میں مہارت حا صل کی ۔ بزرگ اسا تذہ ملک النا طقین علامہ سید سبط حسن صاحب اعلیٰ مقامہ اور مولانا سید ابو الحسن صا حب قبلہ مجتہد سے کسب فیض کیا جو کہ سید العلما علامہ علی نقی صاحب قبلہ مجتہد کے پدر بزرگوار تھے ۔
مولانا شیخ علی حسین کئی برسوں تک ممبئی میں مصروف تبلیغ رہے ۔ جہاں انہوں نے عوام کے مختلف پیچیدہ مسائل کا تصفیہ کیا ۔ ممبئی میں مصروف تبلیغ تھے وہاں انہیں اخلاق حسنہ کے عظیم مرتبہ پر فائز جاناجاتا تھا عوام کے مسائل کے تئیں ہمیشہ بیدار رہتے تھے ۔کئی مر تبہ رات کی تاریکی میں لو گوں کی نظر وں سے بچ کر غریب کنبوںمیں بلا تفریق مذہب و ملت انا ج و دیگر ضروریات زندگی اشیا تقسیم کرتے تھے ۔ جس کی وجہ سے وہاں پسماندہ طبقہ اور دیگر مذاہب کے افراد آپ کو ” نا صر “یعنی مددکرنے والا کے نام سے بلا تے تھے ۔ مولانا علی حسین تبلیغی امور سے بخوبی واقف تھے ۔اسی سبب آپ کو تبلیغ دین کے لیے امرتسر کے عوام نے اپنے یہاں کچھ دنوں کے لیے بلا یا ۔ آپ نے ان کی نحیف سی آواز پر لبیک کہا اور وہاں کئی بر سوں تک تبلیغی خدمات بحسن خوبی انجام دیا۔
مولانا علی حسین مدرسہ” باب العلم “کے مدرس اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جتنی بھی خدمات انجام دیں ان تمام خوبیوں کو بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ ”باب العلم “ کو اعلیٰ مقام اور اس مدرسہ کی فلاح و بہبو د کے لیے انتھک کو شش کی ۔ آپ نے مدرسہ” باب العلم“ کے طلبہ کوامتیازی زیور علم سے آراستہ کیا ۔ طلبہ کو تدریس کے اسرار و رموز سے واقف کرایا۔ آپ کے پڑھائے ہوئے طلبہ دنیا کے جس جس گوشہ میں گئے وہاں وہاں انہوں نے اپنا ، ”باب العلم“ ،” مبارکپور“کا نام روشن کیا ۔ مولانا علی حسین کی علمی خدمات کا اعتراف کر تے ہوئے استاد الشعراءجناب علی مختار مبارکپوری تحریر کرتے ہیں :
”مولانا علی حسین صا حب قبلہ مبارکپوری نے( 1947ءتا 1957ء) بحیثیت مدرس اعلیٰ جو کارنامے انجام دیئے ہیں ۔ وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ آپ کی جس قدر قدرو منزلت کی جائے کم ہے ۔ مو منین کے دل و دماغ سے آپ کے علم و فضل کی گہری چھاپ کبھی نہیں مٹے گی ۔ “( رسالہ جلوہ ¿ طور بجواب شعلہ طور۔علی مختار مبارکپوری ، مطبو عہ نشاط پریس ٹانڈہ ،صفحہ 87)
مبارکپور میں قیام کے دوران مدرسہ با ب العلم کی انتظامیہ کمیٹی کے اصرار پر مدرسہ ”با ب العلم “کے مد رس اعلیٰ کے عہدے کو قبول فرمایا ساتھ ہی ساتھ تدریسی امور کو فرض لازمی تسلیم کرکے انجام دیا ۔ عرصہ دراز تک علوم آل محمد علیہم السلام کے متلاشیوں کو معارف اہلبیت ؑ سے روشنا س کر اتے رہے ۔ اپنے شاگروں کو بر جستگی کے ساتھ تر بیت فرمائی ۔ طلبہ کو تعلیمی سرگرمی کی طرف تشویق دینے کے علا وہ خو د سازی کی بھی خوب تاکید کر تے تھے ۔ آپ جیسے استا د کی پاس حاضر ہونا ہی طلبہ کی اصلاحی پہلو کے لیے کا فی تھا ۔بقول مولانا عارف حسین مبارکپوری مولانا علی حسین طلبہ سے ہمیشہ فرماتے : ” معاشرے میں اپنے آپ کو متعارف کرانے کے بجائے دین کو متعارف کرانے کی کوشش کرنا ۔ “ (مضمون”مولاناعلی حسین کی کچھ اہم خصوصیات“ مولانا عارف حسین مبارکپوری صفحہ 01)
مولانا علی حسین کی کا میاب زندگی بے حد مشکلات کے دور سے گزری لیکن آپ نے ان سختیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے مستحکم ، عزم مصمم کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے رہے ۔ بعد ازاں آپ ” مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں “ کے مصداق قرار پائی۔ آپ نے سختیوں سے نپٹنے کی خود اپنے اندر قوت پیدا کی ۔ دھیرے دھیرے یہی آپ کی فطرت ثانیہ بن گئی ۔ ان تمام دنیاوی مشکلات کے سامنے اپنے اہداف کو مشکلات کی نذر نہیں ہو نے دیا کیونکہ جس کے ہاتھ میں دامن آل رسول اور دل میں الفت اہلبیتؑ ہو وہ ہر مشن میں کامیاب کامران ہو تا ہے ۔
آپ اپنے دور کے بہترین خطیب تسلیم کیے جا تے ہیں ۔ مشکل اور ظریف علمی مطلب کو آسان او ر سلیس لہجے میں سامعین کے دلوں میں ثبت کر دینا آپ کا خا صہ تھا ۔ اپنے مقصود کو سامعین تک منتقل کرنے کے لیے ایسے مقدمہ سازی کرتے کہ جس کے بعد مطالب کو سمجھنا بہت ہی آسان ہو جا تا تھا ۔ اس کے علا وہ محا فل اور آل انڈیا مقا صدے میں ایسے سبق آموز واقعات کا سہارا لیتے کہ جسے سننے کے بعد سامعین میں خوشی کی فضا حاکم ہو جا تی، اس کے فوراً بعد اسی سبق آموز واقعے سے مربوط ایک اصلاحی نکتہ ارشاد فرماتے تھے جس کے بعد لو گوں کے دانتوں تلے انگلیاں آجا تی تھیں ۔ فن خطابت کی ایک خصو صیت یہ بھی تھی کہ کبھی بھی اپنے سامعین کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کی مدلل با تیں عوام کے درمیان ان کے فہم و ادراک کے مطابق ہو تی تھیں۔ وہ یہ محسوس کر تے کہ گویا آپ کی تقریر بس انہیں کے لیے ہیں کیو نکہ ان کی خطابت مقتضائے حال کے عین مطابق ہو ا کرتی تھی ۔
مولانا عارف حسین مبارکپوری اپنے مضمون ” مولاناعلی حسین کی کچھ اہم خصو صیا ت “ لکھتے ہیں :
” میں اپنے طالب علمی کے زما نہ میں اکثر مولانا علی حسین مر حوم و مغفور کی خدمت میں حا ضر ہو تا رہتا تھا ۔ اس وقت ایسا محسوس ہو تا تھا کہ گویا ایک شفیق اور دل سوز باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا ہو ۔ یہی تو آپ کا کمال تھا کہ ہر صنف سے تعلق رکھنے والے شخص آپ سے محبت و الفت اور ہمیشہ آپ کی زیارت کے مشتاق رہتے تھے ۔ “ (مضمون”مولاناعلی حسین کی کچھ اہم خصوصیات“ مولانا عارف حسین مبارکپوری صفحہ 01)
