محمد علی مکھڈوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا محمد علی مکھڈوی
ذاتی
پیدائش(1162ھ بمطابق 1750ء)
وفاتً (29 رمضان المبارک 1253ھ بمطابق 1838ء)
مذہباسلام
والدین
  • محمد شفیع بن داؤد (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقاممکھڈ شریف
پیشروشاہ محمد سلیمان تونسوی
جانشینخواجہ زین الدین

مولانا محمد علی مکھڈوی شاہ محمد سلیمان تونسوی کے خلیفہ تھے اور مکھڈ شریف میں چشتیہ خانقاہ کے پہلے ولی اللہ تھے۔

پیدائش[ترمیم]

مولانا محمد علی مکھڈوی کی ولادت مبارک 1162ھ بمطابق 1750ء میں محمد شفیع بن داؤد جلال آبادی کے گھرانے میں بٹالہ مشرقی پنجاب ہندوستان میں ہوئی۔اعوان خاندان سے تعلق رکھتے تھے مولانا حضرت شاہ غلام علی دہلوی ثم بٹالوی کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ والد کا ان کے بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ آپ کے بڑے بھائی مولانا عبدالرسول نے آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت فرمائی۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی مولانا عبدالرسول سے حاصل کی۔ بٹالہ میں میاں جنوة اللہ سے فن خطابت سیکھا۔ اس کے بعد حصول علم کے لیے سفر اختیار کیا اور مولوی اسد اللہ بہاولپوری ، میاں مصطفی جی پشاوری ور میاں مرتضی سیالوی کی خدمت میں رہ کر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی اپنے اقربا سمیت مکھڈ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک تشریف لے آئے اور مولانا محکم الدین اپنے وقت کے متبحر عالم تھے۔ دور دور تک ان کا شہرہ تھا۔ عرصہ دراز تک مکھڈ شریف میں رہے اور مولانا محکم الدین کی خدمت میں رہ کر اکتساب فیض حاصل کیا۔

درس و تدریس[ترمیم]

مولانا محکم الدین کے وصال با کمال کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی کو مدرسہ محمد علی کا جانشین مقرر کیا گیا۔ مکھڈ شریف میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور بہت جلد یہ مدرسہ برصغیر پاک و ہند کے بڑے مدرسوں میں شمار ہونے لگا اور دور دور کے شہروں کابل، بخارا، قندهار تک کے طلبہ حصول علم کے لیے آ تے رہے اور اس چشمہ فیض سے مستفیض ہونے لگے۔ علوم معقول و منقول یعنی منطق ، فلسفہ کے دقیق ابواب اور کتب میں آپ کی دسترس کی بڑی شہرت تھی۔ اس دور کے علما منطق اور فلسفہ کے دقیق مسائل آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حل کراتے تھے۔ مولانا محمد علی مکھڈوی کے جانشین اول محمد عابد جی مہاروی ، جانشین دوم خواجہ زین الدین اور خواجہ شمس الدین سیالوی نامور شاگردوں میں سے ہیں۔

تلاش مرشد اور بیعت و خلافت[ترمیم]

ظاہری علوم میں مشغول رہنے کے بعد مولانا محمد علی مکھڈوی کو حصول علم باطنی کے لیے کسی راہبر کامل کی تلاش کا اشتیاق ہوا تو اپنے عزیز ترین شاگرد خواجہ شمس الدین سیالوی کو ہمراہ لے دیوانہ وار مکھڈ سے نکل کھڑے ہوئے۔ مکھڈ سے موضع انب علاقہ سون میں حضرت ابراہیم کی خدمت میں پہنچے مگر قلبی تسکین نہ ہوئی اس کے بعد مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے تونسہ شریف شاہ محمد سلیمان تونسوی کی خدمت میں پہنچے اور سلام عرض کرنے کے بعدایک طرف بیٹھ گئے۔ حضرت پیر پٹھان نے پوچھا کہاں سے آ ئے ہو تو عرض کیا مکھڈ سے آیا ہوں تو اس پر حضرت پیر پٹھان نے فرمایا کہ مکھڈ میں ایک مولوی رہتا ہے۔ جس کے علم کی بڑی شہرت ہے۔ آپ نے عرض کیا مولوی مجھے ہی کہتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت خواجہ پیر پٹھان اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور آپ سے معانقہ کیا اور اپنے پاس بٹھالیا۔ آپ چھ ماہ تک متواتر حضرت پیر پٹھان کی خدمت اقدس میں رہ کر اکتساب فیض کرتے رہے لیکن حضرت پیر پٹھان نے آپ کو بیعت نہ کیا۔ چنانچہ چھ ماہ کے بعد حضرت خواجہ تونسوی نے آپ کو پیغام بھیجا جس کا مطلب یہ تھا کہ اے صوفی یہاں کیوں آئے ہو ہم تو رند مشرب لوگ ہیں اور آپ زہد و پارسائی کا دعوی رکھتے ہیں ہمارا آپ کا کیا جوڑ ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے اس وقت ایک رہائی جو آپ کی طبع زاد تھی لکھ کر خدمت میں بھیج دی۔ وہ رباعی یہ تھی

من براۓ دین فروشی سوئی تو آمدم تا دین وہم بر روی تو
ننگ و ناموسم نہ ماند حبہ ای چونکہ پا اندا ختم در کوئی تو

اس کے ساتھ ہی بیعت کے لیے درخواست کی۔ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی بہت خوش ہوئے۔ مولانا صاحب کو بیعت فرمایا اور توجہ باطنی سے نواز کر تھوڑے ہی عرصے میں خرقہ خلافت عطا فرما کر حکم دیا کہ خلق خدا کی راہنمائی کرو۔ چنانچہ مکھڈ شریف واپس پہنچ کر مولانا محمد علی مکھڈوی نے سلسلہ درس و تدریس کے ساتھ سلسلہ ارشاد و تلقین بھی شروع کر دیا اور علاقہ میں تعلیمات خواجگان چشت اہل بہشت کو عام کیا۔ اس علاقہ کے متعدد علما آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ آپ نے زائرین کے لیے ایک وسیع لنگر جاری کر دیا اس کے علاوہ علما طلبہ اور آنے والے زائرین کے قیام کے لیے معقول انتظام کیا۔

مرشد کامل سے عقیدت و محبت[ترمیم]

محمد علی مکھڈوی اگر چہ عمر کے لحاظ سے حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان سے 20 سال بڑے تھے مگر پھر بھی جب تک زندہ رہے اور تعلق بیعت کے بعد ہر سال حضرت خواجہ تونسوی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک مرتبہ حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی نے فرمایا کہ مولوی بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ان کا عشق جوان ہے۔ جواسے ہر سال میرے دروازے پر لے آتا ہے۔

وصال با کمال[ترمیم]

مولانا محمد علی مکھڈوی آخری عمر میں بیمار رہنے لگے تھے۔ بالآخر 29 رمضان المبارک 1253ھ بمطابق 1838ء میں خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کی زندگی میں وفات پائی۔ تدفین مکھڈ شریف تحصیل جنڈ ضلع اٹک میں ہوئی۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 479 تا 481