محمد حسین بٹالوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محترم فاضل ابوسعید محمد حسین بن رحیم بخش بن ذوق محمد ہندی بٹالوی
معلومات شخصیت
پیدائش 17 محرم الحرام 1652 ھ مطابق 10 فروری 1841
بٹالہ، ضلع گورداس پور ( مشرقی پنجاب ) ہندوستان
وفات مولانا محمد حسین بٹالوی نے 29 جنوری 1920 ءبمطابق 1338 ھ بٹالہ میں انتقال کیا ۔

شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری نے نماز جنازہ پڑھائی ۔

’’ ‘‘ ( سیرت ثنائی ص 53 )
بٹالہ
رہائش بٹالہ ، ضلع گورداس پور ، مشرقی پنجاب ، ہندوستان
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکتب فکر اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث
عملی زندگی
استاذ سید نذیر حسین دہلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر شیخ الکل میاں نذیر حسین محدّث دہلوی محدّثِ دیارِ ہند نواب صدیق حسن خان
اعزازات
دیگر خدمات جلیلہ:

مولانا بٹالوی مرحوم کی یہ خدمت بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اہل حدیث جماعت کو اہل السنۃ اہلِ حدیث کے مُخالفین مختلف فرقہ پرستوں کی جانب سے لفظ ” وہابی “ سے (بطورِ گالی و باغی) موسوم کیا جاتا تھا۔ مولانا بٹالوی نے سرکاری کاغذات سے لفظ ’’وہابی‘‘ ختم کرا کر جو ایک وضعی نام تھا باقاعدہ ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ لکھوایا۔ جو اہل الحدیث کی امتیازی عملی پہچان ہے کہ وہ ہر معاملہ میں قرآن و حدیث ہی کو سب سے مقدّم رکھتے ہیں۔ مولانا عبد المجید سوہدروی لکھتے ہیں کہ: لفظ ” وہابی “ آپ ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا۔ اور جماعت کو ’’اہل حدیث‘‘ کے نام موسوم کیا گیا ۔ ( سیرت ثنائی ص 452 )

مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری لکھتے ہیں: تحریک جہاد اور مجاہدین کی وجہ سے اہل حدیث جبر و تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ انگریز اور ترک وہابی (یعنی اہلِ حدیث) کو باغی سمجھتے تھے۔ بدعتی اور قبور پرست لوگ وہابی کو مذہبی گالی کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ مولانا بٹالوی مرحوم کی کوشش سے قانونا اس ” تنابزوا بالالقاب “ کو روکا گیا۔ اور اہل حدیث کا لفظ تجویز کیا گیا۔ مولانا بٹالوی نے ازراہِ اخلاص یہ تحریک فرمائی۔ ( تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں ص 410 )

نیز مولانا محمد حسین بٹالوی کا شمار شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں ہوتا تھا۔ اور میاں صاحب دہلوی ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ استاد اور شاگرد میں بہت گہرے تعلقات تھے۔

میاں صاحب مولانا بٹالوی مرحوم کے صاجزادے شیخ عبد السلام کی شادی میں شریک ہوئے تھے اور برات بٹالہ سے سیالکوٹ آئی تھی اور میاں صاحب سیالکوٹ بھی تشریف لے گئے ۔ ( تاریخ اہل حدیث ص 425 )

' ابو سعید محمد حسین بٹالوی [ترمیم]

انیسویں صدی کے وسط و آخر اور بیسویں ویں صدی کے اوائل میں پنجاب (برطانوی ہندوستان) کے معروف و بڑے اہل حدیث عالم دین اور محدث   تھے۔

پیدائش 17 محرم الحرام 1652 ھ مطابق 10 فروری 1841ء

بٹالہ، ضلع گورداس پور ( مشرقی پنجاب ) ہندوستان

رہائش بٹالہ ، ضلع گرداس پور ، مشرقی پنجاب ، ہندوستان
شہریت ہند  ی
پیشہ محدث  
مکتب فکر اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث
تعلیم