مولانا علی حسین نے کئی کتابیں تحریر کیں جس میں ” رد الاغلاط “ ،”مناقب الحسنین“،” مسیحی مناظر ہ “،”اصول مدرس “،”مناظرہ حسینہ“،” درس مفصل “، مخزن علم “ ، ” فن تدریس “ ، باب العلم از دید گاہ علما “،” حسینی شا عری “( شاعری مجموعہ غیر مطبوعہ) وغیرہ تحریر کیں ۔ ” رد الا غلاط “ کے علا وہ دیگر کتابیں طبع نہ ہونے کی صورت میں منظرعام پر نہ آسکیں۔
مولانا علی حسین اپنی تمام تر مصروفیات کے با وجود اپنا اکثر وقت عمیق تاریخی ، تفسیری ، فلسفی ، علم کلامی اور سیرت کی کتب کے مطالعے میں گزارتے تھے ۔ کثر ت مطالعہ ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ ہر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے ۔ آپ کی گفتگو میں اتنی تاثیر ہو تی تھی کہ جس سے ایک بار سمجھا دیا وہ آپ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ۔ آپ کی سب سے اہم خصو صیت یہ بھی تھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی منصب کے لیے سعی و کو شش نہیں کی نہ آپ سیا سی الجھنوں کے شکار ہوئے اور نہ ہی کسی اختلاف کی نذر ہوئے ۔ آپ نے کبھی بھی اپنی شخصیت کو سیا ست دانوں کے مفادات کی سولی پر چڑھنے نہیں دیا ۔ آپ ہمیشہ تبلیغ دین اور اصلاح امت سے سروکار رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر دل میں آپ کی باتیں اور سبق آموز نصیحتیں ہر طبقے اور گروہ کی زبان پر جاری ہیں ۔
مولانا نا ظم علی خیر آباد ی مولانا علی حسین کی علمی صلاحیت کااعتراف کرتے ہیں تحریر کرتے ہیں :
”مولاناعلی حسین کے انتقال کے بعد حقیر راقم الحروف کو کچھ کتابیں دیکھنے کا موقع ملا تو کتابوں پر ان کے وقیع حاشیوں اور فٹ نو ٹ سے ان کی علمی بلند ی اور مطالعہ کے تبحر کا اندازہ ہو تا ہے ۔ “ (دیار مشرق، تذکرہ علما شیعہ ص 63)
مبارکپور کی معمر معززبعض شخصیات کے پاس مولانا کے قلمی نسخے موجود ہیں ۔ علا وہ ازیں مولانا شیخ علی حسین کے مضامین بھی کا فی اہمیت کے حامل ہے ۔مو صوف نے جتنے بھی مضامین لکھے وہ اپنے آپ میں تحقیق کے اعلیٰ نمونہ کی مثال ہیں ۔ مو صوف کے مضامین میں علمی کا وش ، ریسر چ ، تعلیمات آل محمد ، تحریر مبنی بر دلائل کے علا وہ جنتے موضوعات پر قلم اٹھایا اس مو ضوع کا حق ادا کر دیا ۔ آپ کے تما م مضامین کو تحقیقی دستاویزمیں شما ر کیا جا تا ہے ۔ آپ کے زیا دہ ترمضامین لکھنو ¿ سے شایع ہونے والا رسالہ ” الواعظ “ اور” سرفراز “میں شایع ہوئے ہیں ۔
