محمد ابراہیم بلیاوی
محمد ابراہیم بلیاوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 1880ء کی دہائی |
تاریخ وفات | 27 دسمبر 1967 |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
پیشہ | عالم |
ملازمت | دار العلوم دیوبند، دار العلوم مئو، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل |
درستی - ترمیم ![]() |
محمد ابراہیم بلیاوی دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت ، علوم عقلیہ ونقلیہ میں عدیم المثال ، اوربلند پایہ محقق اور ایک کامیاب مدرس اور ذی رایے شخصیت تھے ۔
خاندان و ولادت[ترمیم]
ان کا خاندان پنجاب کے ضلع جھنگ سے جون پور آیا تھا ، یہ گھرانہ ایک علمی گھرانہ سمجھا جاتا تھا ، پھر کچھ مدت بعد بلیا میں آباد ہو گیا ، 1304ھ میں بلیا ہی میں ولادت ہوئی ـ
تعلیم و تکمیل[ترمیم]
جون پور میں ابتدائی عربی و فارسی کی کتابیں مشہور طبیب حکیم جمیل الدین نگینوی سے پڑؑہیں ، معقولات کی کتابیں فاروق احمد چریاکوٹی اور ہدایت اللہ خاں (تلمیذ فضل حق خیرآبادی ) سے پڑھیں ، دینیات کی تعلیم کے لیے مولوی عبد الغفار کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جو رشید احمد گنگوہی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے ۔ 1325ھ کے اواخر میں دار العلوم دیوبند داخل ہوکر اولا ہدایہ اور جلالین وغیرہ کتابیں پڑھیں ، 1327ھ میں دار العلوم سے فارغ التحصیل ہویے ۔
تدریسی خدمات[ترمیم]
فراغت کے بعد اسی سال مدرسہ عالیہ فتح پوری کے مدرس دوم بنایے گئے ، پھر عمری ضلع مراد آباد کے مدرسہ میں کچھ عرصہ درس و تدریس میں مشغول رہے ۔
دار العلوم آمد[ترمیم]
1331ھ میں بلیاوی کو دار العلوم دیوبند بلایا گیا ، 1340ھ تک یہاں رہے ، 1333ھ کی روداد میں ان کاذکر ان کلمات کے ساتھ ہے :
” | مولوی محمد ابراہیم تمام علوم میں کامل الاستعداد ہیں ، معقول و فلسفہ کی تمام کتابیں نہایت خوبی سے پڑھاتے ہیں ، فلسفہ و منطق اور کلام کے انتہائی اسباق صدرا ، شمس بازغہ ، قاضی مبارک ، حمد اللہ ، امور عامہ (کتاب منطق) کے علاوہ شرح مطالع ، شرح اشارات وغیرہ پڑھاتے ہیں ، طلباء کا بہت زیادہ میلان ان کی طرف رہتا ہے ، نہایت خوش تقریرہیں ، غرض یہ ایک نہایت ابل قدر اور شہرت و وقعت حاصل کرنے والے مدرس ہیں۔ | “ |
1340ھ سے 1344ھ تک دار العلوم مئو ضلع اعظم گڑھ اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ بہار میں صدارت تدریس کی خدمات انجام دیں ، 1344ھ کو پھر دار العلوم بلایا گیا ۔
استعفی[ترمیم]
1362ھ میں سید محمد انور شاہ کشمیری کی متابعت میں پھر دار العلوم دیوبند سے استعفے دیا ،اولا جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں مسند صدارت کو رونق بخشی ، وہاں کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ عالیہ فتح پوری میں صدارت تدریس پر رہے ، بعد ازاں بنگال میں ہاٹ ہزاری ضلع چاٹگام کے مدرسہ میں صدر المدرسین رہے ـ
دار العلوم واپسی[ترمیم]
بالآخر 1366 میں محمد طیب قاسمی کی سفارش اور مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی منظوری دار العلوم دیوبند واپس ہویے ، 1377ھ میں حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد دار العلوم میں صدر المدرسین بنایے گئے اور تا دم واپسیں اس پر متمکن رہے ۔[1] ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے ، جو برصغیر کے علاوہ ایشیا و افریقہ کے بہت سے ملکوں میں پھیلے ہویے ہیں ۔
خصوصیات[ترمیم]
علوم کی مہارت کے سبب علامہ کہلاتے تھے ، دار العلوم کی درسی اصطلاح میں علامہ سے یہی مراد ہوتے ہیں ،ہر علم و فن اوعر خصوصا علم کلام و عقائد میں یگانہ روزگار تھے ، انھوں نے تفسیر و حدیث ، عقائد و علم کلام اور دوسرے علوم کی جو نمایاں خدمت انجام دیں وہ اپنی مثال آپ ہے ، ان کے درس و تدریس کی مدت 1327ھ سے 1387ھ تک 60 سال ہوتی ہے ، طلبہ ان کے درس میں نہایت ذوق وشوق اور انہماک سے شریک ہوتے تھے ، ان کے افادات عالیہ سے مستفید ہونے کے متمنی رہتے تھے ، انداز درس پراز وقار تھا ، اختصار کے ساتھ بڑی جامععیت کی شان تھی ، اگرچہ درس بڑا پر وقار تھا ، لیکن لطائف و ظرائف ، دقیقہ سنجی اور بالغ نظری سے اہم مسائل کو حل کرنے میں خاص ملکہ اور کمال حاصل تھا ، درس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ تلامذہ کو فن سے گہری مناسبت ہوجاتی تھی اور ان پر علم و دانش کی راہیں کھل جاتی تھیں ، اپنے عہد میں علم کلام عقائد میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ، حدیث میں روایت سے زیادہ درایت سے کام لیتے تھے ، علوم قاسمیہ پر گہری نظر تھی ۔
بیعت و خلافت[ترمیم]
شیخ الہند سے تلمذ کے علاوہ بیعت کا شرف بھی تھا ـ خوف خدا و کسر نفسی کا یہ عالم تھا اصلاح کے شاگرد کا دامن تھامنے میں جھجک نہ کی ، وصی اللہ الہ ابادی جو اشرف علی تھانوی کے خلیفہ اور علامہ بلیاوی کے بھی شاگرد تھے ، ان کے یہاں طالبانہ حاضر ہویے ، انھوں نے خلافت سے بھی نوازا ـ
تصانیف[ترمیم]
بلیاوی کی تصانیف میں رسالہ مصافحہ اور رسالہ تراویح اردو میں ہیں ، ایک رسالہ انوار الحکمہ فارسی میں ہے ، یہ رسالہ منطق و فلسفہ کے مضامین پر مشتمل ہے، سلم العلوم پر ان کا عربی حاشیہ ضیاء النجوم ہے ، میبذی اور خیالی پر بھی حواشی لکھے تھے جو افسوس کہ جائع ہو گئے ، آخر میں جامع ترمذی پر حاشیہ لکھ رہے تھے جس کی تکمیل کی داعی اجل کے اجازت نہ دی ۔
وفات[ترمیم]
ان کی صحت ایک عرصہ سے خراب ہو گئی تھی ، 24 رمضان 1387ھ مطابق 27 دسمبر 1967ء چہار شنبہ کی دوپہر کو 84 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ، قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔[2]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ "Darul Uloom Deoband". www.darululoom-deoband.com.
- ↑ http://www.besturdubooks.net/2013/09/29/mashahir-ulama-e-darul-uloom-deoband/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ besturdubooks.net (Error: unknown archive URL)