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ۔ اس کے بعد دہلی کا رخ کیا ۔ اور مفتی صدر الدین دہلوی اور مولانا نور الحسن کاندہلوی سے علوم اسلامیہ کی تحصیل کی ۔ اس کے بعد علی گڑھ اور لکھنؤ بھی گئے ۔ اور ان دونوں شہروں کے نامور علماءسے استفادہ کیا ۔ 1282 ھ میں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320 ھ ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں کافی عرصہ رہ کر حدیث کی تکمیل کی ۔ صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں : ’’ ثم لازم السید نذیر حسین المحدث وقرا عليه الموطا والمشکوٰة والصحاح الستة وصحبه مدة‘‘

” السید نذیر حسین محدث کی صحبت اپنے اوپر لازم کر کے آپ سے موطا‘ مشکوٰۃ اور صحاح ستہ پڑھی‘ اور ایک مدت تک آپ کی صحبت میں رہے ۔ “ ( نزہۃ الخواطر 427/8 )

وطن واپسی :[ترمیم]

تحصیل علم کے بعد وطن واپس آ کر اپنے استاد حدیث شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے طریقہ کے مطابق فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کا درس شروع کیا ۔ جس کی وجہ سے دور دور تک آپ کی شہرت ہو گئی ۔

مولانا حکیم سید عبد الحئی حسنی فرماتے ہیں کہ

” شیخ سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے راستہ پر جو مسجد ہے اس میں ہر روز صبح کے وقت تفسیر سناتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی شہرت خوب ہوئی ۔ اور آپ کی فضیلت سب پر ظاہر ہو گئی ۔ “ ( نزہۃ الخواطر 427/8 )

اخلاق و عادات مولانا محمد حسین بٹالوی زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کے درجہ کمال پر فائز تھے ۔ عابد ، ذاکر اور شب زندہ انسان تھے ۔ حق گوئی اور بیباکی میں اپنی مثال آپ تھے ۔

مسلکِ محدّثین اہل حدیث کی اشاعت اور اس کی ترقی و ترویج میں ان کی خدماتِ جلیلہ کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا بٹالوی کچھ مدت اپنے وطن بٹالہ میں مقیم رہے پھر لاہور آ گئے ۔ پہلے بھاٹی گیٹ کی مسجد میں اقامت اختیار فرمائی ، پھرمسجد چینیانوالی میں آ گئے ۔ لاہور میں سنّتِ نبویﷺ کے مطابق آٹھ رکعات تراویح کی ترویج آپ ہی سے ہوئی۔

عملی زندگی

اشاعت السنہ کا اجرا :[ترمیم]

1292ھ 1877/ ءمیں آپ نے ماہنامہ اشاعۃ السنہ جاری کیا جس کا مقصد اسلام اور اہل حدیث مسلک کی اشاعت تھا ۔ مولوی ابویحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں کہ :

” جماعت اہل حدیث کا سب سے پہلا رسالہ ( اشاعۃ السنہ ) جس نے کئی سال تک علم و فن کی خدمت کی ، عیسائیوں کے الزامات کا جواب دیا ۔ اور مرزائے قادیان کے کفر کا استیصال کیا ۔ “ ( جماعت اہل حدیث کی علمی خدمات ص 100 )

صاحب نزہۃ الخواطر فرماتے ہیں:

’’ فانشا مجلة شهریة سماها ” اشاعة السنة “ وکان یبحث فيها عن مذاهب البدعة ویرد علی السید احمد بن المتقی الدهلوی وکذلك یرد علی مرزا غلام أحمد القادیانی وکذ لك یرد علی عبد الله الجكرالوی ویرد علی کل من یخالفه‘‘

” آپ نے ایک ماہوار رسالہ نکالا جس کا نام آپ نے ” اشاعة السنہ “ رکھا تھا جس میں خاص طور سے بدعتی مذاہب سے متعلق بحث فرماتے ۔ اور سید احمد بن متقی دہلوی کا رد فرماتے ۔ اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی اور عبد اللہ چکڑالوی اور ہر اس شخص کا رد فرماتے جو آپ کے مخالف ہوتا ۔ ( نزہۃ الخواطر 427/8 )

