محمد اللہ بخش

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو الفتح محمد اللہ بخش
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد اللہ بخش
پیدائش 4 محرم، 1348ھ/12جون1929ء
شادیا ضلع میانوالی
تاریخ وفات 5 رمضان المبارک، 1394ھ/22 ستمبر1974ء
مذہب اسلام
عملی زندگی
ادبی تحریک اہلسنت
مادر علمی دار العلوم ضیاء شمس الا سلام ، سیال شریف
کارہائے نمایاں بہت بڑے مدرس
باب ادب

مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش واں بھچراں فخر المدرسین اہلسنت کے اکابرین میں شمار ہوتے ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

علامہ ابو الفتح محمد اللہ بخش بن مولانا فضل احمد بن مولانا سید رسول بن میاں شیخ احمد

ولادت[ترمیم]

4 محرم،12جون (1348ھ/1929ء بروز بدھ موضع شادیا ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے ،

تعلیم و تربیت[ترمیم]

والد ماجد سے قرآن پاک حفظ کیا اور مقامی اسکول میں مڈل تک تعلیم حاصل کی ، صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں محلہ بلو خیل (میانوالی ) میں اپنے وقت کے مشہور مدرس حافظ محمد احمد سے پڑھیں ، حافظ صاحب دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، ان کی کوشش کے با وجود مولانا اللہ بخش کا ذہن سلیم اعتقادی طور پر ان سے ہم آہنگ نہ ہو سکا ، پھر قسمت نے یا وری کی تو دور حاضرہ کے سب سے بڑ ے فیض رساں مدرس مولانا حافظ عطا محمد چشتی کی بارگاہ میں دار العلوم ضیاء شمس الا سلام ، سیال شریف حاضر ہوئے اور معقول و منقول کے بعد محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل سردار احمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صحاح ستہ کا درس لے کر 1375ھ/1956ء میں دستار فضیلت ادر سند فراغت حاصل کی [1]

درس و تدریس[ترمیم]

فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال مدرسہ احسن المدارس مرکزی جامع مسجد ، راولپنڈی اور ایک سال جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور میں قابل ستائش تدرسی خدمات انجام دیں ، قیام لاہور کے دوران میں جامع مسجد بیڈن روڈ میں خطیب رہے ،1959ھ میں واں بھچراں (میانوالی) کے مشہور دویش منش رئیس ملک مظفر خان بہادر شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی کی رضا مندی اور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد کی اجازت سے یہ حیثیت خطیب مدرس اور مہتمم آپ کو واں بھچراں لے گئے۔ واں بھچراں کا ریگزار ایک عرصہ تک مولوی حسین علی ( مؤلف بلغۃ الحیران) کے دور کی تشرف آوری نے فسوں کا ری کے اس ماحول پر شدید ضرب لگائی تھی ، بعد ازاں مولوی حسین علی کے شاگرد مولوی غلام یٰسین بائیس سال تک سنیت کا لبادہ اوڑھ کر جامع مسجد مظفریہ ، واں بھچراں خطیب رہے ، شیخ الاسلام خواجہ محمد قمرالدین سالوی کی نگاہ التفات نے انھیں بے نقاب کر کے علحٰیدہ گی پر مجبور کر دیا، یہ بھی ان بزرگان دین کی توجہات کا ثمرہ تھاکہ مولانا محمد اللہ بخش کی آمد سے قصبہ واں بھچراں گلستان سنیت بن گیا، ان کے روح پر ور بیانات اہل دل کے لیے نسیم سحری ثابت ہوئے جا بجا صلوٰۃ و سلام کے کیف آور نغمے گونجنے لگے ، میلاد شریف کے جلوس سے عبد کا سماں بدھے لگائواں بھچراں کی تاریخ میں پہلی دفعہ آپ کے زیر اہتمام یوم رضا منایا گیا۔

اولاد[ترمیم]

ابو الفتح محمد اللہ بخش کی شادی 1964ء میں میانوالی کے علمی گھرانے میں ہوئی ، آپ کی اولاد میں دو صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ رضاء المصطفٰی یادگار ہیں ۔

وفات[ترمیم]

5 رمضان المبارک، 22 ستمبر 1394ھ/1974ء کو دل کا دورہ پرا جو جان لیوا ثابت ہوا۔[2] [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مکتوب مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش بنام عبد الحکیم شرف قادری ، 21 رمضان المبارک 1391ھ۔
  2. ماہنامہ ترجمان اہل سنت کراچی جنوری 2975ھ، ص 43 تا 47۔
  3. تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:صفحہ 76 نوری کتب خانہ لاہور