محمد علی صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ڈاکٹر محمد علی صدیقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نقاد، ماہر تعلیم اور اردو کے محقق تھے۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

ڈاکٹر صدیقی 7 مارچ 1938 میں ہندوستان کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آگئے اور یہاں عیسائی مشن اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ڈی جے سائنس کالج سے 1953 میں انٹرمیڈیٹ کیا اور اس کے بعد انگریزی ادب میں ماسٹر اور مطالعہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں کراچی یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ ڈاکٹریٹ کے بعد انھوں نے دوبارہ 2003 میں اسی موضوع پر ڈی لیٹ کی۔ اس موضوع پر پی ایچ ڈی اور ڈی لیٹ کرنے والے وہ پہلے فرد تھے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کو انگریزی، فرانسیسی، فارسی، پنجابی، سندھی، سرائیکی اور اردو سمیت کئی زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ وہ پاکستان اور بیرون پاکستان کئی اہم اور ادبی تنظیموں کے رکن تھے اور انھیں برطانیہ، کینیڈا اور ناروے کی جامعات میں لیکچر کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔

ملازمت[ترمیم]

وہ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈی سنٹر سے وابستہ رہے اور وفاقی وزارت ثقافت کے تحت کام کرنے والے بین الاقوامی اہمیت کے حامل تحقیقاتی ادارہ قائد اعظم اکادمی کے تقریباً 6 سال ڈائریکٹر رہے۔ انھوں نے ہمدرد یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم و سماجی علوم (HIESS) اور بزٹیک یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیں۔

اہم کارنامے[ترمیم]

محمد علی صدیقی دوحہ، قطر میں موجود مجلس فروغ اردو ادب سے جڑے رہے۔ وہ 1998ء میں مجلس کے قائم کردہ سلیم جعفری ایوارڈ کی جیوری کے چھ سال تک صدرنشین تھے۔ اسی طرح وہ 1996ء سے مجلس کی جانب سے دیے جانے والے عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ کے کلیدی خطاب کو دس سال سے زیادہ عرصے تک دیتے رہے۔[1] وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے باضابطہ صدر بھی رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ و ادبی کاوشوں پر اردو زبان و ادب کے اس فرزند کو تنقید کے سپہ سالار کو، ترقی پسند ادب کے سرخیل کو 2003 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا اور 2010 میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ صدیقی، فیگن کے بعد دوسرے پاکستانی نقاد ہیں جن کو 1984 میں Casa Scholar کا اعزاز ملا۔ اور AICL (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف کریٹکس پیپرس میں پہلے ایشیائی اور پاکستانی نقاد ہیں.

تصانیف[ترمیم]

محمد علی صدیقی کی کتابوں میں اہم یہ ہیں

  1. توازن 1976،
  2. کروچے کی سرگزشت 1976،
  3. نشانات 1981،
  4. مضامین 1991،
  5. اشاریے 1994،
  6. تلاشِ اقبال 2002،
  7. سرسید احمد خان اور جدت پسندی 2003،
  8. مطالعاتِ جوش 2005،
  9. غالب اور آج کا شعور 2005،
  10. ادراک 2007
  11. جہات

اور اس کے علاوہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح پر ان کی متعدد تالیفات اور تصانیف ہیں۔

انتقال[ترمیم]

محمد علی صدیقی کا انتقال 9 جنوری 2013ء میں کراچی میں ہوا۔ 74 سال کے تھے۔ وہ کچھ عرصے سے اسپتال میں تھے کیونکہ ان کے خون کا دباؤ بڑھ چکا تھا، جس سے دماغ اور گردے متاثر ہوئے تھے۔ اور حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے، انھیں کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں [1]

حوالہ جات[ترمیم]