پروفیسر محمد مبارک لکھتے ہیں کہ : اشاعة السنہ کے ذریعے ایک طرف آپ نے سرسید احمد خاں کے باطل نظریات اور قادیانیت و عیسائیت کا رد کیا ۔ اور دوسری طرف مقلدین احناف سے بھی خوب ٹکر لی ۔ ( حیات شیخ سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ص 76 )

مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری لکھتے ہیں کہ مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی ماہنامہ ” اشاعة السنہ “ بھی نکالتے تھے ۔ علمی دنیا میں بلا تفریق و تمیز مسلک ( جید ) علمائے کرام میں اس کی دھوم تھی ۔ ” اشاعة السنہ “ میں قادیانیت کی تردید ، مرزا غلام احمد کی تکذیب و تکفیر‘ منکرین حدیث کی گرفت‘ بدعات و منکرات کے انسداد‘ تقلید و جمود کے خلاف جہاد جیسے مضامین شائع ہوتے تھے ۔ اور اکثر مضامین مولانا بٹالوی کے اپنے قلم سے ہوتے ۔ ( تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں ص 410 )

تصانیف:[ترمیم]

آپ جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مُختلف علمی و تحقیقی مہارات کے حامل تھے وہاں ایک بلند پائے کے مصنف اور قلم کار بھی تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر درج ذیل کتابیں تصنیف فرمائیں:

1 ۔ منہج الباری فی ترجیح صحیح البخاری ۔ 2 ۔ الاقتصاد فی بیان الاعتقاد ۔ 3 ۔ المفاتیح فی بحث التراویح ۔ 4 ۔ ہدایۃ الرب لاباحۃ الضب ۔ 5 ۔ سجدہ تعظیم ۔ 6۔البیان فی رد البرہان ۔ 7۔کشف الاسقار عن وجہ الاظہار ۔ 8۔البرہان الساطع ۔ 9 ۔ المشروع فی ذکر الاقتداءبالمخالفین فی الفروع ۔ 10۔خیالی مسیح اور اس کے فرضی حواری سے گفتگو ۔ 11 ۔ تین گواہ ۔ 12 ۔ مرزا قادیانی اور مرزائیوں کے بارے میں چند سوالات ۔ 13 ۔ الاقتصاد فی حکم الشہادۃ والمیلاد ۔ 14 ۔ الاجتہاد والتقلید ۔

== ' ==

خدماتِ جلیلہ[ترمیم]

قادیانیت کی تردید :[ترمیم]

قادیانی گروہ کی تردید اور اس فرقہ کو بیخ و بن سے اکھاڑنے میں علمائے اہل حدیث کی خدماتِ جلیلہ نہایت قدر و اعتبارکے قابل ہیں ۔

مشہور صحافی آغا شورش کاشمیری مرحوم، قادیانیت کی تردید میں علمائے اہل حدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

علمائے اہل حدیث نے مرزا صاحب کے کفر کا فتویٰ دیا ۔ ان کا فتویٰ ’’فتاویٰ نذیریہ جلد اول کے صفحہ 4 ‘‘پر موجود ہے ۔ مرزا صاحب اس فتویٰ سے تلملا اٹھے ۔ اور میاں صاحب کو مناظرہ کا چیلنج دیا ۔ میاں صاحب سو برس سے اوپر ہو چکے تھے ۔ اور انتہائی کمزور تھے ۔ آپ نے مرزا صاحب کے چیلنج کو اپنے تلامذہ کے سپرد کیا ۔ مرزا صاحب اپنی عادت کے مطابق فرار ہو گئے ۔ جن علمائے اہل حدیث نے مرزا صاحب اور ان کے بعد قادیانی امت کو زیر کیا ۔ ان میں مولانا محمد بشیر سہوانی‘ قاضی محمد سلیمان منصورپوری‘ اور مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی سرفہرست تھے لیکن جس شخصیت کو علمائے اہل حدیث میں فاتح قادیان کا لقب ملا وہ ’’مولانا ثناء اللہ امرتسری‘‘ تھے ۔ انھوں نے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کو لوہے کے چنے چبوا دیے ۔ اپنی زندگی ان کے تعاقب میں گزار دی ۔ ان کی بدولت قادیانی جماعت کا پھیلاؤ رک گیا ۔ مرزا صاحب نے تنگ آ کر انھیں خط لکھا کہ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا ہے اور صبر کرتا رہا ہوں ، اگر میں کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ لکھتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا ، ورنہ آپ سنت اللہ کے مطابق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے ۔ خدا آپ کو نابود کر دے گا ۔ خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسد اور کذاب کو صادق کی زندگی میں اٹھائے ۔ ( خط مورخہ 15اپریل 1907 )

