محمد قلی موسوی (کنتوری)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

علامہ سید محمد قلی موسوی ، بر صغیر کے ایک نامور شیعہ متکلم اور عالم تھے ـ ہندوستان کے شہر لکھنؤ کے رہنے والے تھے ـ

والد کا نام محمد حسین تھا جو اللہ کرم کے لقب سے مشہور تھے اور خود بھی وقت کے مشہور علما میں شمار ہوتے تھے ـ

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت 5 ذوالقعدہ سنہ 1188ھ کو لکھنؤ کے مضافات میں کنتور نامی ایک قصبہ میں ہوئی ـ یہ قصبہ بارہ بنکی ضلع سے تعلق رکھتا ہے ـ

کنتور میں ولادت کی وجہ سے ہی آپ کنتوری مشہور ہو گئے ـ

نسب نامہ: نسب نامہ: مفتى سيد محمد قلى ابن سيد محمد حسين المعروف بالسيد الله كرم ابن سيد حامد حسين ابن سيد زين العابدين ابن سيد محمد المشهور بالسيد البولاقی ابن سيد محمد المعروف بالسيد مدا ابن سيد حسين المشهور بالسيد ميتم ابن سيد حسين ابن سيد جعفر ابن السيد علي ابن سيد كبير الدين ابن سيد شمس الدين ابن سيد جمال الدين ابن سيد شهاب الدين أبی المظفر حسين الملقب بسيد السادات والمعروف بالسيد علاء الدين أعلى بزرك ابن سيد محمد المعروف بالسيد عز الدين ابن سيد شرف الدين أبی طالب المشهور بالسيد الأشرف ابن سيد محمد الملقب بالمهدی المعروف بالسيد محمد المحروق ابن سید حمزہ ابن سید علی ابن سید أبی محمد ابن سید جعفر ابن سید مهدی ابن سید أبی طالب ابن سید علی ابن سید حمزہ ابن سید أبی القاسم حمزہ ابن امام موسیٰ الكاظم علیہ السّلام

تعلیم[ترمیم]

آپ کی تعلیم کے بارے میں اہل سنت کے مشہور عالم ابو الحسنات لکھنوی لکھتے ہیں :

”قرأ العلم علی أساتذۃ لكھنؤ ثم لازم السيد دلدار علی بن محمد معين النقوی النصيرآبادی المجتھد، وأخذ عنہ الفقہ والأصول والحديث، ثم ولی الإفتاء ببلدۃ ميرتھـ فاستقل بہ مدۃ من الزمان“. [1]

آپ نے لکھنؤ کے نامور اساتذہ سے علم حاصل کیا پھر مستقل طور پر آیت اللہ سید دلدار علی غفرانمآب سے وابستہ ہو گئے اور فقہ و اصول فقہ نیز حدیث کا علم آپ نے ان سے حاصل کیا ـ

پھر ایک مدت تک شہر میرٹھ میں قضاوت کے عہدہ پر اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح انجام دیا ـ

علامہ سید محسن امین عاملی کی نگاہ میں[ترمیم]

علامہ سید محسن امین عاملی آپ کی علمی شخصیت کے بارے میں ان الفاظ میں رطب اللسان ہیں :

”كان متكلماً بارعاً في علم المعقول، حسن المناظرۃ، جيد التحرير، واسع التتبع، تلمَّذ علی السيد دلدار علی، واشتغل في الرد علی المخالفين فقام بہ أحسن قيام“. [2]

تالیفات[ترمیم]

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی کے بیان کے مطابق آپ کی اہم تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :

1: الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ : یہ مجموعہ ہے ان کتابوں کا جو آپ نے علامہ عبد العزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کے جواب میں لکھی تھیں ـ

2: السيف الناصری : تحفۂ اثنا عشریہ کے پہلے باب کا جواب ـ

3: تقليب المكائد: تحفۂ اثنا عشریہ کے دوسرے باب کا جواب ـ

4: برھان السعادۃ : تحفۂ اثنا عشریہ کے ساتویں باب (امامت) کا جواب ـ

5: تشييد المطاعن و كشف الضغائن : تحفۂ اثنا عشریہ کے دسویں باب کا جواب ـ

6: مصارع الأفھام لقطع الأوھام : تحفۂ اثنا عشریہ کے گیارہویں باب کا جواب ـ

7: الفتوحات الحيدريۃ : عبد الحی برہانوی نے ایک کتاب صراط مستقیم لکھی جس میں انھوں نے عزاداری امام حسین کو بدعت قرار دیا ،ـ اس کے جواب میں آپ نے یہ کتاب لکھی جس میں آپ نے خود اہل سنت کی معتبر کتابوں سے عزاداری امام حسین کا سنت ہونا ثابت کیا ـ

8: تكملۃ الميزان لتعليم الصبيان : علم صرف کی کتاب میزان کی شرح ـ

9: أبنيۃ الافعال : اردو زبان میں علم صرف کی کتاب ہے ـ

10: تطھير المؤمنين عن نجاسۃ المشركين

11: أحكام العدالۃ العلويۃ (فارسی)

12: تقريب الأفھام فی تفسير آيات الأحكام (فارسی)

13: التقيۃ : فارسی زبان میں تقیہ کے موضوع پر لکھی اور اردو میں بھی اس کتاب کا ترجمہ ہوا ـ

14: الكبائر : فارسی زبان میں گناہان کبیرہ کے بارے میں لکھی ـ [3]

اولاد[ترمیم]

آپ کی اولاد میں تین بیٹے تھے :

1 : سید سراج حسین موسوی

2 : سید اعجاز حسین موسوی

3 : سید حامد حسین موسوی : جنھوں نے علامہ عبد العزیز محدث دہلوی کی کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کے باب امامت (باب ہفتم) کے جواب میں کتاب عبقات الانوارفی امامۃ الائمۃ الاطہار لکھی ـ

وفات اور مدفن[ترمیم]

4 یا 9 محرم سنہ 1260ھ کو لکھنؤ میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کو حسینیه غفرانمآب میں دفن کیا گیا ـ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نزھۃ الخواطر وبھجۃ المسامع والنواظر (الإعلام بمن فی تاريخ الھند من الأعلام )، صفحہ: 1103
  2. أعيان الشيعۃ، ج: 10، صفحہ: 27
  3. الذريعۃ إلی تصانيف الشيعۃ (آقا بزرگ تہرانی).