محمد محمود الوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی الشاہ محمد محمود الوری ممتاز عالم دین اور رُکن الاسلام جامعہ مجدّدیہ کے پہلے بانی و چیئرمین ہیں۔

ولادت[ترمیم]

الشاہ محمد محمود الوری بن الشاہ رکن الدین الوری بن الشاہ شمس الدین 5؍ ذی الحجہ 1322ھ / 1904ء جمعۃ المبارک کی شب کو اَلور (ہندوستان) کے مقام پر پیدا ہوئے۔[1]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ والد ماجد اور جد امجد ممتاز علما تھے۔ مولانا رکن الدّین فقہ کی مشہور کتاب ’’رکن الدین‘‘ (اُردو) کے مؤلف گذرے ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد ماجد اور جدِّ امجد سے حاصل کی فارسی میں گلستاں اور بوستاں اور عربی میں ہدایۃ النحوتک کتب پڑھنے کے بعد اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ اجمیر شریف کے مدرسہ معینیہ عثمانیہ میں قطبی شرح جامی اور شافیہ وغیرہ کتب پڑھیں اور پھر دہلی کے مدرسہ عالیہ جامع مسجد فتح پور میں پہنچے۔ یہاں آپ نے مولانا عبد الرحمان سے کتبِ منطق، قطبی تک اور فلسفہ میں ہدیۂ سعیدیہ کے علاوہ شرح وقایہ شرح جامی اور مختصر المعانی وغیرہ پڑھیں اور پھر بھوپال گئے۔ بھو پال کے مدرسہ احمدیہ میں آپ نے مولانا محمد حسن سے کتبِ احادیث مشکوٰۃ شریف، ترمذی شریف، بخاری شریف اور مسلم شریف کا درس لیا۔ اس کے بعد دوبارہ اجمیر شریف حاضر ہوئے اور مدرسہ معینیہ عثمانیہ میں داخل ہوکر اصولِ فقہ، علمِ کلام، ادب، تفسیر اور کتب احادیث دوبارہ پڑھیں۔ علاوہ ازیں منطق کی بعض کتب اور علمِ ریاضی میں اوقلیدس پڑھنے کے بعد یہاں سے بھی سندِ فراغت حاصل کی۔

اساتذہ کرام[ترمیم]

آپ کے اساتذہ میں جلیل القدر اکابر اہل سنّت کے نام آتے ہیں۔ مثلاً مولانا معین الدّین مولانا محمد امجد علی اعظمی مولانا عبد المجید اور مفتی اعظم محمد مظہر اللہ خطیب شاہی مسجد فتح پور دہلی۔ سے آپ نے علم الفرائض میں سراجی پڑھی اور علم توقیت بھی حاصل کیا۔ آپ نے علومِ عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دہلی کے حکیم جمیل الدّین سے طب میں شرح مُوجز، کلّیاتِ نفیسی، شرح حمیّات القانون للشیخ الرئیس بو علی سینا وغیرہ پڑھیں اور سندِ طب حاصل کی۔

پاکستان آمد[ترمیم]

1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت راجپوتانہ میں زبردست فسادات پھوٹ پڑے چنانچہ آپ الور چھوڑ کر دہلی آگئے۔ پھرآپ نے یہاں سے بھی ہجرت کی اور حیدرآباد (پاکستان) میں مستقل قیام فرمایا۔ حیدرآباد کے محلہ ہیر آباد میں قیام کیا جامع مسجد آزاد میدان کی تعمیر کرائی کچھ عرصہ حیدرآباد کی مرکزی مساجد، مسجد مائی خیری اور مدینہ مسجد میں بھی درسِ قرآن کریم دیا جامع مسجد آزاد میدان میں آپ نے ایک دار العلوم رُکن الاسلام جامعہ مجدّدیہ کے نام سے قائم کیا، جہاں علوم عقلیہ و نقلیہ کے علاوہ فنِّ تجوید و قرأت کا بھی اہتمام ہے۔[2]

وفات[ترمیم]

الشاہ مفتی محمد محمود الوری کا انتقال 21 شعبان 1407ھ 1984ء کو حیدرآباد میں ہوا۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. روئداد رکن الاسلام جامعہ مجددیہ، بیر آباد ص 11،12حیدر آباد
  2. تعارفی جائزہ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ ص 65 ، حیدرآباد
  3. سوانحی خاکہ صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر حیدرآباد