اس خط کے’’ ایک سال ایک ماہ اور بارہ دن‘‘ بعد مرزا صاحب لاہور میں اپنے میزبان کے بیت الخلا میں دم توڑ گئے ۔ مولانا ثناء اللہ نے 15 مارچ1948ءکو سرگودھا میں رحلت فرمائی ۔ وہ مرزا صاحب کے بعد 40 سال تک زندہ رہے ۔

ان کے علاوہ مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی‘ مولانا عبد اللہ معمار‘ مولانا محمد شریف کڑیالوی‘ مولانا عبد الرحیم لکھو والے‘ مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی‘ مولانا حافظ محمد گوندلوی‘ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل گوجرانوالہ‘ مولانا محمد حنیف ندوی‘ بابو حبیب اللہ‘ اور حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری وغیرہ نے قادیانی امت کو ہر دینی محاذ پر خوار کیا ۔

اس سلسلہ میں غزنوی خاندان نے عظیم خدمات سر انجام دیں ۔ مولانا سید داؤد غزنوی جو جماعت اہل حدیث کے امیر اور مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری رہے ، انھوں نے اس محاذ پر بے نظیر قائم کیا۔(تحریک ختم نبوت ص 40-41 )

شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری نے بھی تردید قادیانیت کے سلسلہ میں اپنی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کی خدمات جلیلہ کا ذکر کیا ہے ۔

مولانا امرتسری فرماتے ہیں کہ :

کان پور سے فارغ ہوتے ہی میں اپنے وطن پنجاب پہنچا ۔ مدرسہ تائید الاسلام امرتسر میں کتب درسیہ نظامیہ کی تعلیم پر مامور ہوا ۔ طبیعت میں تجسس زیادہ تھا ۔ اس لیے ادھر ادھر سے ماحول کے مذہبی حالات دریافت کرنے میں مشغول تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اسلام کے سخت بلکہ سخت ترین مخالف’عیسائی‘اور ’آریہ‘ دو گروہ ہیں ۔ انہی دنوں قریب میں قادیانی تحریک پیدا ہو چکی تھی جس کا شہرہ ملک میں پھیل چکا تھا ۔ مسلمانوں کی طرف سے اس دفاع کے علمبردار مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی مرحوم تھے ۔ ( اخبار اہل حدیث امرتسر22 جنوری 1942 ء ، بحوالہ حیات ثنائی از مولانا محمد داؤد راز ص 179 )

مولانا بٹالوی مرحوم کی فتنہ قادیانیت کی تردید میں خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبد المجید خادم سوہدروی مرحوم ’’سیرت ثنائی ‘‘میں لکھتے ہیں کہ مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے قادیانی فتنہ کا سر سب سے پہلے کچلا‘ اور ہندوستان کے علماءسے فتویٰ حاصل کر کے شائع کیا ۔ ( سیرت ثنائی ص 452 ، مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور مئی1989 ء )

مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف ، مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی مرحوم و مغفور کی خدماتِ جلیلہ کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ :

شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شرف تلمذ سے بہرہ ور مولانا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر ( م 1920 ء ) کی شخصیت بھی اپنے نامور استاد کی طرح محتاجِ تعارف نہیں ۔

مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت و فطانت‘ فہم و ذکاءاور علم و تفقّہ سے حظِّ وافر عطا فرما دیا تھا ۔ اور ساتھ ہی اس توفیق سے بھی نوازا کہ انھوں نے اس خداداد صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین اسلام ، خالص اور بے آمیز اسلام کی تبلیغ ، اس کی نشر و اشاعت اور اس کی وکالت و دفاع میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا ۔ چنانچہ اپنے وقت کے تمام اہم فتنوں کے استیصال میں وہ سرگرم رہے۔ اور اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور تندہی سے سر انجام دیا ۔ جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء۔