مولانا علی حسین نے قادیا نیت کی رد میں ایک رسالہ تحریر کیا جو طبع ہوا ۔ اس وقت انہوں نے وہ قیمتی رسالہ بطور تحفہ شاعر اہل بیت جناب ایو ب صاحب مبارکپوری کو عطا کیا تھا ۔ بعد میں یہ رسالہ جناب ایوب نے مولانا ناظم علی خیرآبادی کو دے دیا جو اب بھی ان کے پاس بحفاظت موجود ہے ۔ مولانا ناظم علی صا حب قبلہ اپنی کتاب ” تذکرہ علماءشیعہ “ دیا ر مشرق یو پی میں تحریر کر تے ہیں :
”مولاناعلی حسین نے قادیانیت کی رد میں ایک مختصر رسالہ بھی تحریر کیا جو طبع ہوا۔ حقیر کے پاس ایک نسخہ موجود ہے جسے شاعر جناب ایوب مبارکپوری نے دیا ہے ۔ یہ رسالہ اگرچہ مختصر ہے لیکن قادیا نیت کے تقریباً تمام غلط عقائد و اعمال کی مفصل تردید کی گئی ہے ۔‘ ‘ ( دیار مشرق ،تذکرہ علما ءشیعہ ص 63)
1958ءسے 1990ءافریقی ممالک تنزانیہ ، یو گنڈا ، مڈگاسکر ، ما ریشس، کینا میں اپنے تبلیغی مشن پر گامزن رہے اور دس برس تک ماریشس میں مقیم رہ کر تبلیغ دین مسلسل انجام دیتے رہے ۔ مولانا علی حسین علمی وقار اورفنون منا ظرہ میں ما ہر ، قابل شخصیت ، حسن اخلاق کے عظیم مر تبہ پر فائز تھے ۔ آپ کے حسن اخلا ق کی لو گ مثال پیش کر تے تھے ۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے کئی سو جانور صفت لو گوں کو اپنے اخلاق حسنہ کی وجہ سے مسلمان کیا ۔ ما ریشس کے مشہو ر و مقبول معزز شہری جناب اظہار علی کے بقو ل:
”مولانا علی حسین مبارکپوری نے متعدد ایسے جانور صفت لو گوں کو مسلمان کیا جن کو دیکھ کر جانور راہ فرار اختیار کر لیتے تھے ۔ انہوں نے ایسے درنددہ خور انسان کو بھی مسلمان کیا جو خونخوار شیر کو پکڑکراس کی گردن کو اپنے دانتوں سے نوچ کر اس کا خون پی جاتے تھے ۔ “( شمع نور ، صفحہ 88)
ماہ جنوری 1981میںرسالہ” الواعظ “میں جناب رجب علی غلام حسین صا حب ،جنرل سکریٹری خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت موریشس ( افریقہ) نے مولانا علی حسین کی علمی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے ۔ ان کی تحریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مولانا مو صوف کے پاس کتنا علم تھا اور فن خطابت میں انہیںکتنا عبور تھا ۔ آپ کی خطابت کے قصیدہ پڑھے جا تے تھے ۔ جناب رجب علی کی تحریر ملاحظہ ہو:
”09 اکتوبر 1980ءکو مولانا علی حسین صا حب قبلہ ( مبا رکپور ی ) صدر الا فاضل دو سال کے لیے پھر مو ریشس تشریف لائے ہیں جس کے لیے ہم مولانا صا حب کے شکر گزار ہیں ۔یہ پہلی محرم سے 05محرم تک ”حسین منی و انا من الحسینؑ “ پر ایسی مجالس پڑھیں جو یا دگار رہیں اور 06 محرم سے 12 محرم تک ” حیات شہداء“ اور ” شہید اعظم “ کے موضوع پر جتنی مجالس پڑھیں شیعہ ، سنی کا مخلوط مجمع محویت سے سن رہا تھا اور ہر شخص پر ایک کیف طاری تھا ۔ وسیع اور دیدہ زیب امام بارگاہ کی کشش تو تھی ہی اس پر قرآن شریف تفسیر و تاریخ کی روشنی میں ان تبلیغی مجالس نے ایک سماں با ندھ دیا تھا۔“(رسالہ ”الواعظ“ماہ جنوری 1981صفحہ نمبر 16)
