محمد کا ذکر بڑے مذاہب کی کتابوں میں

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیغمبر اسلام محمد ﷺ بن عبد اللہ تاریخ انسانیت کی وہ واحد ہستی ہیں۔ جن کا ذکر دنیا کی تمام بڑے مذاہب کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ آپ کا ذکر یہودیت، مسیحیت، ہندو مت، بدھ مت اور زرتشتیت (پارسی مت) وغیرہ کی مقدس کتابوں میں کیا گیا ہیں۔[1]

[2](  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ الله) ہندوؤں کی کتاب وید کا منتر جسے ان کہی کامنتر کہتے ہیں اس کا مطلب چھپایا گیا کسی سے کہا نہیں جا سکتا۔سقراط کے عالم جب ہندوؤں کی جان نہیں نکلتی اس ٹائم ہندوؤں کے مہا برہمن کو بلا یا جاتااور مرنے والے کے کان میں پڑھا جاتا ہے

1.لاالہ ہرنی پاپم 2.الل امباپرم پدم 3. اور جنم و کنت پراپتی 4.تو جپ نام محمدم صلی اللہ علیہ وسلم

1.اے بگھت لاالہ کہنے سے تیرے پاپ گناہ برن ہو جائیں دھل جائیں گے

2.اور اللہ کو پیدا کرنے والا مان لینے سے تمھیں پرم پدی مل جائے گی یعنی مکتی موت

3.اور ہمشہ کے لیے سورگ پراپت کرنا چاہتا ہے جنت حاصل کرنا چاہتا ہے

4.تو محمد صاحب کے نام والا کلمہ جپ لے پڑھ لے۔۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ الله۔۔ (باباجی محمد عادل) رام نگر چک نمبر 6تحصل وضلع ننکانہ صاحب والے ( شئیر کریں)

مسیحیوں کی کتابوں میں[ترمیم]

تمہید امور[ترمیم]

کیا کسی نبی کے لیے انبیائے سابقین کی پیش گوئی ضروری ہے؟

یہود ونصاریٰ کا یہ خیال خام ہے کہ کسی نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ انبیا سابقین نے اس نبی کی پیش گوئی کی ہو اور اس آنے والے نبی کی نشانیاں لوگوں کو بتلائی ہوں جس مدعی نبوت میں یہ نشانیاں پائی جائیں وہ نبی صادق ہے ورنہ کاذب اور پھر علما یہود و نصاریٰ اپنے اس خود تراشیدہ معیار کی بنا پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ کتب ِ سابقہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی کوئی پیش گوئی نہیں اور جو پیش گوئیاں علما اسلام پیش کرتے ہیں وہ نبی ﷺ پر منطبق نہیں۔

1۔ اہلِ اسلام یہ کہتے ہیں کہ اول تو یہ خود تراشیدہ قاعدہ ہی غلط ہے۔ اثباتِ نبوت کے لیے نبی سابق کا نبی لاحق کی خبر دینا ضروری نہیں، اس لیے کہ اگر نبی لاحق کی نبوت کا ثبوت نبی سابق کی خبر پر موقوف ہو تو نسلسل لازم آئے گا۔

حزقیل علیہ السلام، دانیال علیہ السلام اور اشعیاء علیہ السلام وغیرہم جن کا نبی ہونا اہلِ کتاب کے نزدیک مسلم ہے، ان کا ذکر اور ان کی خبر کتب سابقہ میں موجود نہیں، معلوم ہوا کہ اصل نبوت کا دارومدار معجزات اور علاماتِ نبوت پر ہے۔ البتہ نبی سابق کا، نبی لاحق کے ظہور اور بعثت کی خبر دینا، یہ اس آنے والے نبی کی جلالت قدر اور عظمتِ شان پر دلالت کرتا ہے۔

3۔ علما نصاریٰ اس بات پر متفق ہیں کہ انبیا سابقین نے مسیح علیہ السلام کی آمد کی پیش گوئی کی ہے مگر یہود کے سلف اور خلف عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئیوں کے قطعاً منکر ہیں۔ علما نصاریٰ جن خبروں کو مسیح علیہ السلام کے حق میں بتاتے ہیں، یہود ان میں ایسی تاویلیں کرتے ہیں کہ جن سے وہ خبریں مسیح علیہ السلام پر صادق نہیں آتیں۔

پس جس طرح یہود مسیح علیہ السلام کی بشارتوں کے منکر ہیں، اسی طرح نصاریٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارتوں اور پیش گوئیوں کے منکر ہیں۔

4۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر نبی سابق، نبی لاحق کی خبر دے تو اُس کی صفات اور علامات اور خصوصیات شخصیہ کی ایسی تشریح کر دے کہ اس نبی کو دیکھتے ہی خواص اور عوام کو اس کی نبوت کا بالبداہت یقین آجائے کہ کسی شبہ کی گنجائش اس میں باقی نہ رہے۔ نبی کی شناخت اگر ایسی بدیہی ہو جائے تو پھر معجزات اور دلائل نبوت اور براہینِ رسالت کی ضرورت نہ رہے گی۔

کیا مسیح علیہ السلام خاتم النبیین تھے؟[ترمیم]

کیا مسیح خاتم النبیین تھے کہ ان کے بعد کسی نبی کا آنا ناممکن ہے؟ نصاریٰ کا دعویٰ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام خاتم النبیین تھے کہ ان کے بعد کسی نبی کا آنا ناممکن ہے اور اہل ِ اسلام یہ کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ 1۔ اس لیے کہ مسیح علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں، کسی انجیل میں کسی جگہ بھی یہ مذکور نہیں کہ مسیح خاتم النبیین ہیں۔ 2۔ مسیح علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میرے آسمان پر چلے جانے کے بعد کوئی سچا نبی نہیں آئے گا بلکہ اپنے بعد ایک آنے والے عظیم الشان رسول یعنی فارقلیط کی بشارت دی اور اس پر ایمان لانے کی تاکید کی اور اسی بنا پر علما اہل کتاب بھی فارقلیط کی آمد کے منتظر رہے۔ جس کا انجیل میں وعدہ کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے مونٹانس نے اپنے حق میں فارقلیط ہونے کا دعویٰ کیا اور بہت سے لوگ اس کے پیرو ہو گئے۔ 3۔ نیز نصاریٰ حواریین اور پولوس کی نبوت کے قائل ہیں حالانکہ یہ سب مسیح علیہ السلام کے بعد ہیں۔ 4۔ کتاب الاعمال کے گیارھویں باب میں لکھا ہے۔ 27۔ انہی دنوں چند نبی یروشلم سے انطاکیہ میں آئے۔ 28۔ ان میں ایک نے جس کا نام اگبس تھا کھڑے ہو کر روح کے ہدایت سے ظاہر کیا کہ تمام دنیا میں بڑا کال پڑے گا اور یہ کلودیس (قیصر روم) کے عہد میں واقع ہوا۔ یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ یروشلم سے انطاکیہ میں چند نبی آئے جن میں سے ایک کا نام اگبس اور عربی نسخہ میں اغابوس تھا اور یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ واقعہ مسیح علیہ السلام کے بعد کا ہے، پس جب ان کے بعد نبی ثابت ہوئے تو مسیح علیہ السلام کا خاتم النبیین ہونا قطعا غلط ہوا۔ 5۔ نیز انجیل متی کے ساتویں باب درس 15 میں حضرت مسیح کی تعلیم اور تنبیہ اس طرح مذکور ہے۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ الیٰ اخرہ۔ اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے خبردار کیا ہے کہ میرے بعد بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت ظاہر ہوں گے اور میرے نام سے نبوت کا دعویٰ کریں گے یعنی یہ کہیں گے کہ میں مسیح موعود ہوں (جیسا کہ مرزا قادیانی نے دعویٰ کیا تھا)، تم ان سے خبردار رہنا، وہ باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس تعلیم میں یہ قید لگائی کہ میرے بعد جھوٹے مدعیان نبوت کے دھوکا میں نہ آنا اور یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، بلکہ یہ فرمایا کہ مدعیان نبوت کا امتحان کرو، سچے کی تصدیق کرو اور جھوٹے کی تکذیب کرو چنانچہ یوحنا کے پہلے خط کے باب چہارم میں ہے۔ اے عزیزو ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ خود نصاریٰ کی ان نصوص سے یہ امر واضح ہو گیا کہ مسیح علیہ السلام خاتم النبیین نہ تھے۔

بائبل میں[ترمیم]

مقدس بائبل مسیحیوں کی مقدس کتاب ہے۔
ا ) بائبل کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہیں، عہد نامہ قدیم (عتیق) اور عہد نامہ جدید۔ عہد نامہ قدیم یہودیوں کی مقدس کتاب ہے اور اس میں موسی ‎سے پہلے تمام انبیا کے حالات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہیں۔ عہد نامہ جدید عیسی کے احوال پر مشتمل ہے۔
ب ) عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کوملا کر پوری بائبل 73 کتب پر مشتمل ہیں۔ تاہم پروٹسٹنٹ بائبل جو کنگ جیمز ورشن کہلاتا ہے، 66 کتب پر مشتمل ہیں۔ کیوں کہ یہ 7 کتابوں کو مشکوک سمجھتے ہیں۔ اور اس کی سند پر شک کرتے ہیں۔
اس لیے کیتھولک فرقے کے عہد نامہ قدیم میں 46 کتب ہیں جبکہ پروٹشٹنٹ کے عہد نامہ قدیم میں 39 کتب ہیں۔ جبکہ دونوں فرقوں کا عہد نامہ جدید 27 کتب پر مشتمل ہیں۔ مسیحیت میں کئی فرقے ہیں، جن میں دو بڑے فرقے ہیں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ۔

عہد نامہ قدیم میں[ترمیم]

قرآن مجید فرماتا ہے کہ:
وہ لوگ جو نبی اُمی (بظاھر کسی سے نہ پڑھے ہوئے) رسول کی پیروی کرتے ہیں جسے وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ [3]

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ کی پیش گوئی کی گئی توریت کی پانچویں کتاب ڈیوٹرانمی (کتابِ استثنا) میں(Deuteronomy):
اﷲتعالیٰ موسی سے فرماتا ہے ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا) کے سورةنمبر 18 آیت 18 میں:
میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا، جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا اور میں اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔
مسیحی یہ دعویٰ کرتے ہے کہ یہ پیش گوئی عیسی کے بارے میں ہے کیونکہ عیسی موسی کی طرح تھے۔ موسی بھی یہودی تھے، عیسی بھی یہودی تھے۔ موسی بھی پیغبر تھے اور عیسی بھی پیغمبر تھے۔ اگراس پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے یہی دو اصول ہیں تو پھر بائبل میں ذکر کیے گئے تمام پیغمبرجوموسی کے بعد آئے مثلاً سلیمان، حِزقیل، دانیال، یحیٰ وغیرہ سب یہودی بھی تھے اور پیغمبر بھی حالانکہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو موسی کی طرح ہے۔[4]