مولانا مرحوم کے دور میں حسبِ ذیل فتنے نمایاں تھے :[ترمیم]

1 ۔ سرسید اور ان کے رفقاءکی نیچریت ( جو معجزات قرآنی اور احادیث کے انکار کی تحریک تھی )

2 ۔ عیسائیوں کی، خلافِ اسلام سرگرمیاں

3 ۔ علمائے احناف کا فقہی جمود پر اصرار‘ اور تحریکِ احیاءِعمل بالحدیث کے خلاف ان کی جارحانہ مساعی۔

4۔مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی اور خود ساختہ نبوت ۔

ان چاروں علمی محاذوں پر مولانا بٹالوی مرحوم نے بیک وقت جنگ لڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر و انشاءکا سلیقہ‘ قوت استدلال کا جوہر‘ اور نقد و تحقیق کا ملکہ خوب خوب عطا کیا تھا ۔ انھوں نے مذکورہ فتنوں کے استیصال کے لیے اپنے پرچے ” اشاعۃ السنہ “ کو وقف کیے رکھا ۔ اور اس کے صفحات پر اپنے علمی جواہر اور نقد و تحقیق کے موتی بکھیرتے رہے ۔ لطف یہ ہے کہ پورا پورا پرچہ مولانا بٹالوی کے زورِ قلم کا شاہکار ہوتا ۔

چنانچہ انھوں نے:

1 ۔ رد نیچریت پر بھی بھرپور علمی وار کیا ۔

2 ۔ عیسائیت کی تردید بھی خوب خوب کی ۔

3۔اہلِ تقلید سے بھی نبرد آزما ہوئے ۔

4 ۔ فتنہ مرزائیت کے استیصال کے لیے شب و روز سرگرم رہے ۔

آخر الذکر فتنہ چونکہ ان کے سامنے ہی پیدا ہوا تھا ۔ ان کے دیکھتے دیکھتے ہی اس نے بال و پر نکالے تھے۔ اور اپنے عواقب کے لحاظ سے بھی یہ نہایت خطرناک تھا ۔ اس لیے قدرتی طور پر مولانا مرحوم نے اس کی تردید میں پورا زور صرف کیا ۔ اور دلائل کا تار و پور بکھیرا اور ہر محاذ پر اس سے ٹکر لی کہ:

1 ۔ براہ راست مرزا غلام احمد قادیانی سے مباحثہ کیا ۔

2 ۔ اس کو دعوت مباہلہ دی ۔

3۔اس کے علم ِکلام کا علمی پوسٹ مارٹم کیا ۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور امت ِمرزائیہ کی تکفیر پر سب سے پہلا متفقہ فتویٰ:[ترمیم]

اور جب اس نے تینوں محاذوں سے پسپائی اختیار کی ۔ تو پھر مولانا بٹالوی نے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ ما یستحقہ ، کے بارے میں ایک مفصل باحوالہ استفتاءمرتب کیا ۔ جس میں اس کی کتابوں سے اس کے عقائد نقل کیے اور سب سے پہلے یہ استفتاءاپنے استاد محترم شیخ الکل کی خدمت میں پیش کیا ۔ جس کا انھوں نے مفصل اور زور دار جواب لکھا ۔ جس میں انھوں نے واضح کیا کہ:

استفتاءمیں درج عقائد کا حامل اور اس کے پیروکار اہل سنت سے خارج ہیں ۔ نہ ان کی نمازِ جنازہ جائز ہے‘ اور نہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں انھیں دفن کیاجائے ۔