ما ریشس میں بھی آپ نے ایک تنظیم قائم کی جس کے توسط سے آپ اسلام کے قوانین اور علوم آل محمد اور اہلبیت علیہم السلام کے فرامین سے لو گوں کو واقف کر اتے تھے ۔آپ کی اس تحریک کو عوام نے بیحد پسند کیا ۔ یہاں تک وہاں کے مقامی اخبار و جرائد وغیرہ میں اس تحریک کا ذکر جلی حرفوںمیں ہے ۔ مولانا علی حسین کا اسلامی قوانین پر منحصر پروگرام ماریشس کے ریڈیو سے مسلسل نشر ہو تا تھا ۔ اس نشریہ پروگرام کا اثر یہ ہوا کہ لو گ آپ کی طرف ملتف ہوتے چلے گئے اسی سبب سے ایک پوری تنظیم قائم ہوگئی ۔
آپ کے منا ظرے بھی عدیم البدل کی حیثیت رکھتے ہیںآپ نے برادران اہلسنت اور قادیانیوں کے علا وہ دیگر مذاہب کے عقیدتمندوں اور ان کے دانشوروں ، علما کے ساتھ منا ظرے بھی کیے ۔جس میں آپ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ۔آپ نے جنتے بھی مناظرے کیے چاہئے وہ ہندوستان میں ہوں یا پھر ہندوستان کے با ہران تمام دو بدو گفتگو میں آپ نے مخالف جماعت کو دندان شکست جوابات دیکر اپنی علمی صلاحیت کا لو ہا منوالیا ۔
مولانا علی حسین بحیثیت مدرس اعلیٰ مصطلحاتِ فن اورطلبہ کے درمیان ا س بات کاالتزام ولحاظ رکھا طلبہ کونحو،فقہ واصولِ فقہ ،اصولِ تفسیر وحدیث اورمنطق وبلاغت کے مصطلحات واصطلاحات خوب ازبرہوں۔ انہوں نے طلبہ کو موقع شناس ،عمدہ سانچے اور خوبصورت ظرف میں ڈھالنے کا کام کیا ۔ مولانا علی حسین نے با ب العلم مبارکپور میںتعلیم اور وقت کے معیارکا خا ص خیال رکھا ۔طلبہ کے قرطاس ابیض ذہنوںکو اپنے متعلقہ فن کی عمدہ تعریفات، مثالوں کے ساتھ یادکرادے جس کی وجہ سے آگے چل کر ان کے لیے مطلوبات کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہوا۔مولانا علی حسین نے مشفق ومہربان استاذ کی طرح اپنے شاگرد وں کی باطنی اورروحانی تربیت کے فرائض کو انجام دیاہے کیونکہ ان کی علمی صلا حیت اورجوہرشناس استاذکی نظر ہمہ وقت اپنی روحانی اولاد کی سیرت وکردارپہ رہتی تھی ۔حقیقت پسند اورنفسیات شناس مدرس اپنے آپ کو فقط کتاب کی تدریس و تعلیم تک محدود نہیں کر تا ۔ اس لیے انہوں نے دوران درس بر محل نصیحت آموز کلمہ ،نصیحت آمیز، فکر انگیز واقعہ ، نظریہ ساز جملوں سے اپنے زیر تربیت روحانی اولا د کی مفید کامیاب زندگی اور نتیجہ خیز کرداربھی اداکیا ۔
مولانا ابن حسین املوی اپنی کتاب ” تاریخ مدرسہ با ب العلم، مبارکپور“ میں تحریر کر تے ہیں :
”افریقہ میں ایک طولا نی مدت تک تبلیغ دین میں مشغول رہے ۔ جب وطن واپس آئے تو مدرسہ باب العلم کے پرنسپل بنا دیئے گئے ۔ اس وقت مدرسہ بہت اچھی طرح چل رہا تھا ۔ غالباً میں درجہ ہشتم میں پڑھتا تھا۔اسی دوران میں نے کتاب ” ہدایة النحو “ کے چند اسباق ان سے ( مولاناعلی حسین) پڑھے تھے ۔ ایک طولانی مدت تک درس و بحث سے دور رہنے کے با وجود بھی بہت اچھا پڑھاتے تھے جبکہ عام طور سے لو گ ایسے اتفاقات کے بعد سب کچھ بھول جا تے ہیں۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ، نہایت خوشخط اور نفاست پسند تھے ۔ “ ( تاریخ مدرسہ با ب العلم ، مبارکپور “ صفحہ نمبر 65)
مولانا علی حسین نے قادیانی اور دوسرے نام کے کئی رسالے بھی تحریر کیے جو مطبوعہ شکل میں منظر عام پر آچکے تھے ۔ ان کا ایک تحقیقی کتب خانہ بھی تھا ۔ آپ کے انتقال کے بعد نا گزیں اسباب ، نا قدری کے پیش نظر کچھ کتابیں تو ضائع ہو گئی اورکچھ کتابیں مدرسہ باب العلم مبارکپور میں جمع ہو گئیں اور کچھ کتابیں مدرسہ باب العلم جا تے وقت راستے سے غائب ہو گئیں، کہاں چلی گئیں۔ واللہ اعلم با ثواب
مولانا قمر الزماں مبارکپوری لکھتے ہیں :
”مولانا شیخ علی حسین کا ذاتی ایک اہم کتب خانہ بھی تھا ۔ اس کی بہت سی کتابیں دوسروں کی ہو گئیں ۔ با قی ما ندہ کتب مدرسہ باب العلم کو دے دی گئیں ۔ مگر وہاں بھی سب موجود نہیں ہیں ۔ “(سخنوران اعظم گڑھ غیر مطبوعہ )
رئیس الواعظین مولانا کر ار حسین مولاناشیخ علی حسین کے سگے بھائی مولانا جواد حسین (بانی مدرسہ باب العلم، مبارک پور ) سے ان کی علمی صلا حیت اور فن منا ظرہ سے بخوبی واقف تھے ساتھ ہی ان پر فخر بھی کرتے تھے ۔ متعدد بار انہوں نے اپنی تقریروںاور تحریروں میں آپ کی علمی صلاحیت کا اعترا ف کیا ہے ۔ مو صوف نے ” صدائے گنبدبجواب امام غائب “ تحریر کی تو اس میں آپ کی عالمانہ صلا حیت اور فنون مناظرہ و خطابت کا ذکر کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔
”مولوی شکر اللہ تو خیر چل بسے ان کے اعزاءو اقارب سے مسجد میں حلفیہ بیان لے لو تو پتہ چلے گا کہ مولانا جواد حسین صا حب نے مولوی شکر اللہ کا ایسا گلا دبا دیا کہ ملک بوارکوراہی ہو گئے ۔ شیعیت کے شیر پتاں مولانا جواد حسین صاحب قبلہ وہ آج پاکستان میں گرج رہے ہیں جن کی گھن گرج سے پاکستانی امیہ زادے کے حواس با ختہ ہیں ۔“ (صدائے گنبدبجواب امام غائب ص 184)
مولانا شیخ علی حسین کی روح قفس عنصری سے پرواز کی اطلاع رئیس الو اعظین کو ناگزیں اسباب کی وجہ سے دستیاب نہیں ہوئی ۔بعد میں جب انہیں معلوم ہوا تو وہ زارو قطار رونے لگے ۔ انتقال کی اطلاع کے بعد جب مبارکپور میں قدم رکھاتو پہلے وہ مولاناشیخ علی حسین کی قبر ( بنرہی باغ قبر ستان،واقع متصل بڑی ارجنٹی مبارکپور) پر گئے جہاں انہوں نے اپنے سر کا تاج ان کی قبر پر رکھ دیا اور بہت دیر تک گریہ کیا ۔گھرواپسی سے قبل مولانا موصوف مولانا علی حسین کے غمزدہ اہل خانہ سے ملاقات کی اور انہیں تسلی و تشفی اور اظہار ہمدردی بھی کیالیکن انتقال کی خبر ان تک نہ پہنچانے کا اظہار افسوس بھی کیا ۔
