محمود حسین (کرکٹ کھلاڑی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود حسین ٹیسٹ کیپ نمبر12
محمود حسین 1962ء میں
ذاتی معلومات
پیدائش2 اپریل 1932(1932-04-02)
لاہور، پنجاب، برٹش انڈیا
وفات25 دسمبر 1991(1991-12-25) (عمر  59 سال)
نارتھ وِک پارک، لندن، انگلینڈ
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا فاسٹ میڈیم گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 12)23 اکتوبر 1952  بمقابلہ  بھارت
آخری ٹیسٹ5 جولائی 1962  بمقابلہ  انگلینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ فرسٹ کلاس
میچ 27 97
رنز بنائے 336 1160
بیٹنگ اوسط 10.18 10.94
100s/50s -/- -/1
ٹاپ اسکور 35 50
گیندیں کرائیں 5910 18538
وکٹ 68 329
بولنگ اوسط 38.64 25.28
اننگز میں 5 وکٹ 2 19
میچ میں 10 وکٹ - 3
بہترین بولنگ 6/67 8/95
کیچ/سٹمپ 5/- 31/-

محمود حسین انگریزی:Mahmood Hussain (پیدائش: 2 اپریل 1932ء لاہور، پنجاب) | (وفات: 25 دسمبر 1991ء نارتھ وِک پارک، مڈل سیکس، انگلینڈ) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی ہیں۔[1]جنھوں۔نے پاکستان کی طرف سے 27 ٹیسٹ میچ کھیلے محمود حسین اپنے ٹیسٹ کیریئر میں پاکستان کے علاوہ مشرقی پاکستان' کراچی' نیشنل ٹائر اینڈ ربر کمپنی' پاکستان یونیورسٹیز اور پنجاب کی طرف سے کرکٹ کھیلنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ سیدھے ہاتھ سے بیٹنگ کرنے کے حامل تھے لیکن ان کی پہچان ابتدائی طور پر بائونگ کرنے والوں میں سے تھی۔ وہ ایک تیز گیند باز تھے جنھوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 27 ٹیسٹ میچز کی 42 اننگز میں 5910 رنز کے عوض 68 وکٹیں حاصل کیں۔ 67 رنز کے عوض 6 وکٹوں کا حصول ان کے کیریئر کی ایک اننگ میں بہترین بائولنگ تھی۔

ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز[ترمیم]

1952-53ء کی دہائی میں وہ پاکستان کے ابتداتی سکواڈ کا حصہ تھے جس نے بھارت کا دورہ کیا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ابتدائی تین بائولر محمود حسین' فضل حسین اور خان محمد تینوں کا تعلق لاہور سے تھا۔ 2 اپریل 1932ء کو پیدا ہونے والے محمود حسین کے بارے میں بہت کم معلومات ہمیں دستیاب ہیں حالانکہ انھوں نے ایک کے بعد ایک ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سے لکھنؤ کا وہ ٹیسٹ بھی شامل ہے جو 1952-53ء میں دورہ بھارت کا ابتدائی ٹیسٹ تھا جس میں خان محمد کے زخمی ہونے پر محمود حسین کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا اور انھوں نے اپنی کارکردگی سے اپنے انتخاب کو سچ ثابت کر دیا۔ انھوں نے پہلی باری میں 4 وکٹوں کو سمیٹا۔ 23 اوورز میں 35 رنز کے عوض پولی امریگر 15' بھارتی کپتان لالہ امرناتھ 10 اور نانا جوشی کو پویلین کی راہ دکھائی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کے 23 اوورز میں 7 اوورز ایسے تھے جن پر بھارتی سورما کوئی بھی رنز نہ بنا سکے۔ البتہ بیٹنگ میں صرف 13 رنز ہی جوڑ سکے لیکن دوسری اننگز میں جب ان کو گیند دیا گیا تو صرف ایک ہی وکٹ ان کے حصے میں آیا جب بھارتی اوپنر پنکج رائے ان کے ہتھے چڑھے کیونکہ دوسری طرف فضل محمود نے 42 رنز کے عوض 7 بھارتی بلے بازوں کو بے بس کرکے پاکستان کی فتح ممکن بنا دی تھی۔ سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں محمود حسین نے پہلی اننگز میں 129 رنز دے کر 3 وکٹ لیے اور چوتھے ٹیسٹ میں ان کے حصے میں 2 وکٹ آئیں۔ بارش سے متاثر ہوکر میچ ڈرا نہ ہوتا تو شاید ان کے وکٹوں کی تعداد زیادہ ہوتی۔ سیریز کے آخری اور پانچویں ٹیسٹ میں انھوں نے 114 رنز کے عوض 3 وکٹوں کا حصول ممکن بنایا۔ یوں اس سیریز میں 12 وکٹ لے کر انھوں نے ایک متاثر کن کارکردگی دکھائی[2]

