محمد علی خیرآبادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حافظ محمد علی خیر آبادی تونسہ شریف کی روحانی ہستی شاہ محمد سلیمان تونسوی کے اولین خلیفاء میں سے تھے۔ آپ نے ساری زندگی مسلمانوں کی اصلاح میں گزار دی۔ آپ کی خانقاہ خیرآباد میں موجود ہے جہاں سے سلسلہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت کا کام زور و شور سے کیا گیا۔ اس خانقاہ کی فیوض و برکات اور علم و فضل کا مرکز اودھ اور دکن کی ریاستیں تھیں۔

حافظ محمد علی خیرآبادی
ذاتی
پیدائش(1192ھ بمطابق 1778ء)
خیرآباد
وفات(ذیقعد 1266ھ بمطابق 1850ء)
خیرآباد
مذہباسلام
والدین
  • مولوی شمس الدین (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامخیرآباد
پیشروشاہ محمد سلیمان تونسوی
جانشینمحمد اسلم خیرآبادی

ولادت[ترمیم]

محمد علی خیرآبادی کی ولادت 1192ھ بمطابق 1778ء میں مولوی شمس الدین کے گھر خیر آباد میں ہوئی۔ آپ کے اجداد میں ایک بزرگ شیخ نظام الدین الہدیہ خیرآبادی شیخ سعد خیرآبادی شاہ مینا لکھنوی کے خلیفہ تھے۔ ان کی شہرت دور دور پہلی ہوئی تھی۔ آپ کا خاندان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ علم و فضل میں اس گھرانے کو ایک امتیازی مرتبہ حاصل تھا۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

محمد علی خیرآبادی نے ابتدائی قرآن پاک کی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی۔ اس کے بعد قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد خیرآباد میں مولانا عبد الوالی سے جو اپنے زبان کے مشہور عالم تھے شرح وقایہ تک علم حاصل کیا۔ پھر شاہ جہاں پور تشریف لے گئے اور وہاں کچھ عرصہ تک تحصیلِ علم میں مشغول رہے۔ شاہ جہاں پور میں آپ کی رہائش گاہ شہر کے باہر ایک مسجد میں تھی۔ جب شاہ جہاں پور کی علمی درس گاہیں آپ کی تشنگی علم کو نہ بجھا سکی تو آپ نے دہلی کا رخ کیا۔ اس زمانے میں دہلی ہی ہندوستان میں علم و ادب اور حسان و سلوک کا آخری مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے گھرانے نے علم کی وہ شمع روشن کر رکھی تھی جس کے گرد دور دور سے علمی پروانے جمع ہو رہے تھے۔ دہلی میں مشکوة کا سبق محمد علی خیرآبادی نے شاہ عبد القادر سے پڑھا۔ صیح بخاری کی سماعت آپ نے حرمین شریفین میں حاصل کی۔

مجاہدات[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی نے ابتدا فی زمانہ میں سخت مجاہدات کیے۔ سب سے پہلے آپ نے سید محمد مشتاق عرف چھیدا میاں کے مزار پر چلہ کاٹا۔ اس کے بعد شاہ مینار کے مزار پر ریاضات شاقہ میں مشغول ہو گئے۔ وہاں آپ نمازیوں کے لیے پانی بھر بھر کر لاتے۔ باقی وقت میں عبادت کرتے۔ اسی طرح کافی عرصہ گذر گیا۔ اس کے بعد آپ قطب صاحب کے مزار پر دہلی میں حاضر ہوئے اور حسب معمول مجاہدوں میں مشغول ہو گئے۔ یہاں آپ نے اپنی گذر اوقات کے لیے اجرت پر چند مکانوں کے لیے پانی بھرنے لگے۔ آپ اکثر اوقات روزہ رکھتے تھے اور تمام رات قرآن پاک کی تلاوت میں گزار دیتے تھے۔ دہلی سے آپ اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے ایک مسجد میں بارہ سال تک مقیم رہے۔ اجمیر سے آپ پاکپتن تشریف لے گئے۔ پاکپتن میں آپ نے خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی عظمت و بزرگی کی شہرت سن کر دل اس طرف متوجہ ہو گیا۔ آپ نے تونسہ شریف کو ہی اپنی منزل مقصود قرار دیا اس لیے تونسہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی تونسہ شریف میں خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی سے اتنے متاثر ہوئے کہ ایک سال گذر گیا اور اپنی خواہش کا اظہار نہیں کر سکے۔ ایک دن آپ کے دل میں خیال آیا کہ افسوس خواجہ تونسوی میرے حال کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔ خواجہ تونسوی کو محمد علی خیرآبادی کے دل کا حال معلوم ہو گیا اور فرمایا جس شخص سے مجھے تعلق ہوتا ہے بظاہر میں اس کی طرف توجہ نہیں کرتا ہوں۔ یہ سن کر حافظ کے بے چین قلب کو اطمینان ہوا۔ خواجہ تونسوی نے آپ کو کہا کہ پہاڑ پر پاؤں میں رسی باندھ کر عبادت کرو۔ حافظ محمد علی نے اس طرح کے مجاہدے کرتے رہے۔ اس کے بعد شاه محمد سلیمان تونسوی نے حافظ محمد علی خیرآبادی کو اپنے سلسلہ چشتیہ میں داخل کر لیا اور خلافت سے سرفراز فرمایا۔

پیر و مرشد سے عقیدت[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی کو اپنے پیر و مرشد سے بڑی عقیدت تھی۔ خواجہ تونسوی کے نوکروں کی بھی عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ خواجہ تونسوی کا سائیس لکھنؤ میں مل گیا۔ اس کی بے حد تعظیم کی۔ حافظ محمد علی جب اپنے پیر و مرشد شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں جاتے تو کئی کوس دور سے پیادہ پا چلنے گئے تھے۔ شاہ سلیمان آپ کی محبت اور خلوص کی بے حد قدر کرتے اور انتہائے تعلق میں ان کو شاہ ہوری کہتے تھے۔

بری رسموں سے نفرت[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی کی کوشش ہوتی تھی کہ مسلمانوں کی سوسائٹی کی نشو و نما اسلامی اصولوں پر ہو۔ آپ ہمیشہ اسلامی رسم و رواج اور طرز زندگی پر زور دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بری رسموں کو دور کرنے کی جدوجہد کرنا سب سے زیادہ اہم کام ہے۔ آپ کی اصلاحی کوششوں کی ابتدا خود آپ کے گھر سے ہوئی۔ آپ نے اپنے گھر میں تمام رسومات اور توہمات کو ختم کیا جن کو آپ غیر شرعی سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں چند واقعات یہ ہیں۔

  1. حافظ محمد علی خیرآبادی کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد آپ کو قصبہ موہان کا سفر پیشں آیا۔ حاضرین نے کہا کیا حضرت بی بی صاحبہ کی رسومات نہیں کریں گے۔ فرمایا جہاں ہوں گا وہاں فاتحہ کر دوں گا کیونکہ اس سے غرض ایصال ثواب ہے اور وہ ہرجگہ ممکن ہے۔ یہ کیا ضرور ہے کہ اسی جگہ سیوم کی فاتحہ کروں۔
  2. شادی کے معاملہ میں آپ غیر ضروری رسومات کو ناپسند کرتے تھے۔ صاحبزادہ حافظ جمال الدین کے نکاح کے موقع پر انتہائی سادگی سے کام لیا گیا۔ ایک دن اچانک صاحبزادے کو دلہن کے مکان پر لے گئے۔ دلہن کے گھر والوں نے بے سروسامانی کا عذر پیش کیا۔ آپ نے فرمایا جو کچھ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ قواعد شرعیہ کے مطابق سادگی سے نکاح کیا گیا اور کوئی غیر شرعی رسم ادا نہیں کی گئی۔
  3. ایک مرتبہ حافظ محمد علی خیرآبادی کو حیدرآباد دکن میں شاہ یوسف کے مزار پر حاضری کا اتفاق ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ وہاں طوائفوں کا ناچ ہو رہا ہے۔ آپ کو اس قدر غصہ آیا کہ محفل میں پہنچ کر مشایخ کو للکارا یہ بال تمھاری داڑھی کے نہیں ہیں بلکہ زنار کے تار ہیں۔ اولیاء اللہ کے مزاروں پر ایسا فسق و فجور ہوتا ہے اور تم دیکھتے ہو۔

مریدوں کی تربیت[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مرشدوں کو مریدوں کا اس طرح خیال رہتا ہے جس طرح ماں کو اپنے لڑکوں کا خیال رہتا ہے۔ آپ اپنے مریدوں کی ظاہری و باطنی زندگی کی اصلاح میں بڑی جد وجہد کرتے تھے۔ مرید کرتے وقت یہ ہدایتیں فرماتے تھے۔

  1. شریعت پر قائم رہو۔
  2. اللہ کی محبت میں دل کو ثابت رکھو۔
  3. جب تک تحصیل علم سے فارغ نہ ہو ذکر نہ کرو۔
  4. دنیا کی محبت میں مت بیٹھو اس سے محبت الہی کی لذت سلب ہوتی ہے۔

مثنوی مولانا روم[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی کو مثنوی مولانا روم پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ نے عارف روم کے معارف ربانیہ کا مطالعہ نہایت بالغ نظری سے کیا تھا۔ آپ اپنے اعلی مریدوں کو مثنوی کے مطالعہ کی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔ آپ مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے جس میں ہندو بھی شریک درس ہوا کرتے تھے۔ مثنوی کے علاوہ آپ مولانا روم ، ابن عربی اور مولانا جامی کی تصانیف کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے درس میں مولانا فضل الحق خیرآبادی بھی شریک ہوا کرتے تھے۔

