محمد ضیاء القاسمی
محمد ضیاء القاسمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1937ء ضلع جلندھر |
تاریخ وفات | 29 دسمبر 2000ء (62–63 سال) |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
جماعت | جمیعت علمائے اسلام |
عملی زندگی | |
مادر علمی | قاسم العلوم ملتان |
استاذ | مفتی محمود |
پیشہ | عالم ، خطیب ، مصنف |
درستی - ترمیم |
مولانا محمد ضیاءالقاسمی رحمہ اللہ ایک معروف عالم دین ، خطیب اور مصنف تھے۔ 1937ء میں ہندوستان کے شہر جالندھر میں مولانا عبد الرحیم ؒ کے گھر پیدا ہوئے ،گھر والوں نے نام ”محمد “رکھا مگر ۔آپ نے ابتدائی دینی تعلیم معروف دینی مدارس جامعہ اشاعت العلوم فیصل آباد اور جامعہ رشیدیہ ساہیوال سے حاصل کی۔اس کے بعد دورہ حدیث کے لیے جامعہ قاسم العلوم ملتان تشریف لے گئے وہاں آپ نے شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ ؒ ،شیخ احرار مولانا حبیب اللہ فاضل رشیدی ؒ،حضرت قاری لطف اللہ شہیدؒ،حضرت مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل ؒاور حضرت مولانا مفتی محمود ؒ سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔
مولانا ضیاالقاسمی ؒ عقیدہ توحید کے داعی تھے۔ آپ نے سب سے پہلے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی ہوئی خرافات کی بیخ کنی کا بیڑا اٹھایا۔یہی وجہ تھی کہ اللہ رب العزت نے آپ کو خطابت کا لازوال کا ملکہ عطافرمایا تھا جب بھی کسی موضوع پر بات کرتے تو لوگوں کو اپنی شیریں بیانی ،دلائل کی قوت اور لاجواب استدلال سے قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ، مولانا محمد علی جالندھری ؒ،قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ،مولانا غلام اللہ خان ؒ جیسے اکابر کے دور خطابت کے بعد جن علمانے خطابت میں نمایا ں مقام پیدا کیا ان میں مولانا ضیاءالقاسمی ؒ اولاً نمایا ں ہیں اور یہی وجہ تھی کہ ہزاروں کا مجمع ہو یا لاکھوں کا ،اسٹیج کی زینت شورش کاشمیری ؒہوں یا کوثر نیازیؒ،علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒہو یا مفتی محمود ؒ ہر منتظم کی کوشش ہوتی تھی کہ اگر مجمع کو جما کر بٹھائے رکھنا ہے تو مولانا ضیاالقاسمی ؒکو سب سے آخر میں بیان کا موقع دیا جائے،ورنہ مجمع کے منتشر ہونے کا اندیشہ منڈلاتا رہتا ۔
اہل حق کی کوئی بھی تحریک کو ہو مولانا ضیاءالقاسمی ؒ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے ،تحریک نظام مصطفی ﷺ ہو یا تنظیم اہلسنت ،تحریک ختم نبوتﷺ ہویا تحریک مدح صحابہ ؓ ،یا پھر سیاسی میدان میں جمعیت علماءاسلام کا پلیٹ فارم ہو، صف اول کے رہنما سمجھے جاتے تھے۔1977ءمیں تحریک نظام مصطفی ﷺ اپنے عروج پر تھی مولانا ضیاالقاسمی ؒ سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکلے اور فیصل آباد کی تاریخ میں سب سے پہلا اور تاریخی کفن پوش جلوس نکالا جس کے دوران آپ پر تشدد کیا گیا اور پابند سلاسل بھی کیا گیا۔آپ کیؒ استقامت کو قاضی حسین احمد مرحوم نے بیان کیا ہے
”تعلیم و تربیت کے لیے جذبہ اور اپنے موقف پر استقامت اسی وقت حاصل کی جا سکتی ہے جب ایک شخص اپنے موقف کے لیے مضبوط دلائل رکھتا ہو۔مولانا ضیاالقاسمیؒ انہی علمامیں سے تھے جن کو اپنے موقف کی حقانیت پر اطمینان ہوا۔وہ اپنے موقف کی طرف دوسروں کو کھینچنے اور قائل کرنے کے لیے کامل علمی رسوخ اور جوش و جذبہ رکھتے تھے۔مولانا ضیاالقاسمی ؒ طالب علمی سے فراغت کے بعد دین کی ترویج و اشاعت سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ اس پر جم گئے اور عمر بھر اس کے لیے جوش و جذبے اور جرات و ہمت سے کام کرتے رہے۔انھوں نے اپنے شاگردوں ، سامعین، متاثرین کا پورے ملک میں ایک وسیع حلقہ پیدا کیا،جو ان کے ساتھ والہا نہ وابستگی رکھتے تھے۔ان کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ، ان کی تقاریر کے لیے لوگوں کو جمع کرتے تھے۔اس طرح پاکستان کے گوشے گوشے میں انہوں نے لوگوں کو توحید و سنت اور اسلامی نظام سے والہانہ محبت طور پر وابستہ رکھنے کے لیے جانفشانی سے کام کیا۔“ (ماہنامہ نور علی نور)
