محمد ادریس کاندھلوی
محمد ادریس کاندھلوی | |
---|---|
(عربی میں: محمد إدريس الكاندهلوي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 20 اگست 1899ء بھوپال |
وفات | 28 جولائی 1974ء (75 سال) لاہور |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
اولاد | محمد مالک کاندھلوی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | مظاہر علوم سہارنپور دار العلوم دیوبند |
استاذ | خلیل احمد انبہٹوی ، محمد رسول خان ہزاروی ، عبد الرحمن کامل پوری |
پیشہ | عالم ، مصنف ، معلم |
کارہائے نمایاں | سیرت مصطفی ، معارف القرآن ، التعلیق الصبیح علی مشکوۃ المصابیح |
تحریک | دیوبندی |
درستی - ترمیم |
شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی معارف القرآن اور سیرت مصطفی کے مصنف ہیں۔[1]
ولادت
[ترمیم]آپ 12 ربیع الثانی 1317ھ بمطابق20 اگست 1899ء میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ آپ کاآبائی وطن کاندھلہ تھا۔ آپ کے والد کا نام مولانا حافظ محمد اسماعیل کاندھلوی تھا ،جو صاحب نسبت بزرگ تھے اور حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید تھے اور محکمہ جنگلات میں افسر کا کام کرتے تھے۔ (علم تفسیر اور اس کا ارتقا،ص:290) آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
تعلیم
[ترمیم]آپ نے کاندھلہ میںقرآن مجید حفظ کیا۔ پر دینی تعلیم کے لیے مدرسہ اشرفیہ تھانہ بھون میں داخل ہوئے اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒسے پڑھیں۔ پھر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں تفسیر میں تفسیر و حدیث، فقہ کلام، منطق و فلسفہ اور دیگر علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ 19 برس کی عمر میں تمام علوم و فنون کی تعلیم سے فراغت حاصل کی۔ لیکن پھر دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور دوبارہ دورہ حدیث سے کیا۔
مشہور اساتذہ
[ترمیم]علمائے دین خلیل احمد سہارنپوری، حافظ عبد اللطیف، مولانا ثابت علی، اشرف علی تھانوی، علامہ انور شاہ کشمیری علامہ شبیر احمد عثمانی، عزیز الرحمٰن عثمانی، میاں اصغر حسین دیوبندی، آپ کے اساتذہ ہیں۔
تدریس
[ترمیم]فراغت کے بعد 1921ء میں مفتی کفایت اللہ دہلوی کے مدرسہ امینیہ دہلی میں ایک سال مدرس رہے۔ پھر دار العلوم دیوبند سے وابستہ ہوئے اور تقریباً 9 برس تک درس و تدریس دیتے رہے۔ پھر حیدرآباد، دکن میں تشریف لے گئے جہاں 9 برس تک قیام فرمایا۔ 1939ء میں دوبارہ دار العلوم میں شیخ التفسیرکے طور ر تعینات ہوئے اور یہاں بیضاوی ،تفسیر ابن کثیر سنن ابی داود اور طحاوی کی مشکل الآثار پڑھائیں۔ آپ دو قومی نظریہ کے زبردست حامی تھے۔ پھر1949ء میں پاکستان تشریف لائے اور 2 برس جامعہ عباسیہ بہاولپور میں شیخ الجامعہ کی حیثیت سے قیام فرمایا۔ پھر لاہور میں جامعہ اشرفیہ میں شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تا دم زندگی اسی سے وابستہ رہے۔
بیعت و اجازت
[ترمیم]آپ کو روحانی سلسہ اشرف علی تھانوی سے منسلک تھا۔
تصانیف
[ترمیم]- تفسیر معارف القرآن، (22 پارے)
- التعلیق الصبیح علی مشکوۃ المصابیح(عربی)، (8 جلد)
- سیرت مصطفیٰﷺ (4 جلد)
- الفتح السماوی بتوضیح تفسیر البیضاوی،(22 جلد/ عربی)
- احکام القرآن (جلد خامس)،
- عقائد اسلام،
- علم الکلام،
- خلافت راشدہ،
- ختم نبوت ،
- حجیت حدیث ،
- تحفۃ القاری بحل مشکلات البخاری
- دلائل الفرقان علی مذہب النعمان (عربی)
- اعجاز القرآن
- القول والحکم
- لطائف الحکم فی اسرار نزول عیسی بن مریم
- اسلام اور مرزائیت کا اصولی اختلاف
- مقدمہ الحدیث
- شرائط مفسر و مترجم (اردو)
- مواعظ حسنہ
اہم کارنامے
[ترمیم]- آپ نے کراچی سے خیبر تک تبلیغی دورے کیے اور اعلائے کلمہ الحق بلند کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کی اصلاح فرمائی۔
- آخری دم تک پاکستان میں نطام اسلام کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے۔
- تحریک ختم نبوتﷺ میں بھر پور حصہ لیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ قادیانیت کی تردید کرتے رہے۔
وفات
[ترمیم]8رجب المرجب 1394ھ بمطابق28 جولائی 1974ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے[2]آپ کی نماز جنازہ آپ کے بیٹے مولانا محمد مالک کاندھلوی نے پڑھائی
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 17 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018
- ↑ تفسیر معارف القرآن، محمد ادریس کاندھلوی،جلد 1،صفحہ 3تا6، مکتبہ المعارف شہداد پور سندھ پاکستان
- 1899ء کی پیدائشیں
- 20 اگست کی پیدائشیں
- 1974ء کی وفیات
- 28 جولائی کی وفیات
- لاہور میں وفات پانے والی شخصیات
- دار العلوم دیوبند کے فضلا
- بیسویں صدی کے مسلمان محققین اسلام
- بھوپال کی شخصیات
- پاکستانی محققین
- لاہوری شخصیات
- مفسرین
- مہاجر شخصیات
- دیوبندی شخصیات
- پاکستان کے سنی علما
- دار العلوم دیوبند کا تدریسی عملہ
- حفاظ قرآن
- مظاہر علوم کے فضلا