1) دونوں یعنی موسی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماں باپ تھے جبکہ عیسیٰ معجزانہ طور پر مرد کے مداخلت کے بغیرپیدا ہوا تھا۔[5][6][7]
2) دونوں نے شادیاں کی اور ان کے بچے بھی تھے جبکہ بائبل کے مطابق عیسی نے شادی نہیں کی اورنہ ہی اُن کے بچے تھے۔
3) دونوں نے فطرتی طور پر (پردہ)فرمایا۔ جبکہ عیسیٰ کوزندہ اُٹھالیا گیا ہے۔[8]
حضرت محمد صلی علیہ وسلم، حضرت موسٰی کے بھائیوں میں سے تھے۔ عرب یہودیوں کے بھائی ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (Isaac)۔ عرب اسماعیل کے اولاد میں سے ہے اور یہودی اسحاق کے اولاد میں سے ہے۔

منہ میں الفاظ ڈالنا
عربی لغت میں ایک لفظ کے بے شمار معانی ہوتے ہیں، اُمی کا ایک معنی ہے۔ اصل، جڑ۔ مکہ کو ام القری بھی کہتے ہیں، کیونکہ سب سے پہلے مکہ کو سرزمین بنایا گیا۔ اسی طرح ماں کو عربی زبان میں ام کہتے ہیں، کیونکہ یہ اپنی اولاد کی اصل ہوتی ہے، اسی طرح حضرت اماں حوا کو اماں اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ تمام انسانوں کی اصل اور جڑ ہیں۔

دوسرا معنی ہے ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، یہی معنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی انسان سے علم حاصل نہیں کیا۔ انسانوں میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استاد نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمیع علوم سکھائے ہیں۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جو ساری دنیا کو سکھانے کے لیے آیا ہو، سیدھا راستہ دکھانے کے لیے آیا ہو، وہ خود ہی کچھ نہ جانتا ہو۔ ایسا کوئی بدبخت، بد نصیب اور گستاخ ہی سوچ سکتا ہے کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پڑھ ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا کہنا، سوچنا اور عقیدہ رکھنا کفر ہے۔

میں تمھارے بھائیوں کے درمیا ن میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا، جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا، اورمیں اپنے الفاظ اُسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جیسے میں اُسکو حکم کروں گا۔[9]
2: ڈیوٹرانمی کی کتاب یہ درج ہے کہ:
جوکوئی میری اُن باتوں کو جنکو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں اُنکا حساب اُن سے لوں گا۔ [10]

محمدۖ کی پیش گوئی کی گئی (Isaiah) کی کتاب میں:
اس کا ذکر(Isaiah) کی کتاب میں ہے کہ:
جب کتاب اس کو دی گئی جو ان پڑھ ہے اور کہا کہ اس کو پڑھو میں تمھارے لیے دُعا کروں گا تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ [11]

جب جبرائیل نے محمدۖ سے کہا کہ پڑھ تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔

عہد نامہ جدید میں[ترمیم]

قرآن کے سورة الصف کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسی ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل!بلاشبہ میں اﷲتعالیٰ کا رسول ہوں(جو) تمھاری طرف (بھیجا گیاہوں)۔ میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کا جو مجھ سے پہلے آئی ہے اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا۔ پھر وہ جب کھلی نشانیاں لے کر آیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔[12]
تمام وہ حوالے جو عہد نامہِ قدیم (Old Testament) میں محمدۖ کے بارے میں دیے گئے ہیں وہ یہودیوں کے علاوہ مسیحیوں کے لیے بھی درست ہے۔ کیونکہ مسیحی دونوں، عہد نامہ قدیم (Old Testament) اور عہد نامہِ جدید(New Testament) دونوں کو مانتی ہیں جبکہ یہودی صرف عہد نامہِ قدیم کو مانتے ہے۔

یوحنا(John)کی کتاب سورة 14 آیت 16
اور میں خُدا سے دُعا کروں گا اور وہ تمھیں ایک مددگار دے گا جو تمھارے ساتھ، ہمیشہ رہے گا۔[13]

یوحنا(John) کی کتاب سورة 15 آیت 26
میں تمھارے پاس مددگار بھیجوں گا جو میرے باپ کی طرف سے ہوگا وہ مددگار سچائی کی روح ہے جو باپ کی طرف سے آتی ہے جب وہ آئے گا تو میرے بارے میں گواہی دے گا۔[14]

یوحَنّا(John) کی کتاب سورة 16 آیت 7
میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے بہتر ہے کیوں کہ اگر میں جاتا ہوں تو تمھارے لیے مددگار بھیجوں گا۔ اگر میں نہ جائوں تو تمھارے پاس مددگار نہ آئے گا۔[15]
احمدیا محمدۖکا مطلب ہے وہ شخص جس کی تعریف کی جاتی ہےیا وہ جس کی تعریف کی گئی ہو۔ یہ تقریباً یونانی لفظ پے ری کلایٹس(Periclytos) کے معنی ہے۔ یوحَنّا کی کتاب کے سورة 16آیت 16، سورة 51 آیت 26 اور سورة 16 آیت 7 میں یونانی لفظپے ری کلیٹاس(Peraclytos) کا انگریزی میں ترجمہ(comforter)کم فرٹر یعنی مددگار لفظ سے کیا گیا ہے۔ حالانکہ (Peraclytos) کے معنی ہے وکیل یا ایک مہربان دوست۔ اس کا مطلب مددگارنہیں ہے۔ جو انگریزی ترجمہ میں استعمال کیا گیا ہے۔ (Paracletos)پے ری کلیٹاس لفظ (Pariclytos) پے ری کلایٹس کی ٹیٹری شکل ہے۔ عیسی نے درحقیقت احمد کا نام لے کر پیش گوئی کی۔ نیز یونانی لفظ پے راکلیٹ (Paraclete) محمدۖ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو سارے جہان کے لیے رحمت ہے۔
بعض مسیحی یہ کہتے ہے کہ لفظ مددگار(Comforter) جس کا ذکر ان پیش گوئیوں میں کیا گیا ہے، یہ روح لقدس یا روحِ مقدس (Holy spirit) کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن یہ اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے ہے کیونکہ پیش گوئی میں یہ صاف ذکر ہے کہ جب عیسی اس دنیا سے چلا جائے گا تب مددگار(Comforter)آئے گا۔ حالانکہ بائبل(Bible)یہ بتاتی ہے کہ روح القدس تو پہلے سے زمین پر موجود تھا عیسی کے زمانے میں بھی اور اس سے پہلے بھی۔ وہ اِلیزبِت(Elizabeth) کے رحم میں موجود تھا اوردوبارہ جب عیسی کی بپتسمہ یا اصطباغ (Baptism) کی جا رہی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح یہ پیش گوئی صرف اور صرف محمدۖ کے بارے میں ہے اور صرف اسی کا ذکر کرتی ہے۔

یوحنا(John) کی انجیل سورة 16 آیات14-12
مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے۔ لیکن جب روحِ حق آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔ روحِ حق اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ وہی کہے گا جو وہ سنتا ہے وہ تمھیں وہی کہے گا جو کچھ ہونے والا ہے اور وہ میری (یعنی عیسی(علیہ السّلام) کی بڑائی بیان کرے گا۔[16]
مندرجہ بالاآیت میں روحِ حق کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہاں روح حقکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں سے ایک صفت حقبھی ہے۔ جو قرآن مجید میں موجود ہے۔ مندرجہ بالاآیت میں یہ بھی کہا گیا کہ جب وہ آئے گا تو:
1) لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائے گا۔
2) جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہے گا۔
3) وہ عیسی کی بڑائی بیان کرے گا اور اس کا احترام کرے گا۔

ا - رسول اﷲ(ۖ)نے لوگوں کو سچائی کی راہ دکھائی اور وہ ہے اﷲتعالیٰ کی راہ۔

ب- رسول اﷲ(ۖ) نے جو کچھ سُنا وہی کہا اور اپنی خواھش سے کوئی بات نہیں کی۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: اور(نبیۖ) اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ نہیں ہے یہ کچھ اور مگر جو اس کو وحی کی جاتی ہے۔

د- رسول اﷲ(ۖ) نے کسی بھی بنی کے بارے میں کوئی غلط الفاظ استعمال نہیں کیے۔ وہ ہمیشہ اﷲتعالیٰ کی نبیوں کی تعریف کرتا تھا۔ اور دوسرے نبیوں کے ساتھ ساتھ محمدۖ نے عیسی کی بڑی تعریف کی ہے۔ قرآن مجید میں بھی عیسی کی تعریف کئی جگہوں میں کی گئی ہے۔ عیسی کو قرآن میں روح ﷲ کہاگیا ہے جس کے معنی ہے ﷲ تعالیٰ کی رحمت۔ اس کے علاوہ عیسی کو کلمتہ ﷲ یعنی اﷲ تعالیٰ کا کلام، نبی ﷲیعنی ﷲ تعالیٰ کا نبی اور پیغمبر کے نام سے پکارا گیا ہے۔

یہودیوں کی کتابوں میں[ترمیم]

یہودی، بائبل کے صرف عہد نامہ عییق (قدیم) پر یقین رکھتے ہیں۔

عہدنامہ ِقدیم میں[ترمیم]

قرآن مجید فرماتا ہے کہ:
وہ لوگ جو ایسے رسولۖ، نبی اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ [3]

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کتابِ استثنا میں(Deuteronomy)
اﷲتعالیٰ موسی سے فرماتا ہے ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا) کے سورةنمبر 18 آیت 18 میں:
میں تمھارے بھائیوں کے درمیان میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا، جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا اور میں اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جو میں اسکوحکم دوں گا۔
مسیحی یہ دعویٰ کرتے ہے کہ یہ پیش گوئی عیسی کے بارے میں ہے کیونکہ عیسی موسی کی طرح تھے۔ موسی بھی یہودی تھے، عیسی بھی یہودی تھے۔ موسی بھی پیغبر تھے اور عیسی بھی پیغمبر تھے۔ اگراس پیش گوئی کو پورا کرنے کے لیے یہی دو اصول ہیں تو پھر بائبل میں ذکر کیے گئے تمام پیغمبرجوموسی کے بعد آئے مثلاً سلیمان، حِزقیل، دانیال، یحیٰ وغیرہ سب یہودی بھی تھے اور پیغمبر بھی حالانکہ یہ محمدۖ ہے جو موسی کی طرح ہے۔[4]

1) دونوں یعنی موسی اور محمدۖ کے ماں باپ تھے جبکہ عیسیٰ معجزانہ طور پر مرد کے مداخلت کے بغیرپیدا ہوا تھا۔[5][6][7]
2) دونوں نے شادیاں کی اور ان کے بچے بھی تھے جبکہ بائبل کے مطابق عیسی نے شادی نہیں کی اورنہ ہی اُن کے بچے تھے۔
3) دونوں فطرتی موت مرے۔ جبکہ عیسیٰ کوزندہ اُٹھالیا گیا ہے۔[8]
حضرت محمد، حضرت موسٰی کے بھائیوں میں سے تھے۔ عرب یہودیوں کے بھائی ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (Isaac)۔ عرب اسماعیل کے اولاد میں سے ہے اور یہودی اسحاق کے اولاد میں سے ہے۔

منہ میں الفاظ ڈالنا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اُمّی) تھے۔ جس کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔امی کے معنی میں۔۔۔۔ میں تمھارے بھائیوں کے درمیا ن میں سے ایک پیغمبر پیدا کروں گا، جو تمھاری (موسی) کی طرح ہوگا، اورمیں اپنے الفاظ اُسکے منہ میں ڈالوں گا اور وہ ان سے یہی کہے گا جیسے میں اُسکو حکم کروں گا۔[9]
2: ڈیوٹرانمی کی کتاب یہ درج ہے کہ:
جوکوئی میری اُن باتوں کو جنکو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں اُنکا حساب اُن سے لوں گا۔ [10]