مولانا ضیاالقاسمی1970ءکی دہائی میں جمعیت علمااسلام کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل رہے۔پنجاب سمیت ملک بھر میں جمعیت علمااسلام کے اکابرین کی آنکھ کا تارا رہے۔ مولانا ضیاالقاسمی ؒ ایک بہادر اور پختہ عقیدہ رکھنے والے انسان تھے۔1970ءمیں موچی دروازہ لاہور میں آئین شریعت کانفرنس کے موقع پر ملک بھر میں جمعیت علمااسلام کے مفتی محمود ؒ اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ”ان کے جلوس پر شاہی بازار کی عورتوں نے پھول برسائے ہیں “ہر طرف خاموشی تھی ،علماکرام اس کے جواب کے منتظر تھے کہ کس انداز میں اس پراپیگنڈہ کا جواب دیا جائے چنانچہ یہ سعادت بھی مولانا ضیاالقاسمی ؒ کے حصہ میں آئی انھوں نے اپنے دلنشین خطیبانہ انداز میں اسکاجواب دیا کہ ”شاہی بازار کی عورتیں اپنے جسم کا تحفظ شریعت محمدیہ میں سمجھتی ہیں اور تحریک نفاذ شریعت کے قائد ین کو جسم فروشی سے نجات کا نشان سمجھتی ہیں۔اور اعلان کرتی ہیں کہ شریعت نافذ ہونے کے بعد ہمیں تحفظ مل جائے گا اور ہم جسم فروشی کی بجائے شرافت اور عزت کی زندگی گزاریں گیں“۔اس جواب پر پورے ملک کے دینی طبقات ،اہل حق علماکی طرف سے مولانا ضیاالقاسمی ؒ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور انہی خصوصیات کی وجہ سے ہر محاذ پر مولانا قاسمیؒ کو علمائےحق کا ترجمان سمجھا جانے لگا۔ مگر اس کے بعد مولانا ضیاءالقاسمیؒ کی سیاست سے کنارہ کشی ایک الگ باب ہے۔
انا کے قید خانے کا، میں وہ باغی سا مجرم
جسے پھانسی چڑھا ڈالا محبت کے وکیلوں نے
اسی طرح 1983ءمیں جب امتناع قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا گیا تومنکرین ختم نبوتﷺ کی جماعت کے سربراہ نے وطن عزیز سے فرار اختیار کرکے لندن بھاگ گئے اور وہاں جاکر اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو مولانا محمد ضیاالقاسمیؒ نے وہاں بھی اس کے محاسبہ کرنے کا فیصلہ کیا اور لندن کے ویمبلے ہال میں ”ختم نبوت کانفرنس “کااعلان کیا اور اسی میں ان کے سربراہ کو دعوت مباہلہ دی مگر قادیانیوں نے راہ فرار اختیار کی۔مولانا ضیاالقاسمی ؒ ہرمیدان کے شہسوار تھے۔تحریک مدح صحابہ ؓ میں بھی انکا کردار سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔تحریک مدح صحابہ ؓ کے رہنماؤں کے ساتھ محبت و شفقت کا عملی مظاہر ہ تو کیا ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ بار ہا اپنی جانی و مالی خدمات بھی پیش کیں جہاں آپؒ نے دن رات محنت کر کے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظم ؓ کے یوم شہادت کے موقع پر یکم محرم کو سرکاری سطح پر عام تعطیل کا اعلان کروایا ،اسی دوران ملک میں پھیلی ہوئی فرقہ وارانہ قتل و قتال کو ختم کروانے کے لیے تمام مکاتب فکر پر مشتمل قائم ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک مضبوط اور تاریخی ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا جس میں اصحاب رسول ؓ ،اہلبیت اطہارؓو امہات المومنین ؓ کے تقدس کوآئینی و قانونی تحفظ دینے کا فارمولا پیش کیا،جسے تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر دستخط کرتے ہوئے منظورکیا ۔
یہ مولانا ضیاالقاسمی ؒ کی دینی، ملی اور قومی خدمات ہیں جن کو ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔جس طرح انھوں نے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت اسلامیات کا نصاب ترتیب دیا اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل میں تعلیمی ،معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کے لیے سفارشات پیش کیں جنہیں ”دستور پاکستان “میں بھی شامل کیا گیا۔آپ ؒ کی انہی خدمات کے اعتراف میں متعدد بار اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا ۔
جہاں مولانا ضیاالقاسمی ؒ کی دینی،ملی اور قومی خدمات کو یاد رکھا جائے گا وہیں آپ ؒ کے قائم کردہ دینی ادارہ جامعہ قاسمیہ اور مرکز توحید وسنت جامع مسجد گول بھی آپ کی یادگار ہیں۔جو آج بھی اپنی علمی وروحانی روشنیاں بکھیر رہے ہیں۔مولانا محمد ضیاءالقاسمی ؒ متعدد کتب کے مصنف بھی تھے جن میں ہر خاص وعام میں مقبول تصنیف”خطبات قاسمی“ جو چھ جلدوں پر مشتمل ہے جس سے دنیا بھر کے علما،خطباءاور ائمہ مساجد مستفید ہو رہے ہیں۔مولانا ضیاءالقاسمیؒ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسی گرانقدر ،تاریخی خدمات سر انجام دیں کہ انکا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
ٹوٹے ہوئے لفظوں میں روانی نہیں ملتی
لمحوں میں تو صدیوں کی کہانی نہیں ملتی
29دسمبر 2000ءبروز جمعۃ المبارک کوانتقال کر گئے۔
جان بھی دے دی جگر نے پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا