محمد چراغ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
لوح مرقد انور مولانا محمد چراغ

تعارف[ترمیم]

آپ معروف عالم دین ، مدرس ، مصنف ، محدث اور سیاسی کارکن تھے۔ مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور ( بھارت ) اور دار العلوم دیو بند ( بھارت ) سے فارغ التحصیل تھے۔ احرار اسلام اور تحریک ختم نبوت کے سرگرم رکن رہے۔

حالات زندگی[ترمیم]

آپ 20 نومبر 1896ء کو موضع دھکڑ ضلع گجرات صوبہ پنجاب ، متحدہ ہندوستان میں حافظ کرم دین کے گھر پیدا ہوئے۔ 7 سال کی عمر میں مولانا محمود گنجوی گجراتی نے آپ کو عربی قاعدہ کی بسم اللہ کرائی۔ اسکول کی تعلیم کے لیے برادر بزرگ محمد سراج کے پاس لاہور بھجوائے گئے۔ مدرسہ نعمانیہ لاہور میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ 4 سال بعد آبائی وطن گنجہ ضلع گجرات آ گئے اور دینی تعلیم کے لیے مولانا سلطان احمد گنجوی کی شاگردی اختیار کی۔ آپ نے یہاں اڑھائی سال قیام کیا اور علم صرف و نحو پڑھا۔ بعد ازاں مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور (بھارت) اور دار العلوم دیو بند ( بھارت ) کا رخ کیا جہاں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس ، حجۃ الاسلام مولانا انور شاہ کشمیری اور شیخ الحدیث مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ تکمیل علم کے بعد ایک سال تک میرٹھ میں سلطان التمش کی مسجد سے ملحق مدرسہ میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں پنجاب آئے اور جامعہ فتحیہ ، اچھرہ ، لاہور اور سید جماعت علی شاہ کے مدرسہ واقع علی پور سیداں ، سیالکوٹ میں تدریسی خدمات پر مامور رہے۔ 1924 میں گوجرانوالہ کا رخ کیا اور مدرسہ انوار العلوم ، شیرانوالہ باغ میں 12 سال تک درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ یکم جنوری 1936ء کو آپ نے بیرون کھیالی دروازہ مسجد آرائیاں گوجرانوالا میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ طلبہ کی تعداد بڑھنے پر مدرسہ ہذا کو کشادہ جگہ منتقل کرنے کا مرحلہ شروع ہواتو مولانا محمد چراغ نے یکم اکتوبر 1967ء کو جی ٹی روڈ پر 18 کنال زمین حاصل کر کے جامعہ عربیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ یکم اکتوبر 1969ء کو اس مدرسے میں تعلیم کا آغاز ہوا۔[1]

سیاسی خدمات[ترمیم]

تحریک خلافت کا شمار برصغیر کی بڑی تحریکوں میں ہوتا ہے۔ مولانا چراغ نے اسی تحریک کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کی صدارت میں میکر والی ، ضلع گجرات کے مقام پر آپ نے پہلے سیاسی جلسے سے خطاب کیا۔ بعد ازاں آپ نے جمیعت علما ہند میں شمولیت اختیار کی اور جمیعت علما ہند گوجرانوالا کے صدر مقرر ہوئے۔ مجلس احرار اسلام اور تحریک ختم نبوت میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1949ء میں آپ نے جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا اور مولانا مودودی کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا چراغ نے جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل نہیں کی مگر اس کے باوجود 1951ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر گوجرانوالا سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا۔ آپ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران چار مرتبہ قید ہوئے۔[2]

تصانیف[ترمیم]

آپ کی درج ذیل کتب شائع ہوئیں:

1۔ العرف الشذی ( شرح درس ترمذی)

2۔چراغ ہدایت (رد قادیانیت )

وفات[ترمیم]

ٓآپ نے 21 1پریل 1989ء کو گوجرانوالا میں وفات پائی اور بروز اتوار 23 اپریل 1989 کو جامعہ عربیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالا کے احاطے میں دفن ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. وفیات پاکستانی اہل قلم علما از خالد مصطفی صفحہ 218
  2. ماہنامہ "چراغ اسلام" گوجرانوالا اپریل مئی 2011