ح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر (Isaiah) کی کتاب میں
اس کا ذکر(Isaiah) کی کتاب میں ہے کہ:
جب کتاب اس کو دی گئی جو (امّی) ہے اور کہا کہ اس کو پڑھو میں تمھارے لیے دُعا کروں گا تو اس نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ [11]

محمدۖ کا ذکر نام کے ساتھ
محمدۖ کا ذکر نام کے ساتھ سلیمان کی مناجات (songs of solomon) میں کیا گیا ہے۔
یہ ایک عبرانی حوالہ ہے جس کے معنی ہے:
وہ بہت میٹھا ہے، ہاں: وہ بہت پیارا ہے۔ یہ میرا محبوب ہے اور یہ میرا دوست ہے، اے یروشلم کے بیٹیوں[17]
عبرانی زبان میں لفظ اِم احترام کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً عبرانی زبان میں خُدا کواِلُکہاجاتا ہے۔ لیکن احترام سے اس کواِلُ اِم'پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح محمدۖ کے نام کے ساتھ بھی اِم کااضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن انگریزی میں اس کا ترجمہ لفظ پیارا سے کیا گیا ہے۔ لیکن عبرانی زبان کے عہدنامہ قدیم (Old Testament) میں محمدۖ کا نام ابھی بھی موجود ہے۔

بدھ مت کی کتابوں میں[ترمیم]

گوتم بدھ کی پیش گويی مایتریا بارے میں[ترمیم]

بدھ مت کے تقریباً تمام کتابوں میں حضرت محمّد کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

چکاوتی سنهنادستّانتا میں پیش گوئی
دنیا میں ایک بدها مایتریّا (سخی) کے نام سے ظاہر ہوگا، ایک مقدّس (انسان)، ایک عالی شان (انسان)، ایک روشن فکر، حکمت سے نوازا ہوا انسان، مبارک (انسان) جو کائنات کو سمجھے گا۔[18]
جو کچہ وہ اپنے مافوق الفطرت علم سے سمجھے گا، وہ پوری کائنات میں اس کا پرچار کر ے گا۔ وہ مذہب کی تبلیغ کر ے گا، جو ابتدا، میں بهی عالی شان ہوگی، اپنی عروج میں بهی عالی شان ہوگی، اپنی مقصد میں بهی عالی شان ہوگی، روحانی اور علمی اعتبار سے۔ وہ ایک مذہبی زندگی کی تشہیر کر ے گا، جومکمّل طور پر کامل اور خالص ہو گی، جیسا کہ میں اب اپنے مذهب کی تشہیر کرتا ہو اور اسی طرح کی زندگی کی دعوت دیتا ہو۔ وہ راہبوں کا ایک معاشرہ بنائے گا جس کی تعداد ہزاروں میں ہو گی جیسا کہ میں راهبوں کا ایک ایسے معاشرے کو برقرار رکہے ہوئے ہوں جس کی تعداد سینکڑوں میں هیں۔

مشرق کی مقدّس کتب کی پیش گوئی
یہ بتایا گیا کہ میں ہی اکیلا بدها نہیں ہوں، جس پر قیادت اور ضابطے کا انحصار ہے۔ میرے بعد ایک اور بدها مایتری ا فلاں فلاں خصلتوں کے ساتہ آئے گا۔ اب میں سسنکروں (لوگوں) کا رہبر ہو وہ ہزاروں کا رہبر اور راهنما ہو گا۔[19]

انجیل بدها کی پیش گوئی
انجیل بدها، کارس کے تصنیف کردہ کے صفحہ 218 –217 کے مطابق (جو سری لنکا کے منابع سے لیا گیا ہے۔)
انندا نے مبارک انسان سے فرمایا، آپ کے جانے کے بعد کون همیں تعلیم دے گا۔ اور مبارک انسان نے جواب دیا، میں پهلا بدها نہیں ہوں جو روئے زمین پر آیا اور مناسب وقت میں ایک اور بدها روئے زمین میں ابھرے گا، ایک مقدّس (انسان)، ایک روشن فکر(انسان)، چال چلن میں حکمت سے نوازہ ہوا (انسان)، مبارک (انسان)، کائنات کو جاننے والا، انسانوں کا بے نظیر راہنما، فانی (مخلوق) اور فرشتوں کا آقا۔ وہ آپ کے سامنے وهی ابدی حق آشکارہ کرے گا، جس کی میں نے آپ کو تعلیم دی ہے۔ وہ اپنے مذهب کی تبلیغ کرے گا، جو اپنے ابتدا، میں بهی عالی شان ہوگی، اپنے عروج میں بهی عالی شان ہوگی، اپنے مقصد میں بهی عالی شان ہوگی۔ وہ ایک مذہبی زندگی کی تشهیر کرے گا، جو خالص اور کامل ہو گی۔ جیسا کہ میں (اپنے مذہب) کی تشهیر کرتا ہوں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہو گی جبکہ میرے (شاگردوں کی تعداد) سینکروں میں ہیں۔
انندا نے کها کہ هم اس کو کس طرح پہنچانے نگے؟
مبارک انسان نے جواب دیا، وہ مایتریا کے نام سے جانا جائے گا۔[20]
1) سنسکرت زبان کے لفظ “مایتریا” یا اس کا هم پلّہ پالی زبان کا لغت “مے تیا” کے معنی ہے، پیار کرنے والا، رحمدل، نرمدل اور سخی (انسان)۔ اس کے اور معانا بهی هیں مثلاٌ رحم کرنا اور دوستی، ہمدردی وغیرہ۔ عربی زبان کا ایک لفظ جو ان سارے لفظوں کے برابر ہے، وہ ہے لفظ “رحمت”۔
قران مجید کے سورہ الانبیا میں ہے۔

ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بهیجا ہے۔[21]
محمّد کو رحمت کہا گیا جس کے معنی ہے “مایتری”۔

2) رحمت اور رحیم کے الفاظ قران کریم میں کم از کم 409 مرتبہ آیا ہیں۔

3) قران کریم کے ہر سورۀ سوائے سورۀ نمبر 9 کے، اس خوبصورت کلمے سے شروع ہوتی هیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔

4) لفظ محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیگر الفاظ کے ساتہ مختلف طریقوں سے دنیا کے مختلف زبانوں میں کیا گیا ہے مثلاٌ “محامت” یا “ماحومت” وغیرہ۔ لفظ “ماحو” یا “ماحا” پالی یا سنسکرت زبانوں میں عظیم اور عالی مرتبہ کو کہتے هیں اور “متا” کے معنی ہے، “رحمت”۔ اس لیے “ما حومت” کے معنی ہے “عظیم رحمت”۔

بدها کے جانثار خدمت گاران[ترمیم]

مشرق کے مقدّس کتب کے جلد نمبر11 صفحہ نمبر97 ماحا پاری نیانا ستّّا کے سورۀ نمبر 5 آیت 36 کے مطابق:
پهر مبارک انسان نے اپنی برادری سے خطاب کیا اور فرمایا کہ جو کوئی بهی آراهت-بدها اس طویل عرصے میں گذرے ہیں۔ ان سب کے جابثارخدمت گارتہے ان مبارک انسانوں کے، جیسا کہ انندہ میرا (خدمت) ہے۔ اور جو کوئی بهی مستقبل کا آراهت بدها ہوگا، تو ان مبارک انسانوں کی جانثار خدمت گار ہوں گے جیساکہ انندہ میرا (خدمت گار) ہے۔[22][23]
بدها کا خدمت گار انندا تها۔ محمّد کا بهی ایک خدمت گارتها جس کا نام حضرت انس تها۔ جو مالک کا بیٹا تها۔ حضرت انس کوان کے والدین نے محمّد کے سامنے پیش کیا۔ حضرت انس فرماتے ہے، میری والدہ نے ان سے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول یہ ہے آپ کا چہوٹا خادم۔
حضرت انس فرماتے ہے، که” میں نے آپ کی خدمت اس وقت سے کی جب میری عمر آتھ برس کی تهی۔ اور محمّد نے مجہے اپنا بیٹا اور اپنا چہوٹا محبوب کہا۔ حضرت انس اپنے زندگی کے اختتام تک پیغمبرکی ساتہ رہے چاہے زمانہ امن یا زمانہ جنگ۔ امن و امان میں یا خوف و خطر میں ہر وقت محمّد کے ساتہ رہا۔
حضرت انس جنگ احد میں محمّد کی ساتہ رہے جس وقت محمّدکی زندگی بڑے خطرے میں تهی۔ اور آپ کی عمر اس وقت صرف گیارہ (11) برس تهی۔ اور جنگ حنین میں بهی حضرت انس محمّد کے ساتھ رہے جب آپ کو تیر انداز دشمنوں نے گهیرا تها اور اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ (16) برس تهی۔ حضرت انس کو یقیناٌ انندا سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو بدها کی ساتہ رہا جب هاتهی نے اس پر حملہ کیا تها۔

بدها کو پہچانّے کے چھ اصول[ترمیم]

انجیل بدها، کارس کے تصنیف کردہ کے مطابق:
مبارک (انسان) نے فرمایا، ” دو ایسے مواقع هیں جس میں تاتهاگا، کا ظہور نہایت آشکارا اور روشن ہو گا۔ اس رات جس میں تاتهاگا عالی شان اور اکمل بصیرت حاصل کرے گا۔ اور وہ رات جس میں وہ انتقال کرے گا، حد سے زیادہ روشن ہوگی۔ جس سے زمین میں (بدها) کی موجودگی مفقود ہو جائے گی۔[24]
گوتهم بدھ کے مطابق بدها کو پهچاننے کے لیے مندرجہ ذیل چہ اصول ہیں۔
1) کہ بدها عالی شان اور اکمل بصیرت رات کے وقت حاصل کرے گا۔
2) وہ اپنے بصیرت کے اکملیت میں نہایت روشن ہوں گے۔
3) بدھا فطری موت مرے گا۔
4) وہ رات کے وقت وفات پا ے گا۔
5) وہ اپنی موت سے پہلے نہایت روشن چہرے والاہوگا۔
6) اس کے انتقال کے بعد ‍زمین پر بدھا کی موجودگی مفقود ہو جائئے گی۔
محمّد نے عالی مرتبہ بصیرت اور پیغمبری رات کے وقت حاصل کی۔
ترجمہ: ہم نے اس(قران) کو شب قدر (طاقت کی رات) میں نازل (کرنا شروع) کیا۔[25]
حضرت محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جلد ہی محسوس کیا کہ اس کی سمجھ کو آسمانی روشنی نے منوّر کیا۔ حضرت محمّد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فطری طور پر اس دنیا سے پردہ فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کے مطابق، حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کے وقت پردہ فرمایا۔ جب وہ وفات پا رہے تھے تو دیّے میں تیل نہیں تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ کو تیل قرض لینا پڑا۔ حضرت انس کے مطابق، محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کی رات نہایت روشن معلوم ہوتے تھے۔

بدھا صرف مبلّغ ہوتے ہیں[ترمیم]

دھمّا پڈّا اور مشرق کے مقدّس کتب کے مطابق:
جاتھاگا (بدھا) صرف مبلّغ ہوتے ہیں۔[26]
قرآن فرماتا ہے۔
ترجمہ: تو آپ نصیحت کرتے رہیے کہ آپ نصیحت کرنے والے ہی ہے۔ آپ ان پر داروغہ نہیں ہے۔[27]

