محمد شریف نوری قصوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد شریف نوری قصوری
لقبعالم دین،
ذاتی
پیدائش1935ء
وفات14 فروری1972ء
مذہباسلام
فرقہسلسلہ نقشبندیہ
مرتبہ
دورجدید دور

مولانامحمد شرف نوری قصوری خطیب پاکستان کے نام سے شہرت رکھتے ہیں

پیدائش[ترمیم]

محمد شریف نوری قصوری بن محمد دین 1353ھ؍1935ء میں بمقام چکوڑی ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

کنجاہ (گجرات) میں میٹرک کا امتحان پاس کیا،اس کے بعد دار العلوم حنفیہ فرید یہ بصیر پور (ضلع ساہیوال ) میں تمام کتب کی تحصیل و تکمیل کر کے فقیہ عصر مولانا ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی سے درس حدیث لیا اور 1953ء میں فراغت حاصل کی اسی سال قصور میں خطیب مقرر ہوئے ۔1954ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل اور 1955ء میں ادیب فاضل کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کیا

خطیب پاکستان[ترمیم]

آپ کی آواز میں بلاکا سوز تھا 1970ء میں جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی کی صدارت میں سنی کانفرنس منعقد ہوئی اس میں شامل تھے اس کی وجہ سے خطیب پاکستاں کا لقب ملا ا ن کے سحر خطابت کا یہ کارنامہ نا قابل فراموش ہے کہ یکم مئی 1959ء کو کلاک آباد (مضافات رائے ونڈ) کے تقریباً دو ہزار عیسائی ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تھے[1] پاکستان کے سابق گورنر ملک امیر محمد خان اپنے گھر پر منعقدہ مجلس میلاد کے لیے آپ کو دعوت دیاکرتے تھے۔ آپ نے 1970ء کے عام انتخابات میں جمیعت العلماء پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔

قصوری[ترمیم]

قصور کے قیام کی نسبت سے نوری قصوری کے نام سے عوام و خواص کے طبقے میں متعارف ہوئے ۔۔قصوری ہی میں مشہور نعت خوان جناب محمد علی ظہوری کو ساتھ لے کر ماہنامہ نور و ظہور نکالا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی مگر زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ ۔1961ء میں لاہور آگئے [2] پہلے ایک عرصہ تک جامع مسجد سبیل والی شاہ عالم مارکیٹ میں،پھر کچھ عرصہ سرائے رتن چند میں خطیب رہے،بعد ازاں شیش محل ہوزری کے بالمقابل جامع مسجد محمدیہ (راوی روڈ)ل میں تشریف لے آئے،یہاں آپ نے جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی،مسجد کا عظیم مینار آپ ہی کی مساعی سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

مولانا نوری بلند اخلاق کے مالک تھے،دوستوں کے دست تھے اور ملنے جلنے والوں کی بڑی فراخد لی سے تواضع کیا کرتے تھے،جمعیت العماء پاکستان،پاک سنی تنظیم اور انجمن اصلاح المسلمین کے سر گرم رکن اور ممتاز عہدوں پر فائز رہے۔ 1390ھ میں جابجا دورے کیے اور آئین اسلام ے نفاذ کے حق میں پرزور تقریریں کیں اور عوام الناس کو آئین اسلامی کی تائید و حمایت کے لیے تیارکیا۔

تصنیفات[ترمیم]

مولانا نوری نے وعظ تقریر کے ساتھ تحریر کا سلسلہ بھی جاری رکھا،

  • لاہور آنے کے بعد ماہنامہ الحبیب جاری کیا
  • آفتاب سنت رد چراغ سنت
  • بارہ تقریریں،
  • نشری تقریریں،
  • مسئلۂ گیارہویں،
  • حرمت تعزیہ داری
  • عرب کا مسافر ایسی مقبول عام تصانیف یادگار چھوڑدیں۔

وفات[ترمیم]

28ربیع الاول،13مئی 1392ھ؍1972ء جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب میو ہسپتال میں تقریباً 2 بجے آپ کا انتقال ہوا[3]نمازجنازہ مفتیٔ اعطم پاکستان مولانا علامہ ابو البرکات سید احمد دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی جامع مسجد محمدیہ راوی روڈ پر آپ کا مزار ہے۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بارہ تقریریں ص2
  2. ] غلام مہر علی،: الیواقیت المہریہ ص129
  3. تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:صفحہ 486 نوری کتب خانہ لاہور
  4. ماہنامہ رضائے مصطفٰی گوجرانوالہ (ربیع الآخر 1392ھ) ص 17