محقق کرکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محقق کرکی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1461ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لبنان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 جون 1534ء (72–73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجف  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن امام علی مسجد،  نجف،  عراق  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت مملوک  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف،  عالم،  مجتہد،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلام  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محقق کرکی یا علی بن حسین بن عبدالعالی کَرَکی جبل عامِلی یا محقق ثانی (پیدائش: 1461ء— وفات: 29 جون 1534ء) صفوی سلطنت کے ایک شیعی عالم، محدث اور فقیہ تھے۔وہ صفوی سلطنت کے عہد میں مشہور ترین مجتہد تھے۔چودہویں صدی اور پندرہویں صدی کے بیشتر شیعی مجتہدین اُن کے شاگرد تھے۔نعمۃ الله الجزائری اور حسین بن عبدالصمد الحارثی اُن کے مشہور شاگرد ہیں۔اُن کی وجہ ٔ شہرت تصنیف جامع المقاصد فی شرح القواعد ہے۔

سوانح[ترمیم]

نام علی بن حسین بن عبدالعالی ہے۔محقق کرکی کی پیدائش 865ھ مطابق 1461ء کو کرک میں ہوئی۔سید محسن الامین العاملی نے سال پیدائش 868ھ (مطابق 1463ء) لکھا ہے۔[1] شیخ جعفر المہاجر نے سال پیدائش 870ھ (مطابق 1466ء) لکھا ہے۔[2] کرک اَب لبنان کے محافظہ بقاع میں واقع ایک گاؤں ہے جو نبی اللہ نوح علیہ السلام کی آخری آرام گاہ کی وجہ سے مشہور ہے۔

تحصیل علم[ترمیم]

محقق کرکی نے کرک، جزین، عیناتا الارز کے علما سے علم حاصل کیا۔بعد ازاں مذاہب اربعہ کی فقہی تحصیل کی خاطر مصر چلے گئے۔مصر روانگی کے دوران دمشق میں فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔مصر میں شیخ عبد الرحمن ابن ابانہ الانصاری سے فقہ پڑھا۔ دمشق میں علاء الدین البصروی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ محقق کرکی نے تحصیل علم کے لیے متعدد علما کے ہمراہ دور دراز کے سفر اختیار کیے جن میں علی بن ہلال الجزائری، محمد بن داؤد الجزینی، السید حیدر العاملی اور ابی یحییٰ زکریا الاانصاری (سنی عالم) شامل ہیں۔ابتدائی تعلیم کے بعد محقق نے کرک کے علما سے تحصیل علم کیا۔ کرک میں محمد بن محمد بن خاتون، شمس الدین محمد الجزینی، شمس الدین محمد احمد السہیونی، علی بن ہلال الجزائری سے علم حاصل کیا۔ بعد ازاں جبل عامل چلے گئے جہاں وہ درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔

بحیثیت استاد[ترمیم]

جبل عامل میں ہی زين الدين بن نورالدین علي بن أحمد العاملي الجُبَعی نے اُن کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کیا۔ زين الدين بن نورالدین علي بن أحمد العاملي الجُبَعی نے محقق کرکی سے علامہ حلی کی تصنیف شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام پڑھی۔[3] 908ھ مطابق 1502ء تک مصر میں مقیم رہے جبکہ 909ھ مطابق 1503ء میں واپس نجف چلے آئے۔

صفوی سلطنت میں طلبی[ترمیم]

محقق کرکی وہ پہلے مجتہد شیعی عالم تھے جنہیں صفوی سلطنت کے شہنشاہ اسماعیل صفوی کی جانب سے فقہ شیعہ کے فروغ کے لیے اصفہان طلب کیا گیا، حالانکہ اِس سے قبل شہید ثانی کو بھی اصفہان طلب کیا گیا تھا۔[2]

خاندان[ترمیم]

محقق کرکی کے 2 فرزند اور 2 دختر تھیں۔ بڑا فرزند شیخ عبدالعالی تھا جو کاشان میں مقیم شیعی عالم تھا۔ دوسرا فرزند حسن تھا جو ایران میں مقیم رہا۔ ایک دختر کا عقد جبل عامل میں ہوا تھا جس کا ایک بیٹا میر سید حسین الحُسینی تھا جس نے اردبیل میں اقامت اختیار کی اور وہاں اسلامی موضوعات پر درس و تدریش میں مشغول رہا۔ دوسری دختر کی شادی میر شمس الدین محمد استرآبادی سے ایران میں ہوئی تھی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا جو میر داماد کے نام سے مشہور ہوا اور وہ ملا صدرا کے مشہور ترین تلامذہ میں سے تھا۔[4]

وفات[ترمیم]

تاریخ وفات میں اختلاف ہے، سید محسن الامین العاملی نے اعیان الشیعہ میں متعدد اقوال اِس بابت نقل کیے ہیں:

اِن تمام تر اختلافی تواریخ میں میرمحمد اسماعیل خاتون آبادی کا قول زیادہ راجح ہے کہ 18 ذوالحجہ 940ھ مطابق 29 جون 1534ء مطابق پیر کے تھا۔محقق کرکی نے 75 سال قمری کی عمر میں 29 جون 1534ء کو نجف میں وفات پائی۔

تصانیف[ترمیم]

محقق کرکی نے متعدد رسائل تصنیف کیے ہیں مگر اُن کی مشہور تصنیف جامع المقاصد فی شرح القواعد ہے۔

جامع المقاصد فی شرح القواعد[ترمیم]

یہ علامہ حلی (متوفی 27 دسمبر 1325ء) کی تالیف شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام (6 جلدیں) کی شرح ہے جو 13 جلدوں میں لکھی گئی ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سید محسن الامین العاملی: اعیان الشیعہ، جلد 8، صفحہ 208۔ مطبوعہ منشورات دارالتعارف، بیروت، لبنان
  2. ^ ا ب جعفر المہاجر: ستۃ فقہا ابطال، صفحہ 112۔ مطبوعہ مركز الدراسات والتوثيق، بیروت، لبنان، 1994ء
  3. زین الدین بن علی الشہید الثانی: التنبیہات العلیہ، تحقیق صفاء الدین بصری، صفحہ 28۔ مطبوعہ مجمع البحوث الاسلامیہ، مشہد، 1371 شمسی ہجری۔
  4. علی دوانی: مفاخرالاسلام، جلد 4، صفحہ 249/250۔ مطبوعہ انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تہران، 1386 شمسی ہجری۔