چہلم کی مجلس کو بھی رئیس واعظین مولانا کر ار حسین صا حب ہی نے خطاب کیا ۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے مولانا علی حسین کی لیا قت علمی اور خاموشی مزاجی، تبحر علمی، منکسر المزاجی ، فن منا ظرہ ،اصول تبلیغ وغیرہ کا تذکرہ کیا ۔انہوں کہاکہ ان کے بے شما ر احسانات مجھ پرہیں آج اگر میری خطابت یا میر ی شہرت ہے تو وہ مولانا علی حسین کی وجہ سے ہے ۔ مولانا مو صو ف نے مجھے بہت سی مشکل گتھیوں کو سلجھایا ۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے کچھ اس انداز میں نصیحت کی :
”مولانا کرار!! اگرآپ کو واقعااپنا نام روشن کرنا ہے تو قلم کے سپاہی بنیں ۔آپ کے انتقال کے بعد لوگ آپ کو آپ کی تحریر سے یاد رکھیں گے ۔ تحریر ہمیشہ باقی رہے گی ۔ ہمیشہ کتب کے حوالے سے گفتگو کر یئے گا۔“ (شخصی تاثرات: رئیس الواعظین )
یہی وہ جملے ہیں جن کی وجہ سے میں اتنامتاثرہ ہوا کی تحریر کی طرف زیا دہ توجہ دی اور انہیں کی بدولت الحمد اللہ میں اس مقام پر ہوں ۔ ان کے احسانات ہمیشہ مجھ پر رہیں گے ۔
مولانا علی حسین تدریس کے عمل کو پسند کرتے تھے اور اسی کو اپنی ترقی و عروج کا ضامن سمجھتے تھے ۔مولانا علی حسین مبارکپوری کے بقول” در س و تدریس کا عمل اس عالم ہستی میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود اور عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ سیکھنے کے عمل کو معیاری اور با مقصد بنانے کے لیے کسی معلم کا ہونا ضروری ہے ۔مولانا علی حسین ایک دفعہ جا معہ نا ظمیہ ، لکھنو ¿ تشریف لائے اور مدرس اعلیٰ و محقق و نقاد مولانا شاکر صا حب قبلہ سے ملاقات کی ۔ رسمی ملاقات کے بعدجب مو صوف چلے گئے تو مولانا شاکر صا حب قبلہ سے ان کے شاگروں نے پوچھا یہ کون تھے ۔ انہوں نے برجستہ کہا :
” اس عالم با عمل کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ علمی صلاحیت اور تدریسی امورکے استاد ہیں ۔ مو صوف جیسا ماہرمعلم میں نے بہت کم دیکھا ہے ۔ مولانا علی حسین کی علمی منزلت و لیاقت کی مثال نہیں ہے ۔ ان کی دوپلی ٹوپی کے سامنے بڑے بڑے عمامے ہلکے نظر آتے ہیں ۔ “(مولانا محمد عسکری مبارکپوری کی زبانی )
مولانا علی حسین کاعلم و ادب کے تئیں ذوق بہت ہی پا کیزہ تھا ۔مضمون ، اداریہ ، علمی تحریک ، بیداری مہم وغیرہ کے لیے قابل قدر تحریریں سپر د قلم کیے ۔ علمی تحریک اور اسلامی بیداری ، مذہبی بیداری کے عنوان سے ما ریشس کے اخباروںادبا ء، نقاد اورمحرر بڑے شوق و ذوق سے پڑھا کر تے تھے ۔مذہبی اور اصلا حی اداروں کے قیام سے بھی آپ کو طبعی لگاو ¿ تھا ۔ جہاں رہے اپنا حلقہ بنا کر رہے ۔ کتب بینی ، علم و ادب و شعرو شاعری ، تہذیب و تمدن کے علم سے لوگوں کو با خبر کرتے رہتے تھے ۔