امرا سے اجتناب[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی امرا کی صحبت سے اجتناب فرماتے تھے۔ آپ کسی امیر کے پاس جانے کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

سلطان دہلی[ترمیم]

سلطان دہلی بہادر شاہ ظفر نے چند مرتبہ حافظ محمد علی خیرآبادی کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور ملاقات کا شوق ظاہر کیا لیکن حافظ خیرآبادی نے کہا ملاقات کی حاجت نہیں ہے۔ شوق کا دل ہی میں رہنا اچھا ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے اصرار کیا لیکن آپ راضی نہ ہوئے۔ بالآخر بہادر شاہ ظفر نے کالے صاحب کی وساطت سے ملنے کی کوشش کی۔ کالے صاحب وقت کے منتظر تھے۔ قطب صاحب کے عرس کے دنوں میں حافظ خیرآبادی آستانہ شریف کی مسجد میں رونق افروز تھے۔ کالے صاحب نے کہا حافظ جی ایک ضرورت ہے جاتا ہوں لیکن جب تک میں حاضر نہ ہوں اب یہیں تشریف رکھیں۔ یہ کہہ کر بادشاہ کے پاس گئے اور اس کو لے کر آئے۔ حاضرین نے شور کیا کہ بادشاہ سلامت مسجد کی طرف آ رہے ہیں۔ جب یہ آواز حافظ صاحب کے کانوں میں پہنچی تو آپ دیوار پھاند کر چلے گئے۔

نواب آف بہاولپور[ترمیم]

نواب آف بہاولپور محمد بہاول خان سوم خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کا مرید تھا۔ نواب آف بہاولپور حافظ محمد علی خیرآبادی سے ملاقات کی تمنا رکھتے تھے مگر کبھی اس کا موقع نہ ملا۔ ایک دن شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں اپنی اس تمنا کا اظہار کیا۔ شیخ نے حافظ صاحب کو طلب کیا۔ حافظ خیرآبادی حاضر ہوئے۔ سلام عرض کرنے کے بعد شیخ کے روبرو بیٹھ گئے۔ نواب آف بہاولپور کی طرف مطلق توجہ نہ دی۔ تھوڑی دیر کے بعد پیرومرشد کی اجازت سے اپنے مقام پر واپس آ گئے۔

ہندوؤں کی عقیدت[ترمیم]

ہندوؤں کو حافظ محمد علی خیرآبادی سے بڑی عقیدت تھی۔ مثنوی مولانا روم کے درس میں ہندو بھی شریک ہوتے تھے۔ حیدرآباد کا راجا چندر لال کی آپ سے بے حد عقیدت تھی۔ اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ دہلی کا ایک ہندو خاندان آپ سے اس قدر متاثر ہوا کہ پورا خاندان مسلمان ہو گیا۔

سیرت[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی اخلاق محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ انسانی مساوات و اخوت آپ کا ایمان تھا۔ اپنے عمل سے اس کی تائید کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ دستر خوان پر بیٹھے تھے۔ نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک موچی میاں اسلم کے جوتے سی رہا ہے۔ اس کو فرمایا اپنے ہاتھ دھو کر آؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔ پھر آپ نے اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ حافظ خیرآبادی جب محفل میں مدعو کیے جاتے تو کبھی ممتاز جگہ پر نہ بیٹھتے تھے۔ سفروحضر میں خادموں کے ساتھ کام میں شریک رہتے تھے۔ بعض اوقات روٹیاں اپنے ہاتھ سے پکا لیتے تھے۔

وصال[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی آخری عمر میں بیمار ہو گئے تھے۔ آخری عمر میں آپ پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ مرض اس قدر بڑھ گیا کہ آپ کے ہاتھ پاؤں بیکار ہو گئے۔ عبادت میں جب دقت ہونے لگی تو فرمایا جسم بھاڑے کا ٹٹو تھا آخر ساتھ نہ دیا۔ آپ نے ماہ ذیقعد 1266 بمطابق 1850ء کو وصال فرمایا۔ آپ کی تدفین خیرآباد میں کی گئی ہیں۔

خلفاء[ترمیم]

حافظ محمد علی خیرآبادی نے ہزاروں لوگوں کو بیعت کیا۔ آپ کے چار خلفاء نے سلسلہ کی اشاعت اور توسیع کا کام کیا۔

  1. حافظ محمد اسلم خیرآبادی (سجادہ نشین)
  2. حبیب علی شاہ
  3. مولانا احسن الزمان
  4. مرزا سردار بیگ
  5. [1]حافظ شمس الدین فیضؔ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ مشایخ چشت تالیف خلیق احمد نظامی صفحہ 667 تا 783