1954ء کا دورہ انگلینڈ[ترمیم]

1954ء میں جب پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو محمود حسین ٹیم کے ہمراہ تھے۔ سیریز کے ابتدائی تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی ٹیم مشکلات کا شکار تھی تاہم اوول کے مقام پر 12 سے 17 اگست تک کھیلے جانے والا ٹیسٹ کئی حوالوں سے یادگار تھا۔ پاکستان کے یوم آزادی 14 اگست کے حوالے سے پاکستان کی نوزائیدہ ٹیم نے کرکٹ کے بانی ملک کو انہی کے میدانوں پر دھول چٹائی۔ یہ ایک دلچسپ ٹیسٹ تھا جس میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنی پہلی اننگ میں صرف 133 رنز بنا سکی جس میں محمود حسین کا حصہ 23 رنز تھا جس میں 4 شاندار چوکے شامل تھے۔ پاکستانی ٹیم کا یہ مجموعہ اگرچہ مایوس کن تھا مگر فضل محمود نے 6 اور محمود حسین نے 4 وکٹیں لے کر انگلینڈ کی بیٹنگ کو 130 رنز پر محدود کرکے سبھی کو حیران کر دیا تھا۔ محمود حسین دوسری اننگز میں صرف 6 رنز بنا سکے اور ان کے حصے میں صرف ایک وکٹ ہی آئی مگر پاکستان کی اس ٹیسٹ میں 24 رنز سے فتح یہ بتا رہی تھی کہ وہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ابتدائی دو سیریز میں اتنی شاندار کارکردگی کے باوجود وہ 1956-57ء میں ذاتی مصروفیات کے باعث آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کے واحد ٹیسٹ میں شرکت نہ کرسکے جس میں پاکستان نے 9 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔

1958-59ء میں ویسٹ انڈیز کا دورہ پاکستان[ترمیم]

1958-59ء میں جب ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا تو محمود حسین نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پاکستان کی کارکردگی میں معاون بنے۔ جب پاکستان نے 1/2 سے یہ سیریز جیت لی تو یہ محمود حسین ہی تھے جنھوں نے ڈھاکہ کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں مجموعی طور پر 5 کھلاڑیوں کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ محمود حسین ایک زبردست بائولر تھے مگر کرکٹ میں وہ زیادہ دیر تک ٹیم کا حصہ نہ رہ سکے۔ اس کی لاتعداد وجوہات تھیں مگر وہ ایک متاثر کن گیند باز تھے جنھوں نے پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اپنے جوہر دکھائے۔

اعداد و شمار[ترمیم]

محمود حسین نے 27 ٹیسٹ میچز پر مشتمل کیریئر میں 39 اننگز کھیلیں جس میں 6 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 336 رنز بنائے جن میں 35 ان کا سب سے زیادہ (ایک اننگ) کا سکور تھا۔انھوں نے 5 کیچز بھی پکڑے جبکہ فرسٹ کلاس کے 97 میچز کی 118 اننگز میں 1160 رنز ان کے کھاتے میں درج ہیں۔ 50 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا جبکہ 31 کیچز بھی انھوں نے تھام رکھے تھے۔ تاہم ان کی بائولنگ پرفارمنس قابل دید تھی۔ انھوں نے ٹیسٹ میچوں میں 68 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 329 وکٹیں حاصل کرکے اپنے مختصر کیریئر کو یادگار بنا دیا تھا[3]

وفات[ترمیم]

محمود حسین شوگر کے مرض میں مبتلا تھے اور لندن کے نارتھ وک پارک ہسپتال میں 59 سال اور 268 دن کی عمر میں 25 دسمبر 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کھیل کے ایک فائٹر کے طور پر انھوں نے کبھی بیماری کے خلاف اپنے عزم کا کمزور پڑنے نہیں دیا تھا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Mahmood Hussain (cricketer)" 
  2. https://www.espncricinfo.com/player/mahmood-hussain-41267
  3. https://www.espncricinfo.com/player/mahmood-hussain-41267