محمد ابراہیم بلیاوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد ابراہیم بلیاوی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1880ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 27 دسمبر 1967  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت دار العلوم دیوبند،  دار العلوم مئو،  جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد ابراہیم بلیاوی دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت ، علوم عقلیہ ونقلیہ میں عدیم المثال ، اوربلند پایہ محقق اور ایک کامیاب مدرس اور ذی رایے شخصیت تھے ۔

خاندان و ولادت[ترمیم]

ان کا خاندان پنجاب کے ضلع جھنگ سے جون پور آیا تھا ، یہ گھرانہ ایک علمی گھرانہ سمجھا جاتا تھا ، پھر کچھ مدت بعد بلیا میں آباد ہو گیا ، 1304ھ میں بلیا ہی میں ولادت ہوئی ـ

تعلیم و تکمیل[ترمیم]

جون پور میں ابتدائی عربی و فارسی کی کتابیں مشہور طبیب حکیم جمیل الدین نگینوی سے پڑؑہیں ، معقولات کی کتابیں فاروق احمد چریاکوٹی اور ہدایت اللہ خاں (تلمیذ فضل حق خیرآبادی ) سے پڑھیں ، دینیات کی تعلیم کے لیے مولوی عبد الغفار کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جو رشید احمد گنگوہی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے ۔ 1325ھ کے اواخر میں دار العلوم دیوبند داخل ہوکر اولا ہدایہ اور جلالین وغیرہ کتابیں پڑھیں ، 1327ھ میں دار العلوم سے فارغ التحصیل ہویے ۔

تدریسی خدمات[ترمیم]

فراغت کے بعد اسی سال مدرسہ عالیہ فتح پوری کے مدرس دوم بنایے گئے ، پھر عمری ضلع مراد آباد کے مدرسہ میں کچھ عرصہ درس و تدریس میں مشغول رہے ۔

دار العلوم آمد[ترمیم]

1331ھ میں بلیاوی کو دار العلوم دیوبند بلایا گیا ، 1340ھ تک یہاں رہے ، 1333ھ کی روداد میں ان کاذکر ان کلمات کے ساتھ ہے :

مولوی محمد ابراہیم تمام علوم میں کامل الاستعداد ہیں ، معقول و فلسفہ کی تمام کتابیں نہایت خوبی سے پڑھاتے ہیں ، فلسفہ و منطق اور کلام کے انتہائی اسباق صدرا ، شمس بازغہ ، قاضی مبارک ، حمد اللہ ، امور عامہ (کتاب منطق) کے علاوہ شرح مطالع ، شرح اشارات وغیرہ پڑھاتے ہیں ، طلباء کا بہت زیادہ میلان ان کی طرف رہتا ہے ، نہایت خوش تقریرہیں ، غرض یہ ایک نہایت ابل قدر اور شہرت و وقعت حاصل کرنے والے مدرس ہیں۔

1340ھ سے 1344ھ تک دار العلوم مئو ضلع اعظم گڑھ اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ بہار میں صدارت تدریس کی خدمات انجام دیں ، 1344ھ کو پھر دار العلوم بلایا گیا ۔

استعفی[ترمیم]

1362ھ میں سید محمد انور شاہ کشمیری کی متابعت میں پھر دار العلوم دیوبند سے استعفے دیا ،اولا جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں مسند صدارت کو رونق بخشی ، وہاں کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ عالیہ فتح پوری میں صدارت تدریس پر رہے ، بعد ازاں بنگال میں ہاٹ ہزاری ضلع چاٹگام کے مدرسہ میں صدر المدرسین رہے ـ

دار العلوم واپسی[ترمیم]

بالآخر 1366 میں محمد طیب قاسمی کی سفارش اور مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی منظوری دار العلوم دیوبند واپس ہویے ، 1377ھ میں حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد دار العلوم میں صدر المدرسین بنایے گئے اور تا دم واپسیں اس پر متمکن رہے ۔[1] ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے ، جو برصغیر کے علاوہ ایشیا و افریقہ کے بہت سے ملکوں میں پھیلے ہویے ہیں ۔

خصوصیات[ترمیم]

علوم کی مہارت کے سبب علامہ کہلاتے تھے ، دار العلوم کی درسی اصطلاح میں علامہ سے یہی مراد ہوتے ہیں ،ہر علم و فن اوعر خصوصا علم کلام و عقائد میں یگانہ روزگار تھے ، انھوں نے تفسیر و حدیث ، عقائد و علم کلام اور دوسرے علوم کی جو نمایاں خدمت انجام دیں وہ اپنی مثال آپ ہے ، ان کے درس و تدریس کی مدت 1327ھ سے 1387ھ تک 60 سال ہوتی ہے ، طلبہ ان کے درس میں نہایت ذوق وشوق اور انہماک سے شریک ہوتے تھے ، ان کے افادات عالیہ سے مستفید ہونے کے متمنی رہتے تھے ، انداز درس پراز وقار تھا ، اختصار کے ساتھ بڑی جامععیت کی شان تھی ، اگرچہ درس بڑا پر وقار تھا ، لیکن لطائف و ظرائف ، دقیقہ سنجی اور بالغ نظری سے اہم مسائل کو حل کرنے میں خاص ملکہ اور کمال حاصل تھا ، درس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ تلامذہ کو فن سے گہری مناسبت ہوجاتی تھی اور ان پر علم و دانش کی راہیں کھل جاتی تھیں ، اپنے عہد میں علم کلام عقائد میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ، حدیث میں روایت سے زیادہ درایت سے کام لیتے تھے ، علوم قاسمیہ پر گہری نظر تھی ۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

شیخ الہند سے تلمذ کے علاوہ بیعت کا شرف بھی تھا ـ خوف خدا و کسر نفسی کا یہ عالم تھا اصلاح کے شاگرد کا دامن تھامنے میں جھجک نہ کی ، وصی اللہ الہ ابادی جو اشرف علی تھانوی کے خلیفہ اور علامہ بلیاوی کے بھی شاگرد تھے ، ان کے یہاں طالبانہ حاضر ہویے ، انھوں نے خلافت سے بھی نوازا ـ

تصانیف[ترمیم]

بلیاوی کی تصانیف میں رسالہ مصافحہ اور رسالہ تراویح اردو میں ہیں ، ایک رسالہ انوار الحکمہ فارسی میں ہے ، یہ رسالہ منطق و فلسفہ کے مضامین پر مشتمل ہے، سلم العلوم پر ان کا عربی حاشیہ ضیاء النجوم ہے ، میبذی اور خیالی پر بھی حواشی لکھے تھے جو افسوس کہ جائع ہو گئے ، آخر میں جامع ترمذی پر حاشیہ لکھ رہے تھے جس کی تکمیل کی داعی اجل کے اجازت نہ دی ۔

وفات[ترمیم]

ان کی صحت ایک عرصہ سے خراب ہو گئی تھی ، 24 رمضان 1387ھ مطابق 27 دسمبر 1967ء چہار شنبہ کی دوپہر کو 84 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا ، قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Darul Uloom Deoband". www.darululoom-deoband.com. 
  2. http://www.besturdubooks.net/2013/09/29/mashahir-ulama-e-darul-uloom-deoband/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ besturdubooks.net (Error: unknown archive URL)