بدھا کے مطابق ‘مایتریا’ کی پہچان[ترمیم]

دھمّا پڈّا اورماتایاستّا کے مطابق:
موعود (انسان) کے یہ (صفات) ہوں گے۔
1) ساری مخلوقات کے لیے رحمت
2) امن کا پیغمبر
3) امن ساز
4) دین میں سب سے کامیاب ترین انسان
‘مایتریا’ اخلاق و اقدارکے مبلّغ کی حیثیت کے مطابق(مندرجہ ذیل صفات کا حامی ہوگا)
1) سچّا
2) خودّار
3) شریف اور عالی شان
4) غرور نہ کرنے والا
5) مخلوقات کے لیے باد‎شاہ
6) اپنے کلام اور اعمال میں دوسروں کے لیے نمونہ [28]

پارسی مت کی کتابوں میں محمدۖ کا ذکر[ترمیم]

زند او ستا ميں محمّد صلی اللہ عليہ و سلم کا ذکر[ترمیم]

اس کا ذکر ہے زند او ستا میں:
جس کا نام فاتح سوی شنت ہو گا اور جس کا نام استوت ايريٹا ہو گا۔ وہ سوی شنت (رحم کرنے والا ) ہو گا کيونکہ وہ ساری مادی مخاوقات کے لیے رحمت ہو گا۔ وہ استوت۔ ايریٹا ( وہ جو عوام اور مادی مخلوقات کو سرخرو کرے گا) ہو گا۔ کيونکہ خود مثل مادی مخلوقات اور زندہ انسان کے وہ مادی مخلوقات کی تباہی کے خلاف کھڑا ہو گا اور دو پائے مخلوق (يعنی انسان) کے نشے کے خلاف کھڑا ہو گا۔ اور ايمان داروں ( بت پرست اور اس جيسے لوگ اور مجوسوں کے غلطيوں) گناہوں کے خلاف کھڑا ہو گا۔[29][30]
يہ پيش گوئی جتنی آپ صلی اللہ عليہ و سلم پر صادق آتی ہے کسی اور پر راست نہيں آتی۔
آپ صلی اللہ عليہ و سلم نہ صرف فتح مکہ (کے روز) فاتح تھے بلکہ رحيم بھی تھے جبکہ اس نے اپنے خون کے پياسے دشمنوں کو يہ کہہ کر معاف کر ديا، ” آج آپ سے کوئی انتقام نہيں ليا جائے گا”۔ سوی شنت کے معنی ہے، تعريف کيا گيا۔ بحوالہ حيسٹنگ انسائی کلوپيڈيا، جس کا عربی ميں ترجمہ بنتا ہے، ”محمّد صلی اللہ عليہ و سلم “۔
استوت ايریٹا لفظ استو سے اخذ کيا گيا ہے جس کا سنسکرت اور زندی زبانوں ميں معنی ہے تعريف کرنا۔ اور موجودہ فارسی زبان ميں فعل ‘ستودن’ تعريف کرنے کو کہتے ہے۔ اس کو فارسی کے لفظ ايستادن سے بھی اخذ کيا جا سکتا ہے جس کے معنی ہے، کھڑا ہونا۔ اس ليے استوت ايریٹا کے معنی ہے، وہ جس کی تعريف کی گئی ہو۔ جو ہو بہو عربی لغت احمد صلی اللہ عليہ و سلم کا ترجمہ ہے جو آپ صلی اللہ عليہ و سلم کا دوسرا نام ہے۔ (لہذا) يہ پيش گوئی آپ صلی اللہ عليہ و سلم کے دونوں ناموں کی نشان دہی کرتی ہيں جو ہيں محمّد صلی اللہ عليہ و سلم اور احمد صلی اللہ عليہ و سلم۔ يہ پيش گوئی مزيد يہ کہتی ہے کہ وہ مادی دنيا کے لیے رحمت ہو گا۔ اور قران اس بات کی گواہی ديتا ہے سورۃ الانبياء سورۃ نمبر 21 آيت 107:
ہم نے آپ کو پوری انسانيت کے لیے رحمت بنا کر بھيجا ہے۔ [31]

پيغمبر صلی اللہ عليہ و سلم کے صحابہ کا تقدس
زند او ستا کے زمياد ياشت میں درج ہے کہ:
اور اس کے دوست (صحابہ) سامنے آيئے نگے، استوت ايریٹا کے دوست، جو شيطان کو ہرانے والے، اچھی سوچ رکھنے والے، اچھا بولنے والے، اچھے اعمال والے اور اچھی قانون کی پابندی کرنے والے اور جن کی زبانيں باطل و جھوٹ کا ايک حرف بھی بولنے کے لیے کبھی بھی نہيں کھولی۔[32][33]
يہاں بھی آپ صلی اللہ عليہ و سلم کا استوت ايریٹا کے نام سے ذکر کيا گيا ہے۔ يہاں پيغمبر صلی اللہ عليہ و سلم کے دوستوں کا ذکر مثل ہم نواوؤں کے کيا گيا ہيں جو باطل کے خلاف لڑے نگے۔ جو بہت نيک اور مقدس بندے ہو نگے جو اچھے اخلاق رکھتے ہو نگے اور ہميشہ سچ بولے نگے۔ يہ صحابہ کے لیے ايک واضح حوالہ ہے جو آپ صلی اللہ عليہ و سلم کے دوست ہيں۔

دساتير ميں محّمد صلی اللہ عليہ و سلم کا ذکر[ترمیم]