مولانا شیخ علی حسین کوفن شاعری (مذہبی و سماجی ) سے بھی کا فی دلچسپی تھی ۔ انہوں نے فن شاعری میں اپنا جو ہر دکھایا تھا ۔ ابتدائی دور میں انہوں نے شاعری میں اپنا تخلص” حسینی“ رکھا ، مگرا پنے استاد کے حکم تعمیل میں ابتدائی تخلص کو تبدیل کرتے ہوئے ”قیصر “ تخلص رکھا۔تاحیات جتنی بھی شاعری کی اس میں ” قیصر“ تخلص اختیار کیا ۔ مولاناعلی حسین کی سماجی شاعری کے عنوان سے زیا دہ کلام نہیں ملتے ہیں۔میری ذاتی تحقیق کی بنیاد ان کے کلام میں تحقیقی عنا صر مضمر تھے ۔انہوں نے مذہبی شاعری میں ایسے اشعار سپرد قلم کیے جن کی مثال آنے والے وقتوں میں شاید ہی دستیاب ہو سکے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کی توجہ تاریخ و تنقیدی اور مطالعہ کتب کی طرف مبذول کر ا ئی۔ مو صو ف کے یہاں جو بھی اشعار ملتے ہیں سب کے سب اس بات کی دعوت ہیں کہ ” ان الجمال جمال علم و الا دب ۔ ملا حظہ ہوں
مولانا علی حسین قیصر خود بھی شعر کہتے تھے اور اہل علم ، اہل ذوق و فہم کو اس بیش قیمتی فن کی طرف دعوت دیتے تھے ۔ مقاصد و محافل میں موصوف کامقصد اولیٰ شاعروں کی حو صلہ افزائی تھا ۔ان کے زیا دہ تر کلام اسفل زمانہ اور ان کے اسلاف کی تساہلی کے سبب مفقود ہو گیا ۔ ہمیشہ نئے نئے زاویوں کی طرف ان کی نگاہ خا ص تھی اور وہ اس لیے تھی مو صوف کی شاعری عوام اور خواص دنوں طبقے کے لیے ہو تی تھی ۔ ان کی شاعری آنے والے شاعروں کے لیے مشعل راہ ہے ۔ ان کی شاعری میں علمی وثقافتی و ادبی اور ذہنی صلا حیت و لیا قت جھلکتی رہتی تھی ۔ جس زما نہ میں انہوں نے شاعری شروع کی تھی اس زما نہ میں منا ظرہ ، مباحثہ ، خط و کتابت کے ذریعہ سوالات و جوابات عام بات تھی۔ زبان درازی ، مو قع پر ستی ، سیا ست پسندی کا اتنا زیا دہ چلن نہ تھا ۔ تحقیقی مواد کازیا دہ سے زیا دہ رواج تھا ۔ ایسے دور میں جب انہوں نے شاعری کی تو انھیں تمام باتوں کو ملحوظ نگاہ رکھا ۔ملا حظہ ہوں چند اشعار
بار آور ہوئے جب گلشن زہرا کے شجر
دو امامت کے لگے چھوٹے بڑے اس میں ثمر
ایک کا نام حسن ، حُسنِ محمدکی سحر
اور حسین ابن علیؑ برج نبوت کے قمر
................
قصہ ¿ ابلیس و آدم اور جنت کی زمیں
جس جگہ شیطان نظر آتا تھا بار آستیں
یہ اثر عابد میں تیری تربیت کا ہے حسین
کہہ گیا دشمن بھی آخر انت زین العابدیں
٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات[ترمیم]
![]() |
ویکی کومنز پر مبارکپور سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین. "Mubarakpur".