پھر اس فتویٰ کی تائید و تصویب مولانا بٹالوی نے متحدہ ہندوستان ( پاک و ہند ) کے تمام سر بر آوردہ اور ممتاز علماءسے کرائی ۔ اور تقریبا دو صد علماءکے مواہیر اور دستخطوں کے ساتھ اس فتویٰ کو شائع کیا ۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور امت مرزائیہ کی تکفیر پر یہ سب سے پہلا متفقہ فتویٰ ہے ۔ جو مولانا بٹالوی اور شیخ الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی مشترکہ مساعی کے نتیجہ میں ظہور میں آیا ۔(پاک و ہند میں علمائے اسلام کا متفقہ فتویٰ مطبوعہ لاہور 1986ص 5-6 )

یہ فتویٰ مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات ( مئی 1908 ء ) سے کئی سال قبل شائع ہوا تھا ۔ اور نایاب تھا ۔ نومبر1986 ءمیں مشہور عالم دین اور محقق شارح مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ( م 1987 ء ) نے اس فتویٰ کو دوبارہ شائع کیا ( صفحات کی تعداد 188 ہے )

اعزازات
مولانا سید عبد الحئی حسنی لکھتے ہیں : الشیخ الفاضل ابو سعید محمد حسین بن رحیم بخش بن ذوق محمد الہندی البطالوی اھل کبار العلماء۔ ” محترم فاضل ابوسعید محمد حسین بن رحیم بخش بن ذوق محمد ہندی بٹالوی بڑے علماءمیں سے تھے ۔ “۔(نزہۃ الخواطر427/8 )

نیز مولانا محمد حسین بٹالوی کا شمار شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں ہوتا تھا۔ اور میاں صاحب دہلوی ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ استاد اور شاگرد میں بہت گہرے تعلقات تھے۔

میاں صاحب مولانا بٹالوی مرحوم کے صاجزادے شیخ عبد السلام کی شادی میں شریک ہوئے تھے اور برات بٹالہ سے سیالکوٹ آئی تھی اور میاں صاحب سیالکوٹ بھی تشریف لے گئے ۔ ( تاریخ اہل حدیث ص 425 )

سرکاری کاغذات سے لفظِ وہابی ختم کرا کر’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ لکھوایا[ترمیم]

مولانا بٹالوی مرحوم کی یہ خدمت بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اہل حدیث جماعت کو اہل السنۃ اہلِ حدیث کے مُخالفین مختلف فرقہ پرستوں کی جانب سے لفظ ” وہابی “ سے (بطورِ گالی ) موسوم کیا جاتا تھا۔

مولانا بٹالوی نے سرکاری کاغذات سے لفظ ’’وہابی‘‘ ختم کرا کر جو ایک وضعی نام تھا باقاعدہ ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ لکھوایا۔ جو اہل الحدیث کی امتیازی عملی پہچان ہے کہ وہ ہر معاملہ میں قرآن و حدیث ہی کو سب سے مقدّم رکھتے ہیں۔

مولانا عبد المجید سوہدروی لکھتے ہیں کہ:

لفظ ” وہابی “ آپ ہی کی کوشش سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا۔ اور جماعت کو ’’اہل حدیث‘‘ کے نام موسوم کیا گیا ۔ ( سیرت ثنائی ص 452 )

مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری لکھتے ہیں:

تحریک جہاد اور مجاہدین کی وجہ سے اہل حدیث جبر و تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ انگریز اور ترک وہابی (یعنی اہلِ حدیث) کو باغی سمجھتے تھے۔ بدعتی اور قبور پرست لوگ وہابی کو مذہبی گالی کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ مولانا بٹالوی مرحوم کی کوشش سے قانونا اس ” تنابزوا بالالقاب “ کو روکا گیا۔ اور اہل حدیث کا لفظ تجویز کیا گیا۔ مولانا بٹالوی نے ازراہِ اخلاص یہ تحریک فرمائی۔ ( تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں ص 410 )

استاذ محدثِ اعظم شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلوی

  محدّثِ دیارِ ہند نواب صدیق حسن خان

وفات مولانا محمد حسین بٹالوی نے 29 جنوری 1920ءبمطابق 1338 ھ بٹالہ میں انتقال کیا ۔

شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری نے نماز جنازہ پڑھائی ۔

 ‘‘ ( سیرت ثنائی ص 53 )

حوالہ جات[ترمیم]