مندرجات کا رخ کریں

محمد سعید اللہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد سعید اللہ ایک معمر بھارتی شخص ہیں جو اس وقت بھارت کے ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں آگئے جب انھوں نے ایک ایسی سائیکل ایجاد کی جو زمین کے ساتھ ساتھ پانی پر بھی چل سکتی ہے۔ ان کی اس ایجاد کی بھارت کے سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے بھی یہ کہ کر تعریف کی کہ یہ ایجاد دفافی مقاصد میں بھی معاون ہے۔ ماہرین نے بھارت میں مسلسل رو نما ہونے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے روکنے کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا۔ سعید الل کئی انعامات سے نوزے گئے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود نہ تو یہ سائیکل بھارت میں عام ہوئی اور نہ سعید اللہ کی زندگی میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آئی۔ وہ حسب سابق شہد بیچنے کا کام کرتے ہیں۔

ایجاد اور اس کا پس منظر

[ترمیم]

محمد سعید اللہ کا تعلق بہار سے ہے۔ وہ اکثر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اپنی بیوی سے ملاقات کے لیے جاتے ہیں۔ تاہم ہر بار انھیں کھچاکھچ پھری ناؤ میں سفر کرنے پر مجبور تھے، جو انھیں بالکل بھی گوارا نہیں تھا۔ اس وجہ سے وہ اپنی کوششوں سے ایک ایسی سائیکل کے موجد بن گئے جس کی وجہ وہ اکیلے ندی ایک کے پار پانی پر اسے چلاتے ہوئے دوسری پار جا سکتے تھے اور اپنی بیوی سے مل سکتے تھے۔[1]

سلسلہ وار ایجادات

[ترمیم]

سعید اللہ کئی ایجادات کر چکے ہیں۔ ان میں پانی اور زمین، دونوں پر چلنے والی سائیکل، مِنی ٹریکٹر (Mini tractor)، یک گونہ بھار اٹھاتی سائیکل (Spring loaded cycle)، جاہ کشی سے چلنے والا پانی کا پمپ (Fodder cutter operated Mini water pump)، چابی سے چلنے والا میز پنکھا (Key operated Table Fan)، نوانائی کے تحفظ سے چلنے والی سائیکل (Conserved Energy operated bicycle) اور برق سازی کی منی ٹربائن (Mini turbine for electric generation) شامل ہیں۔[1]

انعامات و اعزازات

[ترمیم]

سعید اللہ کی پانی اور زمین پر چلنے والی سائیکل کو دیکھ کر بھارت کے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے یہ توقع ظاہر کی کہ اس کا استعمال دفاعی اشخاص بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ مرحوم صدر جمہوریہ کا تعلق سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ بھارت کی دفاعی ضروریات اور میزائلوں کی تیاری سے رہا تھا۔

سعید اللہ کو قومی ایجاد فاؤنڈیشن (National Innovation Foundation) کا زندگی بھر کی کامیابی کا ایوارڈ حاصل ہوا۔ اس میں سعید اللہ کے سبھی ایجادات کا اعتراف ہے۔

وہ ان بارہ فائنل میں داخل لوگوں میں تھے جنہیں وال اسٹریٹ جرنل ایشین انوویشن ایوارڈ کے لیے غور کیا جا رہا تھا۔[2]

زندگی کا گذر بسر

[ترمیم]

ان سبھی کامیابیوں کے بعد بھی وہ غریب رہے۔ وہ گذر بسر کے لیے شہد بیچا کرتے رہے ہیں۔[2]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]