دساتير ميں ذکر کیے گئے پيش گوئی کا خلاصہ اور لب لباب يہ ہے کہ زرتشتی لوگ اپنے مذہب کو ترک کر ديں نگے اور بدکار ہو جا ينگے تو (سرزمين) عرب ميں ايک شخص نمودار ہو گا، جن کے پیروکار فارس کو فتح کر لينگے اور جاہل فارسی لوگوں کو مغلوب کر دينگے۔ اپنے عبادت خانوں ميں وہ آگ کی پرتش کی بجائے کعبہ ابراھيم کی طرف منہ کر کے عبادت کر ينگے۔ جو سارے بتوں سے پاک کيا جائے گا۔ یہ (پيغمبر عربی صلی اللہ عليہ و سلم کے صحابہ) ساری دنیا کے لیے رحمت ہو ںگے۔ يہ فارس، مدين، توس، بلخ، زرتشتی قوم کے مقدس مقامات اور آس پاس کے علاقوں کے آقا بنے نگے۔ ان کا پيغمبر ايک بليغ انسان ہو گا جو معجزاتی باتيں کر يگا۔ يہ پيش گوئی آپ صلی اللہ عليہ و سلم کے سوا کسی دوسرے کی طرف اشارہ نہيں کرتی۔

محّمد صلی اللہ عليہ و سلم آخری پيغمبر ہو نگے
اس کا ذکر بنداحش کی کتاب ميں کيا گیا ہيں کہ سوی شنت آخری پيغمبر ہو گا۔[34]
جس کا مطلب يہ ہے کہ محمّد صلی اللہ عليہ و سلم آخری پيغمبر ہو گا۔ قرآن، سورۃ احزاب ميں اس کی تصديق کرتی ہيں۔
ترجمہ: محمّد تمھارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبراور نبیوں (کی نبوت) کی مہر( یعنی اس کو ختم کر دینے والے) ہیں اور ‍خدا ہر چیز سے واقف ہے۔[35]

ہندومت کی کتابوں میں محمّد کا ذکر[ترمیم]

حضرت محمّد صلی اللھ علیھ وآلھ وسلّم' کا ذکر بڑے تفصیل کے ساتھ ہندو مت کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ آپ کا ذکر ہندو مت کی مقدس کتابوں میں کیا گیا ہے۔ آپ کا ذکران کی مقدس کتب بھگودگیتا، وید اور اُپنشد وغیرہ میں کیا گیا ہیں۔[36]

رگ وید میں محمّد کا ذکر[ترمیم]

حضرت محمّد کا ذکر رگ وید میں کیا گیا ہے اور آپ کا نام سوشارما بتایا گیا ہے۔ اور سوشارما سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے، تعریف کیا گیا (شخص)۔ اور عربی میں اس کا مطلب بنتا ہے، محمّد۔[37]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مذاہبِ عالم میں حضرت محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحہ 7
  2. بائبل میں حضرت محمّد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر، مصنّف : شیخ احمد دیدات، صفحہ 33
  3. ^ ا ب القرآن، سورة اعراف سورہ نمبر7 آیت 157
  4. ^ ا ب بائبل، ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا)، سورةنمبر 18 آیت 18
  5. ^ ا ب بائبل، متیٰ (Methew)، سورة 1، آیت 18
  6. ^ ا ب بائبل، لوقا (Luke)، سورة1، آیت 35
  7. ^ ا ب القرآن، سورة 3، آیات 47-42
  8. ^ ا ب القرآن، سورة 4، آیات 158-157
  9. ^ ا ب بائبل، ڈیوٹرانومی(Deuteronomy) سورة18آیت 18
  10. ^ ا ب بائبل، ڈیوٹرانمی(کتابِ استثنا)، سورةنمبر 18 آیت 19
  11. ^ ا ب بائبل، (Isaiah) کی کتاب، سورة 29 آیت 12
  12. القرآن، سورة الصف سورة 61 آیت 6
  13. بائبل، یوحنا(John)کی کتاب سورة 14 آیت 16
  14. بائبل، یوحنا(John) کی کتاب سورة 15 آیت 26
  15. بائبل، یوحَنّا(John) کی کتاب سورة 16 آیت 7
  16. بائبل، یوحنا (John) کی انجیل سورة 16 آیات14-12
  17. بائبل، سلیمان کی مناجات (songs of solomon)، سورة 5، آیت 16
  18. چکاوتی سنهنادستّانتا کی سورہ 3 آیت 76
  19. مشرق کی مقدّس کتب، جلد نمبر 35، صفحہ نمبر 225
  20. انجیل بدها، تصنیف : کارس، صفحات 218 –217
  21. القران، سورۀ نمبر 21 آیت 107
  22. مشرق کے مقدّس کتب، جلد نمبر11، صفحہ نمبر 97
  23. ماحا پاری نیانا ستّّا، سورۀ نمبر 5، آیت 36
  24. انجیل بدها، تصنیف : کارس، صفحہ 214
  25. القران، سورۃ القدر 1:97
  26. مشرق کے مقدّس کتب، جلد نمبر10، صفحہ نمبر 67
  27. القران، سورۃ الغاشیّہ 88: 21 -22
  28. ماتایاستّا، صفحہ 151
  29. زند او ستا، فرور دين یاشت، سورۃ 28 آيت 129
  30. مشرق کی کتب مقدسہ، جلد 23، زند او ستا حصّہ دوم صفحہ 220
  31. القرآن، سورۃ الانبياء سورۃ نمبر 21 آيت 107
  32. مشرق کی کتب مقدسہ، جلد 23، زند او ستا حصہ دوم صفحہ 308
  33. زند او ستا، زمياد ياشت، سورۃ نمبر 16 آيت 95
  34. بنداحش، سورۃ نمبر 30، آيات 27-6
  35. القرآن، سورۃ نمبر 33 آيت 40
  36. مذاہبِ عالم میں حضرت محمّد کا ذکر، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحہ 129
  37. رگ وید کی پہلی کتاب، ہیم 53، آیت 9