محمد حمید شاہد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد حمید شاہد
معلومات شخصیت
پیدائش 23 مارچ 1957ء (67 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پنڈی گھیب،  ضلع اٹک،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ افسانہ نگار،  نقاد،  ناول نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مٹی آدم کھاتی ہے  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

محمد حمید شاہد (پیدائش: 23 مارچ 1957ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور افسانہ نگار، ناول نگار اور ادبی نقاد ہیں۔ حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے صلے میں 2017ء میں تمغا امتیاز سے نوازا۔ ان کے فن و شخصیت پر جامعات میں متعدد تحقیقی مقالہ جات لکھا جا چکے ہیں۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

محمد حمید شاہد 23 مارچ 1957ء میں پنڈی گھیب ضلع اٹک، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غلام محمد سماجی اور سیاسی کارکن تھے اور گھر میں کتب خانہ بنا رکھا تھا جس نے محمد حمید شاہد کو مطالعہ کے طرف راغب کیا۔ آپ کے دادا حافظ غلام نبی 1947ء میں اپنے آبائی گائوں چکی کو خیرباد کہہ کر پنڈی گھیب میں بس گئے تھے۔ آپ نسبی طور پر اعوان، اجمال ہیں۔

تعلیمی سلسلہ[ترمیم]

محمد حمید شاہد نے ابتدائی تعلیم پنڈی گھیب سے پائی۔ میٹرک کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لے لیا اور بہ قول سید ضمیر جعفری وہاں سے بستانیت کے فاضل ہوئے۔ بعد ازاں قانون کے تعلیم کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخل ہو گئے۔ مگر والد ماجد کی شدید علالت اور بعد میں موت کے ساتھ ہی یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور ایک بنکار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔

ادب[ترمیم]

محمد حمید شاہد کی ادبی زندگی کا آغاز یونیورسٹی کے زمانے ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ آپ یونیورسٹی کے مجلہ “ کشت نو“ کے مدیر رہے۔ آپ کے پہلی کتاب اسی زمانے میں لاہور سے شائع ہوئی۔ پہلے پہلے انشائے بھی لکھے مگر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گئے۔ “بند آنکھوں سے پرے“ کی اشاعت کے بعد اردو دنیا کی توجہ پا لی۔ آپ کے افسانوں کے مجموعوں “جنم جہنم“ اور “مرگ زار“ کے بعد آپ کا شمار اسی کی دہائی کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔ محمد حمید شاہد کے ناول “مٹی آدم کھاتی ہے“ اور اردو افسانوں “ سورگ میں سور“، “ مرگ زار“ اور “ برف کا گھونسلا “ کو بہت نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔

تنقید[ترمیم]

محمد حمید شاہد کا رویہ ایک ایسے تخلیق کار کا رویہ ہے جو اپنے تخلیقی جوہر کو مختلف اصناف‘ اسالیب اور موضوعات کی کٹھالی میں ڈال کر پرکھتا ہے اور خود کو کسی تنگ دائرے میں قید کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔ اس بات نے اسے ایک طرف تو مختلف تناظر میں خود کو پرکھنے کی سہولت دی ہے ‘ دوسرا اس کے ہاں فنی اور فکری کشادگی بھی در آئی ہے جو میرے خیال میں آج کے لکھنے والوں کے لیے نہایت ضروری بات ہے

تصانیف[ترمیم]

محمد حمید شاہد کی چند معروف تصانیف

افسانے[ترمیم]

ناول[ترمیم]

تنقید[ترمیم]

  • ادبی تنازعات
  • اشفاق احمد : شخصیت و فن
  • اردو افسانہ : صورت و معنی
  • کہانی اور یوسا سے معاملہ
  • اردو فکشن نئے مباحث
  • منٹو:آج بھی زندہ ہے

دیگر[ترمیم]

  • خوشبو کی دیوار کے پیچھے (خود نوشت)
  • پیکر جمیل
  • لمحوں کا لمس
  • The touch of moment
  • سمندر اور سمندر
  • انتخاب غزلیات میر

حوالہ جات[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]